جموں و کشمیر میں 90 سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہو چکی ہے ۔ دس سال کے بعد ہوئے ریاستی انتخابات میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں 61 فیصد دوسرے میں 57.31 فیصد اور آخری مرحلے میں 66 فیصد ووٹ پڑے ہیں ۔ یہ ریاست میں اب تک کی ریکارڈ ووٹنگ ہے ۔ کئی حلقوں میں تو دہائیوں کا ریکارڈ بھی ٹوٹا ہے ۔ زیادہ ووٹنگ برسرے اقتدار جماعت سے ناراضگی یا دوسرے دعویداروں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی علامت ہوتی ہے ۔ عوام نے کس کے حق میں ووٹ کیا یہ تو آنے والا وقت بتاے گا ۔ مانا جا رہا ہے نتیجے چونکانے والے ہو سکتے ہیں ۔
جموں کشمیر کی سیاست پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کبھی کانگریس، کبھی بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بناتی رہی ہے ۔ 2014 میں پی ڈی پی، بی جے پی نے مل کر حکومت بنائی تھی ۔ حالانکہ الیکشن میں دونوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے تھے ۔ جس کا پی ڈی پی کو سری نگر اور بی جے پی کو جموں میں فائدہ ملا تھا ۔ اس مرتبہ نیشنل کانفرنس کانگریس کے ساتھ مل کر انتخابی میدان میں ہے ۔ نیشنل کانفرنس 51 کانگریس 37 سی پی آئی (ایم) اور جموں کشمیر نیشنل پینتھر پارٹی ایک ایک سیٹ پر چناؤ لڑ رہی ہے ۔ پی ڈی پی حالانکہ انڈیا اتحاد کا حصہ ہے لیکن ریاست میں اس کے خلاف ماحول کو دیکھتے ہوئے کانگریس لیڈر پی ڈی پی سے اتحاد کے حق میں نہیں تھے ۔ کشمیر کے لوگ دفعہ 370 ہٹانے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام صوبہ بنائے جانے کے لیے محبوبہ مفتی کی پارٹی کو ذمہ دار مانتے ہیں ۔ ویسے کشمیر میں کامیاب بھارت جوڑو یاترا اور راہل گاندھی کی نوجوانوں میں غیر معمولی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کانگریس کو اکیلے الیکشن لڑنا چاہیے تھا ۔ اس سے کارکنوں میں نئی جان آتی اور ریاست میں پارٹی مضبوط ہوتی ۔ جموں میں لڑائی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے ۔ یہاں نیشنل کانفرنس کا امتحان ہوگا کہ وہ اتحاد میں رہتے ہوئے اپنے ووٹ کانگریس کو ٹرانسفر کرا پاتی ہے یا نہیں ۔ حالانکہ پاکستان کے دفعہ 370، 35 اے اور ریاست کے درجہ پر بیان نے کانگریس اور این سی کی مشکل بڑھائی تھی ۔
جموں کشمیر اکیلی ایسی ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ وہاں کا وزیر اعلیٰ مسلمان ہوتا ہے، مسلم وزیر اعلیٰ اور پہاڑی ریاست ہونے کے ناتے ملے حقوق ملک کے حکمرانوں کو برداشت نہیں ۔ جبکہ کئی دوسری ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت اسی طرح کے حقوق ملے ہوئے ہیں ۔ بھارت نے جو برطانوی طرز حکومت اپنایا یے ۔ اس میں اکثریتی آبادی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے ۔ اس کے برعکس جن ممالک میں اکثریتی رائے کے بجائے انکلوسیو جمہوریت کا نظام نافذ ہے ۔ وہاں اقلیتوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے جمہوری ادروں میں نمائندگی ملتی ہے، مگر پھر بھی اکثریتی آبادی ہی لیڈ کرتی ہے ۔ جموں کشمیر میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے لیے تمام سازو سامان کیے گئے ہیں تاکہ اسمبلی ریاست کی اکثریت کی نمائندگی نہ کر سکے ۔ یہاں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی 68.3 فیصد اور ہندو 28.2 فیصد ہے ۔ مگر 2022 کے حد بندی کمیشن نے بقول افتخار گیلانی مسلم اکثریتی وادی کشمیر جہاں ریاست کی 56.15 فیصد آبادی رہتی ہے کو 47 سیٹیں اور ہندو اکثریتی جموں کی 43.85 فیصد آبادی کو 43 سیٹیں دی ہیں ۔ یہ حد بندی رائے دہندگان کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے خلاف انتخابی عصبیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹیں 25 سے بڑھا کر 31 کر دی گئی ہیں ۔ تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں اضافہ ہو ۔ مگر جمہوریت کا یہ اصول ملک کے دوسرے خطوں میں لاگو نہیں ہے ۔ اس طرح ریاست کی 28 فیصد ہندو آبادی کو 34.44 فیصد سیٹیں حاصل ہو گئی ہیں ۔ جموں میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن مسلمانوں کی آبادی بھی 34.21 فیصد ہے ۔ اس غیر منصفانہ حد بندی کے ذریعہ مسلم اکثریتی حلقوں کو 12 سے کم کرکے 9 کر دیا گیا ہے ۔ یہ حد بندی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل 37 سیٹوں میں سے 12 مسلم اکثریتی نشستیں تھیں ۔ راجوری سے 2014 میں بی جے پی کا امید وار 2.86 فیصد ووٹ کے فرق سے ہار گیا تھا ۔ یہاں مسلم آبادی 70 فیصد اور ہندو 28 فیصد ہیں ۔ حد بندی کمیشن نے اس سیٹ سے سوہنا تحصیل جہاں 91 فیصد مسلم آبادی ہے کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے راجوری سیٹ بی جے پی کو نکالنا مشکل ہوتا تھا ۔ اتنا ہی نہیں بالمیکی سماج کے دس ہزار لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے ۔ انہیں 1957 میں پنجاب سے لا کر یہاں بسایا گیا تھا ۔ یہ 67 سال کے بعد پہلی مرتبہ اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کریں گے ۔ اس کے باوجود ہندو بیلٹ میں بی جے پی کی حالت کافی پتلی بتائی جاتی ہے ۔ گو کہ اگست 2019 کو ریاست کو تحلیل کرنے، دفعہ 370 کو ہٹانے اور ریاست کی شناخت مٹانے کے اقدام کو اس خطے سے پذیرائی ملی تھی ۔ اب وہاں کے لوگوں کو کاروبار سے لے کر نوکریوں تک میں گھاٹے کا احساس ہو رہا ہے ۔ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی وجہ سے جہاں وادی میں عوام کی آمدن و قوت خرید پر اثر پڑا ہے ۔ وہیں اس نے جموں میں بحران پیدا کر دیا ہے کیونکہ کشمیر کو مال کی سپلائی اسی خطے کے کاروباری کرتے تھے ۔
بی جے پی نے اپنے کیڈر کے بجائے دوسری پارٹیوں سے آئے نیتاؤں پر بھروسہ کیا ہے ۔ وہ صرف 62 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے ۔ وادی کی 28 سیٹوں پر اس نے کوئی امیدوار نہیں اتارا ہے ۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو اندرونی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ باغی امیدوار اس کا کھیل بگاڑ رہے ہیں ۔ ایودھیا کی سیٹ ہارنے کے بعد اس کی پوری توجہ ویشنو دیوی کی سیٹ جیتنے پر لگی ہے ۔ یہ ریاست کی سب سے چھوٹی سیٹ ہے ۔ جو 30 ہزار ووٹ حاصل کر لے گا وہ جیت جائے گا ۔ ذرائع کے مطابق اندرونی سروے بی جے پی کو بارہ سے بیس کے درمیان ہی سیٹیں ملنے کی پیشین گوئی کر رہا ہے ۔ سینئر صحافی اشونی کمار کا کہنا تھا کہ کانگریس اگر محنت کرے اور پرینکا گاندھی کی جموں کشمیر میں زیادہ میٹنگیں ہوں تو بی جے پی کا صفایا بھی ہو سکتا ہے ۔ اپنے ہی گھر میں ہار کے اندیشہ سے بی جے پی کی نظر جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پر لگی ہوئی ہے ۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہو جائیں گی ۔ بی جے پی کے اس قدم سے گوجر اور بکروال جو درج فہرست ٹرائب کا فائدہ اٹھاتے تھے وہ ناراض ہیں ۔ اب بی جے پی کو انتخابی ریوڑیوں، پراکسی اور نامزد امیدواروں سے ہی بھروسہ ہے ۔ اسے اپنے نام پر ووٹ ملنے کی امید بہت کم ہے ۔
مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد امیدواروں کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ووٹ تقسیم کرنے اور مسلم آبادی کو بے اختیار کرنے کی سازش کی گئی ہے ۔ اشونی کمار کہتے ہیں کہ انجینئر رشید کی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی کے پاس بڑے بڑے جلسے کرنے اور درجنوں گاڑیوں کے ساتھ جلوس نکالنے کے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں ۔ جبکہ ان کے بچے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ وہ خود عارضی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف جماعت اسلامی ہے جس پر جموں کشمیر میں پابندی لگی ہوئی ہے ۔ اس کے دس ممبر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ 1987 تک ہم ایکٹو سیاست میں تھے ۔ اب ہمارا جمہوریت اور انتخاب میں یقین ہے ۔ پہلے جماعت کا ووٹ پی ڈی پی کو ٹرانسفر ہوتا تھا ۔ الطاف بخاری اور سجاد لون جو بی جے پی کی بی ٹیم کہلاتے تھے اب انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا ہے ۔ سجاد لون کو اپنی سیٹ بچانا بھاری پڑ رہا ہے ۔ اشونی کمار کہتے ہیں کہ اتنے آزاد امیدوار کہاں سے آئے اور انہیں پیسہ دے کر کس نے کھڑا کیا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ۔ محبوبہ مفتی اور انجینئر عبدالرشید بی جے پی پر کم این سی اور کانگریس پر زیادہ حملہ کر رہے ہیں ۔
دہلی کی تمام قواعد کے باوجود جموں کشمیر کا وزیر اعلیٰ کسی مسلمان کے بننے کا امکان ہے ۔ مرکزی حکومت نے اسی کو دھیان میں رکھ کر انتخاب سے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات دیئے ہیں ۔ وہ 90 سیٹوں کے علاوہ اسمبلی میں پانچ اراکین کو نامزد کریں گے ۔ جن میں دو خواتین، دو کشمیری پنڈت اور ایک 1947 میں پی او کے سے آئے مہاجرین میں سے ہوگا ۔ پولس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنر کا کنٹرول ہوگا ۔ تقرری سے متعلق تمام امور پر ایل جی کی منظوری لینی ہوگی ۔ اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکتی ۔ ایل جی کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ وزراء کے شیڈول یا مٹنگوں کے ایجنڈے کو دو دن قبل ایل جی کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکتے ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی حکومت سے باہر رہتے ہوئے بھی ایل جی کے ذریعہ اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے ۔ ووٹنگ کے ذریعہ عوام نے اپنا فیصلہ سنایا ہے کہ اسے جموں کشمیر کا موجودہ نظام پسند نہیں ہے ۔ کیا عوام کی آواز مرکزی حکومت کے کان تک پہنچے گی یا پھر وہ اپنے اہنکار میں عوام کے احساس کو نظر انداز کر دے گی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)