Home تجزیہ مسلمانوں کی نمائندگی کی تحریک کیوں؟ – شکیل رشید

مسلمانوں کی نمائندگی کی تحریک کیوں؟ – شکیل رشید

by قندیل

مسلم قائدین کو مہاراشٹر اسمبلی میں نمائندگی دلوانے کے لیے ان دنوں ایک تحریک سی چھڑ گئی ہے ۔ جسے دیکھو یہ آواز اٹھا رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی نمائندگی یقینی بنائیں ۔ کچھ لوگ مطالبے کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے انہیں نمائندگی دی جائے ۔ ایک طرف سے تو یہ آواز اٹھی ہے کہ مہاراشٹر کے آنے والے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کو سو سے زائد سیٹیں دی جائیں ۔ یہ مطالبے جائز ہیں ، اس لیے آواز اٹھانے اور تحریک چھیڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ نمائندے ایوان میں پہنچیں گے تو مسلمانوں کا کون سا بھلا کر دیں گے؟ کیا ماضی کے تجربات ہمارے لیے کافی نہیں ہیں؟ کتنے ہی مسلم قائدین ایوانوں میں پہنچے بلکہ اقتدار کی مسندوں پر متمکن رہے ، وزیر بنے ، وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ تک بنے ، انہوں نے مسلمانوں کا کیا بھلا کر دیا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کسی نے پلٹ کر اپنے ووٹروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ، مسائل حل کرنے کی تو بات ہی چھوڑیں ۔ مثال لوک سبھا کے اس گزرے ہوئے الیکشن میں جیتنے والے مسلم قائدین کی لے لیں ، یہ تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ دیکھ اور سن رہے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی مآب لنچنگ کی جا رہی ہے ، لیکن ان کی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ۔ ایک اسدالدین اویسی کو چھوڑ کر کسی نے بھی مآب لنچنگ کی بات نہیں کی ہے ، نہ عمران مسعود نے اور نہ ہی اقراء حسن نے اور نہ ہی رام پور سے جیتنے والے مولانا محب اللہ ندوی نے اور نہ ہی معروف کانگریسی لیڈر طارق انور نے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے آقاؤں کی طرف سے مآب لنچنگ پر بولنے کے لیے اشارہ نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ اتنے وفادار ہیں کہ بغیر اشارے کے یہ سر تک نہیں ہلاتے ۔ یہ سڑکوں پر نماز کی ادائیگی نہ کرنے کے لیے بات کر سکتے ہیں ، یہ اعظم خان سے ملاقات نہ کرنے کے سوال پر بے تکا جواب دے سکتے ہیں ، لیکن مآب لنچنگ پر اور مسلمانوں کے مسائل پر بولنے کے لیے اعلیٰ قیادت کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں ۔ مہاراشٹر میں جو تحریک چھڑی ہے میں اس کا مخالف نہیں ہوں ، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ملک بھر میں یہ تحریک چلے ، لیکن ایک تحریک جیت کر ایوانوں میں پہنچنے والے مسلم قائدین کو جوابدہ بنانے کی بھی چلے ۔ ایک پریشر گروپ ایسا بھی بنے جو انہیں ہمیشہ مسلم مسائل پر بولنے بلکہ تحریک چھیڑنے کے لیے آمادہ کرسکے ۔ مہاراشٹر میں مسلم قیادت ، چند لیڈروں کو چھوڑ کر بے عمل ہے ، عوام سے کٹی ہوئی ہے ، خود کو آسمان سے اترا ہوا محسوس کرتی ہے ، لوگوں سے بے عزتی سے پیش آتی ہے اور مسلم مسائل پر بے حس بنی رہتی ہے ، اب اس قیادت کا ہٹنا ضروری ہے ۔ ایسی قیادت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو سمجھدار اور مخلص ہو ؛ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ فی الحال مآب لنچنگ کے خلاف ملک گیر احتجاج ضروری ہے ، کون ہیں وہ مسلم سیاست داں اور قائدین جو اس کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ جواب عملی شکل میں دینا ہوگا اور جو جواب دیں گے وہی مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کر سکیں گے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like