جب میرجعفر اور میرقاسم کی بات ہوتی ہے ، تو لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ، غداری کا ارتکاب کرنے سے قبل یہ وفادار سمجھے جاتے تھے ، کیونکہ یہ خود کو اسی طرح سے پیش کرتے تھے ۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ خود کو وفادار ثابت کرنے کا جھنجھٹ لوگ نہیں پالتے ، غداری کھل کرتے ہیں ۔ میں قوم اور ملت سے غداری کی بات کر رہا ہوں ، یعنی بات مسلمانوں کی ہو رہی ہے دوسروں کی نہیں ۔ ان دنوں اوقاف کا مسئلہ خوب گرم ہے ، مودی حکومت نے لوک سبھا میں ایک ایسا بل پیش کیا ہے جو ، مسلمانوں کے اوقاف کو ہڑپنا اور مساجد و مدارس اور اسلامی آثار پر قابض ہونا ، حکومت کے لیے آسان بنا سکتا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اوقاف کی لوٹ پاٹ میں مسلمانوں کے خود ساختہ دیانت دار قائدین اور معززین گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں ، اور کئی نورانی و مقدس چہرے اوقاف کو اپنی جاگیر بنانے ہوئے ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ اوقاف کی املاک پر حکومت کو قابض ہونے دیا جائے ، ہاں اوقاف کو قبضہ جات سے چھڑانے کے لیے اگر منصوبے بنتے ہیں تو ان منصوبوں کی تائید کی جا سکتی ہے ، اوقاف پر قبضہ حاصل کرنے کی کوئی سازش یا کوئی منصوبہ قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ہی سے کچھ بزعم خود معززین و قائدین اور جنت کے ٹھیکیدار اوقاف بل کی حمایت کرتے اور اوقاف سے متعلق بل پیش کرنے کے لیے بی جے پی و آر ایس ایس کے لیڈروں بلکہ چھوٹے چھوٹے اندھ بھکتوں کی ستائش و تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آ رہے ہیں ۔ یہ قوم و ملت کے دشمن تو ہیں ہی یہ ملک کی سیکولر جمہوریت اور آئین کے بھی دشمن ہیں ۔ یہ ٹولا یا ٹولی ہر اس محاذ پر سرگرم ہے جو مسلمانوں کے خلاف کھولے گیے ہیں ۔ یہ ٹولی شریعت میں تبدیلی کی حمایت کرتی ہے ، یہ ٹولی چاہتی ہے کہ مسلم لڑکیاں بے حیائی کا نمونہ بن جائیں ، اس ٹولی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے قیام پر خوشیاں منائی ہیں ، یہ ٹولی ہر وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہے جو اسے عیش و عشرت کی زندگی دے سکے بھلے قوم و ملت نقصان میں رہے ۔ اور اب یہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے حربے سیکولر سول کوڈ کے لیے بھی سرگرم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ یہی وہ ٹولی ہے جو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے اشارے پر انڈیا اسلامک سینٹر ، نئی دہلی کے الیکشن میں بھی سرگرم تھی ۔ عرصے تک سینٹر کے کرتا دھرتا رہے محمد سراج قریشی کے پینل نے باقاعدہ ایسے لوگوں کو مقابلے میں اتارا تھا جو چیخ چیخ کر مسلم راشٹریہ منچ سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے رہے ہیں ، جیسے کہ ماجد احمد تالی کوٹی ۔ یہ شخص سینٹر کا صدارتی امیدوار تھا لیکن سلمان خورشید کے سامنے اسے ذلت آمیز شکست کا منھ دیکھنا پڑا ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس شخص کا ممبئی سمیت کئی جگہ زوردار استقبال کیا گیا ، اس کی تعریف میں قصیدے پڑھے گیے اور اسے قوم و ملت کا خیرخواہ قرار دیا گیا ۔ معززین ، قائدین اور علمائے دین اس کے آگے پیچھے بچھے رہے ! کیا سب کچھ جانتے بوجھتے کہ یہ سنگھی ٹولے سے جڑے ہوئے لوگ ہیں ان کی حمایت کرنا قوم و ملت سے غداری نہیں ہے؟ کیا یہ عمل میر جعفر اور میر قاسم کے عمل سے بدتر نہیں ہے؟ ہم عام مسلمان کب تک ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے؟ ان سوالوں کے جواب ضروری ہیں ، اور جواب کے بعد کوئی ایسا لائحہ عمل ضروری ہے تاکہ آئندہ مسلمانوں کے مسائل میں جب یہ ٹولا یا ٹولی سامنے آئے تو اسے اس کی اوقات بتائی جا سکے ۔ سلمان خورشید کسی سنگھی مسلمان سے لاکھ درجہ بہتر ہیں کیونکہ یہ کم از کم سینٹر میں بھگوائیوں کی دال تو گلنے نہیں دیں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)