Home تجزیہ مسلمانان ہند کا المیہ-  مسعود جاوید

مسلمانان ہند کا المیہ-  مسعود جاوید

by قندیل

 

لوگ کہتے ہیں ہندوستان کے مسلمان مین اسٹریم سے جڑتے نہیں ہیں، مین اسٹریم کے ایشوز ان کی ترجیحات میں نہیں ہوتے، ان کا سلوک عام ہندوستانیوں سے مختلف ہوتا ہے،وہ عزلت نشینی ghetto living پسند کرتے ہیں،تعلیم،صحت، صفائی اور ملک کی ترقی پر وہ گفتگو نہیں کرتے !

ہاں ہم ایسے ہی ہیں اس لیے کہ ہم نے اپنی ترجیحات طے نہیں کی یا صحیح معنوں میں دیکھا جائے، تو اس ملک کی سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں نے ہماری भूमिका کیا ہو یہ ہمیں طے کرنے نہیں دیا اور ظاہر ہے جب ہم نے خود طے نہیں کیا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ سماج میں ہمارا کیا رول ہوگا،یہ دوسروں نے طے کیا ہے۔

آزادی کے بعد سے آج تک ہماری ترجیح اپنے وجود کی بقا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہم فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں تعلیم صحت صفائی اور ترقی کا نمبر زندگی کی حفاظت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جو سیاسی پارٹی ہمارے لئے امن قائم کرنے کی یقین دہانی کرتی ہے، اسے ہم نے اپنا مسیحا مانا اور اس سے کبھی یہ سوال نہیں کیا کہ دستور ہند میں بلا تفریق مذہب ہماری تعمیر و ترقی کی ضمانتیں دی گئی ہیں،ان سے ہمیں کیوں محروم رکھا جاتا ہے یا ہم خود ان سے مستفید ہونے سے قاصر کیوں ہیں؟ اس سوال کا آسان لفظوں میں جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے وجود کے مسئلوں میں الجھائے رکھا جاتا ہے۔ اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں ہمارا جو یوگ دان رہا، اس کا ذکر کرنے،اس پر فخر کرنے اور برادران وطن کی نظروں میں اعتبار حاصل کرنے کے بجائے آج ہم اس میں الجھا دیے گے ہیں کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں بھی یا نہیں! کبھی دستور میں دی گئی ہمارے پرسنل لا کی ضمانت کو نشانہ بنایا جاتا ہے،تو کبھی مذہب کی بنیاد پر تفریق اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نام نہاد کانگریس اور دیگر ‘سیکولر’ پارٹیاں ہوں یا بی جے پی ہمارے ساتھ سب کا سلوک یہی رہا کہ لگے رہو منا بھائی،تین طلاق،تیس سالوں سے بابری مسجد اور اب شہریت ترمیم ایکٹ، اس کے بعد ممکنہ این آر سی جو اگر پورے ملک میں نافذ ہوا، تو اس کی تکمیل تک پہنچنے میں کم از کم تیس چالیس سال لگیں گے؛ اس لیے کہ ایک چھوٹی سی ریاست آسام جس کی آبادی تین کروڑ پچپن لاکھ ہے،وہاں پانچ سال لگے، پھر بھی فہرست مکمل نہیں ہوئی،کچھ کمیاں بتائی جا رہی ہیں،تو اندازہ کریں کہ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کے لیے کتنے سال درکار ہوں گے۔

You may also like

Leave a Comment