عالم بدیع اعظمی یوپی اسمبلی کے سب سے سینئر ممبر ہیں۔ ان کی عمر اس وقت تقریباً 89 سال ہے۔اعظم گڑھ کی نظام آباد سیٹ سے ان کی مسلسل کامیابی کا راز وہ بے لوث عوامی خدمت ہے جو وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود انجام دیتے ہیں۔ ان کی سیاسی پرورش مسلم مجلس کے بانی قائد ملت ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔ وہ مسلم مجلس کے بانیوں میں آخری آدمی ہیں، جو اس وقت بقید حیات ہیں۔ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے مسلمانوں کے سیاسی امپاورمنٹ کے لیے جو کام اترپردیش میں کیا تھا، اس کی مثال آزادی کے بعد کہیں نہیں ملتی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ تحریک بھی آہستہ آہستہ دم توڑ گئی اور اب محض اس کا سائن بورڈ باقی رہ گیا ہے۔عالم بدیع اعظمی کا معمول یہ ہے کہ وہ تقریباً روزانہ مجھے فون کرکے مسلم مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں مسلمانوں کے تعلق سے جو درد وکرب مجھے محسوس ہوتا ہے، وہ میں نے بہت کم مسلم قائدین میں دیکھا ہے۔ان کی یادداشت قابل رشک ہے او ر آزادی سے لے کر آج تک کی ساری باتیں انھیں یادہیں، تاہم ان کی سماعت کچھ کمزور ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو کے جواب میں جو کچھ میں کہتا ہوں، وہ انھیں سنائی نہیں دیتا۔یہ میری قوت گویائی کا بھی قصور ہوسکتا ہے۔ بہرحال آج مجھے کچھ ایسے مسائل پر گفتگو کرنی ہے جو آپ کے لیے پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ عالم بدیع اعظمی کا کہنا ہے کہ صرف حالات کا ماتم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، کچھ احتساب تومسلمانوں کو بھی اپنا کرنا چاہئے۔ وہ امت واحدہ اور امت صالحہ کب بنیں گے۔ہرطرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔آج کی یہ تحریر دراصل عالم بدیع اعظمی کے کرب کی ترجمانی کرنے اور اس درد میں خود کو شامل کرنے کے لیے قلم بند کررہا ہوں۔کاش عام مسلمان بھی اس پر کان دھر سکیں۔
یہ باتیں ایک ایسے دور میں لکھی جارہی ہیں جب مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی زندگی میں حاشیہ پر پہنچادیا گیا ہے۔ان کی بات کہیں نہیں سنی جارہی ہے۔اس پر ستم یہ ہے کہ انھیں نظم ونسق کے نام پر جکڑ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف روز روزکی سازشوں نے ان کی قوت عمل کو جامد کردیا ہے۔میں نہ تو کوئی ناصح ہوں اور نہ ہی میری تحریر میں وہ بات ہے جو قارئین کے دلوں میں اترسکے۔پھر بھی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں اور یہ ان تحریروں سے جدا ہے جو اب تک میں لکھتا رہا ہوں۔
جید صحافی جمیل مہدی مرحوم نے اسی موضوع پر اپنے روزنامہ ”عزائم“ میں ایک مسلسل اداریہ لکھا تھا۔ بعد کو وہ ”مسلمان کیا کریں؟“ کے عنوا ن سے ایک کتابچہ کی صورت میں شائع بھی ہوا تھا۔ جمیل مہدی مرحوم اس ملت کے غم گسار تھے اور ان کی تحریر میں بڑی کاٹ تھی۔ میں ایک قلم گھسیٹ صحافی ہوں، تاہم میں نے پچھلی چاردہائیوں کی اپنی صحافتی زندگی کے دوران مسلم مسائل کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔حالانکہ جمیل مہدی مرحوم کے مقابلے میں میرا مشاہدہ صفر بھی نہیں ہے۔مگر میں نے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے ان چالیس برسوں میں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے، اسے من وعن بیان کرتا ہوں۔ اپنی تحریروں کو ابہام سے دور رکھنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں تاکہ اپنے قاری سے بلا تکلف مکالمہ کرسکوں۔ میں نے کبھی میز پر بیٹھ کر صحافت نہیں کی، ہمیشہ میدان میں رہ کر رپورٹنگ کرتا رہا اور یہی میری اصل شناخت بھی ہے۔ آج بھی مجھے رپورٹر کہلوانا زیادہ پسند ہے۔میں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ایک معمولی رپورٹر کے طورپرکیا تھا اور میں یہ کام آج بھی کرتا ہوں۔ حالانکہ بڑھتی عمر کے ساتھ میرے قویٰ اب مضمحل ہونے لگے ہیں، لیکن جہاں کہیں جاتا ہوں میرے اندربیٹھا ہوا رپورٹر مجھے مہمیز دیتا ہے۔ میری بیشتر تحریریں سوشل میڈیا کے ذریعہ قارئین تک پہنچتی ہیں۔اخبار کے مقابلے میں یہ طریقہ مجھے زیادہ آسان لگتا ہے۔ یوں بھی لوگ اب اخبارات کے مقابلے سوشل میڈیا سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لکھنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں ردعمل فوری طورپر مل جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اخبارات کے قارئین مراسلات لکھ کر اپنا ردعمل ظاہر کرتے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔روزنامہ ’قومی آواز‘ تواپنے مراسلات کی وجہ سے ہی بہت مقبول تھا۔
میں نے اپنی بات عالم بدیع اعظمی سے شروع کی تھی۔ ان کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ مسلمان امت واحدہ اور امت صالحہ کب بنیں گے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی سیدھاجواب نہیں ہے، کیونکہ جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے مسلمانوں میں کوئی حرارت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ حالات کا ماتم تو کرتے ہیں، لیکن حالات کے جبر سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ڈھونڈتے اور اپنا زیادہ تر وقت فروعی کاموں اور کھانے پینے میں گزارتے ہیں۔
مسلم محلوں میں جائیے تو محسوس ہوگا کہ کھانا پینا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ کچھ لوگ تو مسلسل کھاتے ہی رہتے ہیں۔کیا واقعی ہمیں کھانے پینے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کا کوئی حل ڈھونڈیں؟جی ہاں سب سے ضروری یہی کام ہے،مگر ہم اس سے پوری طرح غافل ہیں۔سرمایہ دار اور خوشحال مسلمان اپنی دولت نمود ونمائش پر خرچ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جبکہ یہ دولت کا سب سے بے جا استعمال ہے۔ آج کل شادیوں میں لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ ہورہے ہیں اور ان کی باقاعدہ نمائش بھی کی جارہی ہے۔ پچھلے دنوں اترپردیش کے غازی آباد شہر میں ایک مسلمان نے اپنے بیٹے کی شادی پر دس کروڑ روپے خرچ کئے تھے۔ اتنے میں تو ایک بہترین کالج بن سکتا تھا، جس سے قوم کے نونہالوں کا مستقبل سدھر سکتا تھا۔ یہ صورتحال شمالی ہندوستان میں سنگین شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ مسلمان تعلیمی، سماجی، سیاسی اورمعاشی طورپر ایک پسماندہ قوم ہیں۔البتہ جنوبی ہند میں صورتحال مختلف ہے اور وہاں مسلمانوں نے اپنے تعلیمی ادارے اور اسپتال قائم کئے ہیں۔
اترپردیش میں کم ازکم دوشہر ایسے ہیں جہاں مسلمان سب سے زیادہ امیر اور متمول ہیں۔ ان میں پہلا شہر بھدوہی ہے جو اپنی قالین صنعت کے لیے مشہور ہے۔دوسرا میرا وطن مرادآباد ہے، جہاں ظروف سازی کے کاروبار میں مسلمانوں نے ہوشربا ترقی کی ہے۔ میرے بچپن میں جو شہر غریبوں اور مزدوروں کا شہر کہلاتا تھا، وہ اب امیر ایکسپورٹروں کا شہر بن گیا ہے۔ غربت آج بھی ہے، مگر خوشحالی بھی خوب ہے، لیکن اس دولت کا مصرف کیا ہے۔ ایک مسلمان ایکسپورٹر نے ایک ہیلی کاپٹر خریدا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ اس کا مصرف کیا ہے تو اس نے کہا ”بیوی کو اس میں بٹھاکر اڑاتا ہوں تو وہ خوش ہوتی ہے۔“ایک بڑے مسلمان ایکسپورٹر نے اپنے نام سے ایک قلعہ بنوایا ہے۔مرادآباد شہر کا یہ ایک رخ ہے۔ ظاہر ہے سرمایہ داروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے،لیکن ان مزدوروں کی تعدادلاکھوں میں ہے جو برتن صنعت سے وابستہ ہیں۔ برتن ڈھالنے والی خطرناک بھٹیوں میں کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کانپور کے بعد سب سے زیادہ مرادآباد ہی میں ہے۔یہاں اسپتالوں اور اچھے اسکولوں کی بے حد کمی ہے۔ کچھ مسلمانوں نے اس طرف توجہ بھی کی ہے، لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابرہے۔مرادآباد میں تعلیم اور طبی سہولتوں کا فقدان ہے اور اس کی سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو ہے، لیکن ان دونوں پہلوؤ ں کی طرف مسلمانوں کی توجہ سب سے کم ہے۔یہ موضوع کیونکہ تفصیل طلب ہے، اس لیے اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ اگلے ہفتہ اس کا دوسرا حصہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)