نیازاحمدملک
یہ سوال آج خاص طور پر اس لئے درپیش ہےکہ ہم تاریخ کے نازک ترین موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں جب اس ملک میں ہمارے وجود پرخطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اللہ رب العزت نے جو اس ملک میں ہزار سالہ مہلت دی تھی اب اختتام کو ہے ۔
ہم ہمیشہ سے جذباتی رہے ہیں، زمینی حقائق سے قطع نظر،حال سے بے خبر دنیا پر حکومت کا خواب دیکھتے رہے ۔
1857 کی جنگ آزادی میں بھی ہم نے حقائق کو ایک طرف رکھ کر جذبات سے جنگ لڑی،نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا اس کے باوجود ہم 1947 تک اسی خوش فہمی میں رہے کہ اس ملک کے اصلی وارث ہم ہی ہیں ۔ اس سوچ کا نقصان یہ ہوا کہ ہم ہی برباد ہوئے ۔ اسی سوچ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور تب تک چین سے نہیں بیٹھے،جب تک ملک دو ٹکڑوں میں نہیں تقسیم ہوگیا۔ اس تقسیم نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی اور حد تو تب ہوگئی جب اسلام کے نام پر بننے والی ریاست نسلی اور لسانی بنیادوں پر دو حصوں میں منقسم ہو گئی ۔ کیونکہ ہم جذباتی تھے ۔
پچھلے دوسو سالوں میں ہم نے مختلف نوعیت کی تحریکیں برپا کیں، مگر وہاں بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ان تحریکات کے ایجنڈے میں عام انسان کے مسائل اور ان کی ضروریات کو کبھی ترجیحات حاصل نہیں رہیں ۔
تقریبا اسی اثنا میں مدارس کی ایک باڑھ سی آئی ۔ ان مدارس اور ان کے علما نے عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی اختیار کی، یا زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر کی باتیں کیں ۔ جس زمین پر زندگی گذار کر آخرت حاصل کرنا تھی،اس کے ہر مسئلے سے بے پرواہ رہے ۔ انھیں یورپ کی شراب اور ننگی ٹانگیں تو دکھیں،مگر عالم انسانیت کی زندگی بہتر بنانے میں جو اس کردار ہے ہمیشہ اسے نظر انداز کیا۔ اسی انگریز کی بنائی ہوی سواری پر سفر کرتے رہے، اسی کی ادویات استعمال کرتے رہے اوراس کی مختلف ایجادات کا استعمال تو کرتے رہے، مگر کبھی یہ غور کرنےکی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم رحمت للعالمین کی امت ہیں اور ہمارابھی انسانیت کی فلاح میں کچھ حصہ ہوناچاہیے۔ ان مدارس سے ایسے علمانکل کر آئے جو اپنے زمانے کو نہیں جانتے ۔ اب اندازہ کیجئے یہ صورتحال کہاں لے جانے والی ہے۔
اب بھی وقت ہے اے کاش ہم حقیقت کا سامنا کریں اور سماجی اور تعلیمی ڈھانچے کو اس انداز میں ڈھال لیں کہ اس امت کو زندگی بخشنے والے لوگ پیدا ہو سکیں۔
یہ ملک مسلمانوں کے لیے سیاست کا میدان ہرگز نہیں بن سکتا،تقسیم ہند کا المیہ نہ ہوتا توشاید ممکن بھی تھا، مگرموجودہ منظرنامے میں تقریبامشکل ہےـ احادیث کے ذخیرے میں ایک مختصر اور دین کی بہت جامع تعبیر ہے ” دین خیر خواہی کا نام ہے ” مسلمان اگر خیر خواہ ہے اپنوں اور غیروں کے لئے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔
تعلیم اور معیشت کے میدان میں مسلمانوں کا کیا تناسب ہے ؟علمااور لیڈران نے امت کو کس کام میں لگایا ہوا ہے؟کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ کرسچن مشنریز کس طرح کام کرتی ہیں؟ یہ سب سے پہلے اسکول اور اسپتال بناتی ہیں؛تاکہ سماج کو یہ باور کرایا جاسکے کہ وہ انسانیت کے خیر خواہ ہیں ۔ اکثر اس کے ساتھ ان کا چرچ بھی ہوتا ہے ۔ وہ بہت قلیل تعداد میں لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کر پاتے ہیں، مگر ایک کثیر تعداد کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتےہیں کہ وہ انسانیت کے محسن ہیں، ان سے نفرت نہیں کی جاسکتی ـ کاش ہم حقیقت کا سامنا کرسکیں!