Home اسلامیات مسلمان دین کو کیوں بھولتے جا رہے ہیں-عبدالعزیز

مسلمان دین کو کیوں بھولتے جا رہے ہیں-عبدالعزیز

by قندیل

دنیا داری دین کی ضد ہے۔ جب آدمی دنیا دار ہوجاتا ہے تو دین کی باتیں آہستہ آہستہ بھولتا جلا جاتا ہے۔ وہ باتیں جو اس کیلئے باعث برکت و رحمت ہوسکتی ہیں اسے یاد نہیں رہتیں۔ آج مجھے اس موضوع پر لکھنے کیلئے جو چیز محرک ہوئی اسے میں پہلے لکھتا ہوں۔ میں گزشتہ روز ایک دعوت میں گیا تھا۔ مجھ سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ ایک صاحب جو لوگوں کو حج اور عمرہ پر لے جاتے ہیں ان کے اعزاز میں استقبالیہ ہے۔ دعوتِ استقبالیہ بہت شاندار طریقہ سے منعقد ہوا۔ جیسے ایک امیر کبیر آدمی کے بیٹے اور بیٹی کی شادی یا ولیمہ کی تقریب ہوا کرتی ہے۔ سجاوٹ بھی اسی پیمانے کی تھی جس پیمانے کی امیروں کی تقریبات میں ہوتی ہے اور انواع و اقسام کا کھانا بھی اسی انداز اور پیمانے کا تھا۔ اس تقریب میں شرکاء کی تعداد تقریباً ایک سو تھی۔
مہمان خصوصی کے ساتھ مجھے بھی بیٹھا دیا گیا اور ایک صاحب میرے بغل میں بیٹھائے گئے۔ انہی سے نشست یا تقریب کا مقصد بیان کرنے کیلئے کہا گیا۔ وہ کلکتہ شہر کے اچھے تاجروں میں سے ہیں اور اسلام پر ان کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ انھوں نے صاف صاف کہاکہ”اس نشست کا اصل مقصد Marketing (تاجرانہ) ہے۔ مہمان خصوصی کے Tour & Travel کی بزنس ہے۔ موصوف لوگوں کو حج اور عمرہ پر لے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے کتنی سہولتیں بہم پہنچائی جاسکتی ہیں اور دوسری ایجنسیوں سے کس قدر مختلف ہیں وہ آپ کو بتائیں گے“۔
مہمان خصوصی نے اپنی Tour & Travel ایجنسی کی خوبیاں مہارت رکھنے والے ایک تاجر یا ایک سیلس مَین کی طرح بیان فرمائیں۔
مجھے کچھ کہنے کی زحمت نہیں دی گئی،لیکن اگرمجھ سے کچھ کہنے کیلئے کہا جاتا تو میں ضرور کہتا کہ ایک مومن یا مسلم جو کچھ بھی کرتا ہے سب کچھ اس کی نیت پر منحصر ہوتا ہے،اسی لئے حدیث میں آیا ہے: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِاالنِّیَّاتِ (عمل کا دار و مدار نیت پر ہے)۔ آدمی تجارت بھی کرے تو اس کی نیت اگر انسان کو فائدہ پہنچانے کی ہو اور اس سے وہ نفع بھی کمائے تو وہ مومن کیلئے عبادت بن جاتی ہے اور اس کی گفتگو اور لب و لہجہ میں بھی فرق واقع ہوجاتا ہے۔مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک صحابی رسولؐ نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ اس کا نیا مکان تعمیر ہوا ہے۔ اسے دیکھنے کی زحمت گوارا کریں۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ مکان دیکھنے تشریف لے گئے،جب مکان کے اندر گئے،توان کی نظر روشن دان پر پڑی تو آپؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ صاحب مکان نے کہا: ”یہاں سے روشنی آئے گی اور ہوا“۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا کہ ”بناتے وقت اگر تم یہ بھی نیت کرتے کہ یہاں سے اپنے پڑوسی کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی کروگے تو جب تک یہ مکان رہتا تمہیں اس کا ثواب بھی ملتا“۔دیکھا آپ نے کہ حسن نیت کتنی اہم اورضروری چیز ہے۔ روشن دان کے مقصد میں کمی بھی نہیں آتی اور ثواب بھی ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کو بتایا گیا کہ وہ کوئی بھی کام انجام دے،تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیاکرے۔
”اس قاعدے کی پابندی اگر شعور اور خلوص کے ساتھ کی جائے،تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جائے گا، کیونکہ خدا کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر خدا کا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اور نیک کاموں کی ابتدا کرتے ہوئے خدا کا نام لینے سے آدمی کی ذہنیت بالکل ٹھیک سمت اختیار کرلے گی اور وہ ہمیشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور توفیق اس کے شامل حال ہوگی، اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اس کو بچایا جائے گا۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے“۔ (تفہیم القرآن)
ایک بڑے بزرگ اور جید عالم دین حضر امام عبداللہ بن مبارکؒ کے ایک واقعہئ حج کا ذکر بہت کیا جاتا ہے۔ وہ حج جسے انھوں نے کیا بھی نہیں۔ واقعہ بہتوں کے علم میں ہوگا۔ جب وہ حج کے سفر پر تھے تو انھوں نے ایک غریب عورت کو جب گھور (کوڑا دان) سے ایک مردار چڑیا کو نکالتے دیکھا تو اپنی سواری سے نیچے اتر گئے۔ دریافت کرنے پر اس عورت نے مردار چڑیا کو گھور سے نکالنے کا سبب یہ بتایا کہ اس کے دو تین بچے بھوک سے تلملا رہے ہیں۔ اس کے گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے، اسے توا پر بھون کر اپنے بچوں کو کھلائے گی۔ حضرت امام عبداللہ بن مبارک نے اپنے خادم سے دریافت کیا کہ گھر واپسی کیلئے کتنی رقم کی ضرورت ہوگی۔ خادم کے بتانے پر اتنی رقم اپنے خرچ کیلئے زاد راہ سے نکال لیا باقیماندہ رقم اس خاتون کے حوالے کرتے ہوئے کہاکہ اس سے اپنے بچوں کو کھانے کا سامان مہیا کرنا اور کاروبار کرنا تاکہ تمہارا اور تمہارے بچوں کا گزارہ ہوسکے۔ واپسی پر جولوگ بھی حج سے آئے حضرت عبداللہ بن مبارک کے پاس گئے اور کسی نے کہاکہ آپ کو طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ملنے کی کوشش کی مگر ملاقات نہ ہوسکی۔ کسی نے عرفات میں اور کسی نے منیٰ اور مزدلفہ میں دیکھنے کی بات کی، مگر آپ نے فرمایا کہ ”میں تو حج کیلئے نکلا تھا،مگر بغیر حج کئے واپس آگیا“۔
آج لوگوں کا یہ حال ہے کہ نوافل حج اور عمرہ بار بار کرتے ہیں،مگر جو فرائض ہوتے ہیں اسے بھول جاتے ہیں۔
علامہ یوسف القرضاویؒ نے اپنی کتاب ”تحریک اسلامی کی ترجیحات“میں لکھا ہے:
”اسلامی بیداری کی تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فقہ پر ترجیحات سے غافل ہوجاتی ہیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم فروعی مسائل کو بنیادی مسائل پر، جزئیات کو کلیات پر اور مختلف فیہ مسائل کو متفق علیہ امور پر ترجیح دینے لگتے ہیں، ادھر حضرت حسین کا پاک خون بہہ جاتا ہے اور ہم مچھر کے خون کے متعلق مسائل پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ نوافل کیلئے معرکے بپا کئے جارہے ہوتے ہیں جبکہ لوگ فرائض ہی چھوڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ شکل و صورت کے متعلق لڑائیاں مول لے رہے ہوتے ہیں اور اصل مقصد کی پرواہی نہیں ہوتی۔ عام مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ رمضان اور غیر رمضان میں لاکھوں لوگ نفلی عمرے ادا کر رہے ہوتے ہیں، بعض لوگ دس دس اور بیس بیس مرتبہ حج کرتے ہیں، اگر ان سب کے سارے اخراجات جمع کئے جائیں تو بات کروڑوں، اربوں روپے تک پہنچ جائے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ہم کئی سالوں سے عالمی اسلامی رفاہی ادارے کیلئے ایک ہزار ملین ڈالر جمع کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں،مگر اب تک ہم اس کا دسواں یا بیسواں تیسواں حصہ بھی جمع نہیں کرپائے۔ آپ اگر ان نفلی حج و عمرے والوں سے کہیں کہ جو مال آپ اس نفلی سفر پر لگا رہے ہیں وہ مال ایشیا اور افریقہ میں عیسائی مشنریوں اور سوشلزم کا مقابلہ کرنے والوں کیلئے لگا دیں یا دنیا کے قحط زدہ علاقوں میں فاقہ زدہ متاثرین کی مدد کیلئے دے دیں تو وہ کبھی بھی اس پر راضی نہ ہوں گے“۔
درج ذیل حدیث اکثر مجلسوں میں بیان کی جاتی ہے۔
”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب (کافر) لوگ تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے جیسا کہ کھانے والے لوگ کھانے کے تھال پر جمع ہوجاتے ہیں۔ ایک شخص نے دریافت کیا۔ کیا ان دنوں ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب اور دبدبے کو نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کر دے گا۔ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کمزوری کا سبب کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا سے محبت اورموت سے بیزاری“۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الملاحم، باب تداعی الامم علی الاسلام)۔جب یہ چیز مسلمانوں میں نہیں تھی تو وہ دیندار تھے اور شجاعت اور بہادری میں بھی سب سے آگے تھے ؎
وہ عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
جب سے مسلمانوں نے ہدایت کے سر چشموں:اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے منہ موڑا،تب سے متاع دنیا کی محبت میں اس طرح گرفتار ہوگئے کہ نہ اپنا بھلا کر پارہے ہیں اور نہ غیروں کا۔ ان پر دنیا تنگ ہوتی جارہی ہے اور عرصہئ حیات بھی تنگ کیا جارہا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment