مسلمان بابری مسجد کے بغیر رہنا سیکھ گیا لیکن کانگریس اور ملائم مایاوتی کے بغیر رہنا نہیں سیکھ پایا، بس اتنی ہی دشواری ہے اور یہی سب سے بڑی دشواری ہے، مسلم قیادت کو لگتا ہے مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے اللہ اپنی کائنات کے اصول طاق پر رکھ دیگا، انہیں ان آزمائشوں سے گزرنے کی ضرورت نہیں جو چھ ارب انسانوں کو ہے، دلت ترقی کرےگا امیڈکر اور کانشی رام کے سماجی آندولن سے، مسلمان ترقی کرےگا دہشتگردی مٹاؤ کنوینشن سے، غیر مسلم ترقی کرے گا سائنس اور ٹیکنالوجی کی قیادت کرکے مسلمان خلیفہ فی الارض بنے گا قدیم کتابوں پر حاشیے اور ان کی شرحیں چھاپ کر، غیر مسلم دنیا پر غالب ہوگا دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں، تحقیقی ادارے، ٹیکنالوجی اسکولز اور خلائی اور ایٹمی تحققیات کے ذریعے اور اسلام غالب ہوگا غلامی اور جمود کے نمائندے، شخصیت پرستی کے مقبرے اور بوسیدہ طرز کے تعلیم اور تربیت کی تحریکیں قائم کر کےـ
معاف فرمائیں اس تلخ نوائی کے لیے! ایک ہزار علما، فضلا، قائدین، مفکرین، مجددین کی فہرست بنا لیجیۓ، ایک ہزار اداروں اور تحریکوں کی فہرست بنا لیجیۓ، جنت سے فرشتے بھی ہنستے ہونگے ہماری سادہ لوحی پر، حکمت عملی اور منصوبہ کے نام پر مرشدین کے خواب ہیں، پر جوش خطابت ہے، وسائل کی بربادی ہے، افراد کی نا قدری ہے، صلاحیت کشی ہے، علم و تحقیق کی تحقیر ہے، شورائیت کے نام پر چاپلوسی اور خود فریبی کا دور ہے، نماز کے علاوہ دنیا کا ایک کام بھی جماعت سے نہیں کر سکتے وہ ہم ہیں، دس مختلف مسالک کی ایک مسجد نہیں چلا سکتے اور دنیا کو بدلنے کا خواب بیچتے ہیں ـ
پہلے زوال پر ہم نے لکھا مسلمانوں نے اس دنیا کو کیا دیا، دوسرے زوال پر ہم نے لکھا مسلمانوں نے اس دنیا سے کیا لیا، پھر لکھا کہ مسلمانوں کو کیا ملا، اور پھر لکھا کیوں نہیں ملا، کاش شروعاتی سوال ہی یہی ہوتا کہ مسلمان اس دنیا کو کیا دے سکتے ہیں، نظام عالم بدلنے نکلے تھے سچرکمیٹی کی رپورٹ ہاتھ میں لیے ہر پارٹی کے در پر کھڑے بھیک مانگ رہے ہیں!
آئیے ہم پھر سے عہد کریں، قسم کھائیں، نہ بدلیں گے نہ بدلنے دیں گے!
اگر بدلنا ہے تو اس کی شروعات اپنی ذات سے کریں، اپنے ادارے سے کریں، اپنے مدرسے سے، اپنی تنظیم اور جماعت سے کریں! اگر اپنی ذات کو اور اپنے خود کے ادارے اور جماعت کو بدلنے کا منصوبہ نہیں بنا سکتے، تو کم از کم ایک کام کریں، آپ کچھ نہ کریں!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)