( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
اترپردیش کے مرادآباد میں جس طرح سے تراویح کی نماز پڑھنے پر ہنگامہ کیا گیا ، لوگوں کو نماز کی ادائیگی سے روکا گیا ، پولیس کی تعیناتی کی گئی اور مسلم طبقے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑائی گئی ، اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک جمہوری ملک میں ، کسی بھی مذہب اور دھرم کے ماننے والوں کو ، ان کی عبادتوں سے روکنا ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تو ہے ہی ، یہ غیر آئینی عمل بھی ہے ۔ اور اس وقت تو یہ عمل مزید غیر آئینی بن جاتا ہے جب لوگوں کو ، اپنی ہی زمین اور اپنے ہی گھر میں عبادت کرنے سے روک دیا جاتا ہے ۔ مرادآباد میں چند مسلمان اپنے اہل خانہ اور اعزا کے ہمراہ اپنے ہی گودام میں تراویح کی نماز کی ادائیگی کررہے تھے کہ بجرنگ دل کے مقامی عہدیدار کی شکایت پر پولیس وہاں پہنچی اور انہیں تراویح پڑھنے سے روک دیا ! سوال یہ ہے کہ کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا ؟ نماز کسی عوامی جگہ پر ادا نہیں کی جا رہی تھی کہ لوگ اعتراض کرتے یا اعتراض کا حق رکھتے ۔ حالانکہ عوامی مقامات پر بھی ، اگر کسی شخص کے آنے جانے میں کوئی تکلیف نہ ہو ، تو نماز پڑھنے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ اس ملک میں عوامی مقامات پر روزانہ ہی الگ الگ مذاہب کے لوگ اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادتیں اور پوجا پاٹ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، اور اعتراض ہونا بھی نہیں چاہیے کہ عبادت ایک آئینی حق ہے ۔ یہ حق بنیادی حقوق میں سے ایک ہے ۔ آئین سازوں نے قوانین بناتے ہوئے یہ خیال رکھا تھا کہ ، ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک کی حیثیت سے ، تمام مذاہب کے ماننے والوں کے تئیں اپنے فرائض پورا کرے ، اور اس ملک میں ہر مذہب ، دھرم اور ذات پات کے لوگ خود کو ، اپنے اپنے طریقے سے ، اپنی عبادتوں کی ادائیگی میں آزاد سمجھیں ۔ لیکن اب یہ حق اسی طرح سے خطرے میں پڑ گیا ہے ، جس طرح سے پہننے ، کھانے اور پینے کا ، اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے حق خطرے میں ہیں ۔ ملک میں کہنے کو تو عوام کے ذریعے ایک منتخب حکومت ہے ، لیکن یہ حکومت عوام سے زیادہ کٹر وادیوں کی سنتی ہے ۔ بھلے بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتیں ان کٹر وادیوں کو حاشیائی عناصر کا نام دے کر ان سے پلہ جھاڑنے کا ڈھونگ کریں ، سچ یہی ہے کہ ان کٹر وادی عناصر کو ان حکومتوں کی ہی پشت پناہی حاصل ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بجرنگ دل جیسی شرپسند ، نفرت پرست اور فرقہ پرست جماعت کی شکایت پر کان ہی کیوں دھرے جاتے ! یہ عناصر آزاد کر دیے گیے ہیں تاکہ ملک میں نفرت پھیلاتے رہیں ۔ یہی عناصر تھے اور ہیں جو لوگوں کے باورچی خانوں میں جھانک جھانک کر دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا پکایا جارہا ہے ۔ یہی وہ عناصر ہیں جو دیکھتے ہیں کہ کس نے کون سا لباس پہن رکھا ہے ، کہیں برقعہ تو نہیں پہن رکھا ، کہیں داڑھی تو نہیں بڑھا رکھی اور کہیں اس کے سر پر ٹوپی اور جسم پر کرتا پائجامہ تو نہیں ہے ، اگر ہے تو پھر انہیں ذلیل کرنا ، کبھی ان سے جبراً جے شری رام کے نعرے لگوانا بلکہ ماب لنچنگ کرنا ، سب جائز ہے ۔ اترپردیش میں یوگی سرکار میں کچھ زیادہ ہی آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ ہے ۔ مرادآباد سے پہلے متھرا کی ایک یونیورسٹی میں چند کشمیری طلباء نے یونیورسٹی کی ایک خالی جگہ پر نماز کیا پڑھ لی ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ۔ یہ عرصے سے ہو رہا ہے ، لولو مال کا واقعہ لوگ بھولے نہیں ہوں گے ۔ اب تو اترپردیش میں کوئی نمازی اس خیال سے کہ نماز قضا نہ ہو جائے ، اگر چاہے کہ ریلوے اسٹیشن ، ائیر پورٹ یا کسی جگہ کسی گوشہ میں نماز ادا کر لے ، تو یہ تقریباً ناممکن ہے ۔ گزشتہ رمضان المبارک کی طرح اس بار بھی مساجد پر لاؤڈ اسپیکر کے مسئلے کو اٹھایا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹر میں منسے سربراہ راج ٹھاکرے اور بھاجپائی سب مل کر اذان بند کرانے کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ہندو جن آکروش کے نام پر لو جہاد ، لینڈ جہاد اور تبدیلی مذہب کے بہانے ساری ریاست کی فضا مسموم کی جا رہی ہے ۔ یہ ملک دھیرے دھیرے نہیں بڑی تیزی کے ساتھ نفرت کی اندھی کھائی میں گرتا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ نفرت اور فرقہ پرستی پھیلانے سے ترقی نہیں ہو سکتی ، تباہی ہی آتی ہے ، تاریخ میں مثالیں بھری پڑی ہیں ۔ راہل گاندھی کا کہا ثابت ہو رہا ہے کہ ملک میں جمہوریت ختم ہو رہی ہے ۔ اگر جمہوری قدریں ختم ہوئیں تو یہ ملک نفرت کا گڑھ بن کر رہ جائے گا اور اب تک اس نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں سب کا ستیا ناس ہو جائے گا ۔ سیاست داں اقتدار کی ہوس میں ملک کو تباہی و بربادی کے حوالے کرنے سے بچیں . عام لوگوں کے جو بھی حقوق ہیں ، چاہے وہ مذہبی ہوں کہ سماجی اور تعلیمی ، انہیں چھیننے سے احتراز کریں ، بجرنگ دل جیسی نفرت پھیلانے والی جماعتوں پر لگام کسیں ۔ نماز ایک عبادت ہے ، اس سے کسی کو نہ روکیں کیونکہ ایسا کرنا لوگوں کو اپنے رب سے مخاطب ہونے سے ، وابستہ ہونے اور اس تک پہنچنے سے روکنا ہے۔ اور یہ مہا پاپ ہے ۔