مسجد نظام الدین روڈ، اندراپوری،سمن پورہ، پٹنہ
کیرالہ کے مالابار خطے میں رہنے والے مسلمان ’’ موپلا مسلمان ‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ عرب نژاد ہیں۔ یہ لوگ نڈربہادر اور عقیدہ کے پکے مسلمان تھے۔ آج کل ’’ مالابار‘‘ نام کا کیرالہ میں کوئی سیاسی یا جغرافیائی علاقہ ہندوستان کے نقشے میں موجود نہیں ہے۔ مالابار نام کا ایک دیدہ زیب حصہ اب کیرالہ کے چار مکمل ضلعوں اور تین جزوی ضلعوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔مالاپورم،کوزی کوڈ،پل گھاٹ اور وایانند، یہ مکمل ضلع ہیں۔ تری چر، کنّور اور کسار گڑھ، یہ جزوی ضلعے ہیں۔ یہاں کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک خوبصورت اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ ’’مالابار‘‘ دو مختلف زبان ملیالم اور عرب میں بولی جانے والی سومیٹک زبان کے دولفظوں سے مل کر بناہے۔ ملیالم زبان میں لفظ ’’مالا ‘‘کے معنی ’’ پہاڑی‘‘ اور عرب کی قدیم ترین زبان ’’بار‘‘ سے مراد ’’خطہ زمین‘‘ ہے۔ جنوبی ہند کی ملیالم اور عرب کی قدیم زبان کے مرکب سے ’’مالابار‘‘ لفظ وجود میں آیا، جس کے معنی ’’پہاڑی خطہ زمین‘‘ ہے۔ نوبیاہتا دامادوں کے لئے ملیالم میں ’’ماپلا‘‘ یا ’’ ماپلائی‘‘ لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ اس قدر مشہور ہوا کہ مالابار کے لوگ ان کے بچوں تک کو پیار سے ’’ماپلا‘‘ یا ’’ماپلائی‘‘ کہنے لگے ۔ بعد میں یہ الفاظ ’’موپلا‘‘ میں تبدیل ہوگیا جو ان لوگوں کی شناخت بن گئی۔
مالابار کا یہ ساحلی حصہ زمانہ قدیم سے ہندوستانی مصالہ جات کی بحری تجارت کا مرکز رہا ہے۔1498 ء میں پہلی بار واسکوڈے گاما سمندر کے راستے سے ہندوستان کے کالی کٹ ( موجودہ کوریکوڈ ) کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ واسکوڈے گاما کالی کٹ میں قریب تین ماہ تک رہا۔ اپنے قیام کے دوران بیش قیمت گرم مصالہ اتنی مقدار میں اور اتنے سستے داموں میں خرید لیا، جس سے اس کے جہاز پوری طرح بھر گئے۔واسکوڈے گاما ہندوستان سے جو مصالہ جات جیسے کالی مرچ ،دار چینی ، لونگ اور الائچی وغیرہ اور دیگر سامان جو اپنے ساتھ لے گیا تھا وہ اس بحری مہم کے کل خرچے سے ساٹھ گنا زیادہ مالیت کا تھا۔
تاریخ نویسوں کی ایک رائے یہ ہے کہ واسکوڈے گاما کے بعد عرب تاجر مالابار کے ساحل تک پہنچے ۔ چوں کہ عرب تاجر دوسرے تاجروں کی طرح طوفانی اور خراب موسم میں بحری سفر کی صلاحیت کم رکھتے تھے۔اس لئے سفر جاری رکھنے کے بجائے مجبوراََ مالابار میں ہی اپنے قیام کو طویل کر دیتے تھے۔ اس کے علاوہ عرب تاجروں کے بعد عرب کشتی سازوں اور عرب مزدوروں (جنہیں خلاصی کہا جاتا ہے) نے بھی بہتر روزگار کے لئے مالابار کا رخ کیا، اور اس علاقے کو مستقل طور پر اپنی جائے سکونت بنالی۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ان کے مراسم اس قدر بڑھ گئے کہ رشتے داریاں قائم ہو نے لگیں۔ حیرت کی بات ہے کہ عربوں کی شادی کس تیزی سے مقامی لوگوں سے ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیرالہ کی تقریباََ25 فیصد آبادی مسلموں کی ہے اس میں تقریباََ99 فیصد موپلا کمیو نیٹی کے لوگ ہیں۔
تاریخ نویسوں کی دوسری رائے یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی پیدائش کے پہلے سے ہی تجارتی تعلقات عربو ں کے ساتھ تھے۔ اس کے علاوہ حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں ہی عرب تاجروں کے ذریعے اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ شروع ہوئی۔ مالک بن دینار ایک تابعی،ایک مسلمان عالم اور مسافرتھے۔ کیرالہ کے ساحلی علاقے میں جب آپ تشریف لائے تو وہاں کے بہت سارے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ان کی موت بھی کا سر گوڈ میں ہوئی تھی اور انہیں کاسرگوڈ میں ہی دفن کیا گیا تھا۔مالک دینار جامع مسجد ہندوستان کی ریاست کیرالہ کے مقام کاسرگوڈ میں ہی واقع ہے۔ یہ قدیم کیرالائی فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ یہاں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ حیرامن جامع مسجد (چیرامن پیرومل جامع مسجد ) کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر کا ماننا ہے کہ حیرامن جامع مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے۔ کیرالہ کے کوڈنگلور (مہودیا پورم) میں بننے والی اس مسجد کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ مسجد نبوی کے سات سال بعد یعنی629 ء میں اس کی تعمیر ہوئی۔ اس وقت آپ ﷺ با حیات تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہودیا پورم کا ایک بادشاہ چیرامن پیرومل مکہ گیا اور آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن سفر کی واپسی میں انتقال کر گئے۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ چیرامن پیرو مل ایک سینٹ تھا۔ موپلا مسلم عام طور پر کیرالہ اور لکشدیپ جزائر میں آباد ہیں۔ کچھ اسکالرز کے مطابق موپلا مسلم جنوبی ایشیا میں سب سے قدیم آباد مقامی مسلم کمیو نیٹی میں سے ہیں۔ نویںصدی سے ہی جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں پر عرب تاجروں کی اسلامی بستیاں ابھر رہی تھیں۔موپلا مسلمان ان عرب تاجروں کی ہی نسل تھی۔شروع میں یہ برادری بہت خوش حال اور طاقتور تھی۔لیکن سولہویں صدی میں جب پرتگالی جنوبی ہند کے مالابار ساحل پر پہنچے تو انہیں تجارت میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی غرض سے ساحلی علاقوں میںآبادیہ برادری شہر کے اندرآباد ہونے لگی۔
انگریزوں کے ظلم وستم برداشت کرتے کرتے ہندوستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ جب تک ملک آزاد نہیں ہوگا وہ اسی طرح ظلم اوربربریت کا شکار ہوتے رہے نگے۔ غلامی کے احساس سے ان کے دلوں میںآزادی کا جذبہ بیدار ہوا۔ایک عرصے سے ان کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف جو نفرت پروان چڑھ رہی تھی اس کی وجہ کر سماج کے ہر طبقہ کو جب بھی موقع ملا غم و غصے کا اظہار کیا۔ بنگال، پیشاور، مدراس ،چٹگام،مانڈے وغیرہ علاقوں میں انگریزی سامراج کے خلاف مسلمان سر گرم ہو اٹھے۔خلافت کمیٹی، کانگریس اور جمعیت العلما کا اجلاس باری باری ہندوستان کے تما م شہروں میں ہو رہے تھے۔ ان جلسوں نے ہندوستانیوں کے دلوں سے سامراجیت کا خوف مٹا دیا تھا۔موپلا مسلمان بھی کسی سے پیچھے کیسے رہتے وہ بھی تحریک خلافت سے جڑ گئے۔ جب گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک کا آغاز کیا تو محمد علی جوہر کا بھر پور تعاون گاندھی جی کو ملا۔ موپلا مسلمان بھی تحریک عدم تعاون پر عمل پیرا ہو گئے۔ پرانے مالابار ضلع کے جنوبی حصے میں بعض مقامات پر برطانوی نو آباد یاتی حکومت(British Colonial Rule) کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی۔ان کی تحریک نے شدت اختیار کر لی اور حربے ہتھیار سے لیس ہوکر بہادری کے ساتھ حکومت کے کارندوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ اس تحریک کو ’’مالابار بغاوت‘‘،’’موپلابغاوت‘‘ یا’’ کسان اندولن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حیدر نعمانی اپنی کتاب ’’ جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں‘‘ میں اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہیں کہ ملک کی سیاسی صورت حال سے متاثر ہوکر مالابار علاقے کے موپلا کسان آزادی کے تحریک میں کود پڑے۔وہاں’’ علی بھراتا‘‘ ہیرو کی حیثیت سے مانے جانے لگے۔ تحریک آزادی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے پہلے حکومت نے ان کی تعلیمی اداروں کو بند کر دیا اور عوامی میٹنگ پر پابندی لگا دی۔ جنرل ڈائر کی طرح مقامی کلکٹر ٹائسن نے موپلا کسانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا شروع کردیا۔ پہلے خلافت کمیٹی کے رضاکاروں کو گرفتار کرکے مارا پیٹا۔ جب ان کے رہنماؤں کو گرفتارکیا گیا تو مظاہرہ کر نے کے لئے لوگ جمع ہونے لگے۔ پولیس والوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔جس سے چار سو(400) لوگ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اس سے موپلاؤں میں آتش غضب بھڑک اٹھی۔انہوں نے بجلی کے تار کاٹ دئے، ریل کی پٹریاں اکھاڑ دیں ، قید خانے کے دروازے توڑ کر قیدیوں کو نکال لائے ، پولیس والے کے ہتھیار لوٹ لئے، شراب کی د کانوں میں آگ لگادی۔اس طرح پورا مالابار علاقہ جلنے لگا۔ ہر طرف خوف کا ماحول بن گیا۔ ایک طر ف موپلا مسلمانوں میں بے چینی تھی۔ وہ غلامی سے آزادی پانے کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے تھے۔ تو دوسری طرف انگریزی سامراج خود کو مضبوط کرنے میں مصروف تھی۔ انگریزی حکومت اپنے سامراج کو مضبوط کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ ہندوستانیوں کی زندگی کی قیمت ان لوگوں کے نزدیک جانور سے بھی کم تھی۔
31 اگست1921ء کے ٹائمس آف انڈیا کے مطابق فوجی کاروائی میں2288موپلا مسلمان ہلاک کردیئے گئے۔1630زخمی ہوئے۔ 5712گرفتار ہوئے۔1704کے خلاف مقدمہ چلایاگیا، اور جیل کی سزا سنائی گئی۔ 2ستمبر1922کے پا ئنیر(Pioneer) اخبار کے مطابق ایک سو موپلا کسانوں کو قید کر کے مال گاڑی کے ڈبے میںجانور کی طرح ٹھونس دیا گیا تاکہ انہیں تیرور سے پوڈا نور لے جایا جاسکے۔اس ڈبے میں ایک بھی کھرکی ایسی نہیں تھی جس سے ہوا آ جا سکے۔ بند ڈبے میں لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔ سفر بھی ایک سو میل کا تھا۔ ان میں سے چوسٹھ(64) لوگ گرمی اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ جو بچے رہے ان کی حالت اتنی قابل رحم تھی کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔
انگریزوں کا انصاف تو دیکھئے کہ چوڑی چوڑا میں7کانسٹبلوں کے مارے جانے پر انگریزی عدالت ایک سو بہتّر(172) ہندوستانیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیتی ہے اور پوڈانور واقعہ کے چوسٹھ(64) قیدیوں کی دردناک موت پر صرف ایک سارجنٹ کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر منیشا ماتھر نے اپنی کتاب ’’ بھارت کی یادگار گھٹنائیں ‘‘ میں اس اندوہناک واقعے کا موازنہ ہٹلر کے گیس چیمبر سے کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔ ’’ہٹلر کے گیس چیمبر کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے سنا ہوگا لیکن انگریزوں کی ویسی ہی بربریت کے بارے میں کم لوگ جانتے ہوں گے۔ آزاد ہندوستان میں کم لوگوں نے پوڈانور کے اس دم گھونٹو واقعہ کے بارے میں سنا ہوگا‘‘۔
انہیں دنوں کمیونسٹ پارٹی بھی آزادی کا مہم چھیڑ چکی تھی۔ مسلمان کا تعلیم یافتہ اور حوصلہ مند طبقہ اس سے زیادہ متاثر ہوا ۔کمیونسٹ پارٹی نے کسان سبھا اور مزدور پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ موپلا کسانوں کا خاص لیڈر ابو بکر تھا۔ ابو بکر کی ماں خدیجہ خاتون شمالی مالابار کی رہنے والی تھیں۔ بڑی جڑی اور بے خوف خاتون تھیں۔ انہوں نے کسانوں کی اس مہم میں سرگرم حصہ لیا۔ابوبکر نے ایسی ہی بہادر ماں کی گود میں تربیت پائی۔ 1930ء میں پورے ملک میں سول نا فرمانی اور ستیہ گرہ تحریک دوبارہ شروع ہوئی۔ موپلا مسلمان بھی اس تحریک سے جڑ گئے۔ ابوبکر موپلا مسلمانوں کی باغیانہ مہم کا لیڈر بن گیا۔ 1937ء میں کسان سبھا نے ایک زوردار مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کی قیادت ابوبکر نے کی۔ انجام کار ابوبکر اور اس کے دونوں ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔عدالت میں ان تینوں پر مقدمہ چلایا گیا اور ہر ایک کو پھانسی دے دی گئی۔ ان سب کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موپلا مسلمانوں کی قربانیوں کی جانکاری کیا ہندوستانیوں کو ہے؟ کیا نئی نسل پوڈا نور واقعہ سے آشنا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب منفی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ہماری قیادت اور ہمارے رہنماؤں پر جا تی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)