Home قومی خبریں شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام گیارہواں منشی نول کشور یادگاری خطبہ

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام گیارہواں منشی نول کشور یادگاری خطبہ

by قندیل

نئی دہلی :شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام گیارہویں منشی نول کشور یادگاری خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مؤقر خطبہ بزرگ ادیب و دانشور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے شعبۂ تاریخ و ثقافت ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خوبصورت سمینار ہال میں ’’غالب اور اقبال کی دو تخلیقات‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ انھوں نے اس خطبے میں اقبال کی مشہور مثنوی ’’ساقی نامہ‘‘ اور غالب کی غزل میں شامل قطعہ ’’اے تازہ واردان بساط ہوائے دل‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ غالب اور اقبال کی ان دونوں تخلیقات کا نقطۂ اتصال ’’ساقی‘‘ہے۔ ’’ساقی‘‘ کے کردار میں جو تضاد واقع ہوا ہے، وہی ان دونوں متون کا مرکز و محور بھی ہے اور محرک بھی۔ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تمام تر روایتی حربوں اور شعری وسائل کو اختیار کرتے ہوئے اس کو بالکل ایک نئی جہت عطا کر دیتے ہیں۔ اقبال کا متن کلاسیکیت کے آئینے میں مستقبل بینی کے وسیلے سے عبارت ہے۔ اقبال کی مثنوی ’’ساقی نامہ‘‘ اس امر کی روشن نظیر ہے کہ ایک روایتی قسم کی صنف میں کس طرح عہد حاضر کے انقلابات، فکری، تہذیبی اور سیاسی انفجار اور بحران کو منعکس کیا جاسکتا ہے۔ مثنوی ’’ساقی نامہ‘‘ تحرک، فلسفۂ وقت کے حیات افروز تصور اور تمام تر مثبت تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے روحانی اور مادی اقدار کو خوبصورتی کے ساتھ ہم آمیز کردینے کی ایک شاہکار تخلیقی کاوش ہے۔ مہمان مقرر نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری ابتدائی تعلیم معماران جامعہ ذاکر حسین، عابد حسین،محمد مجیب اور مولانا اسلم جیراج پوری کے زیر سایہ ہوئی۔ میں نے اسی جامعہ میں اقبال اور پریم چند جیسے تخلیقی نابغوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ آج کے اس غیرمعمولی خطبے نے ہمیں متن کی قرأت کا سلیقہ سکھایا ہے۔ اس سے پہلے ایک بڑے متن کو سامنے رکھ کر ایسی تازہ گفتگو کبھی نہیں کی گئی۔ اس گفتگو سے ’’ساقی نامہ‘‘ کے تمام ممکنہ ابعاد روشن ہوئے اور غالب کی غزل میں شامل مذکورہ قطعہ کو ایک نیا تناظر ملا۔ خطبے کے کنوینر پروفیسر خالد جاوید نے کہا کہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کا شمار استاذالاساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کی کتاب ماسٹر رام چندر کو تحقیقی و تنقیدی دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے کئی نسلوں کی ادبی تربیت میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ باوقار یادگاری خطبے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر محمد مقیم کے اظہار تشکر پر ہوا۔
اس موقعے پر پروفیسر خالد محمود، پروفیسر وہاج الدین علوی، ڈاکٹر اشفاق احمد عمر، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔

You may also like

Leave a Comment