بچوں کے ادب کی اہمیت اور افادیت ہر عہد میں رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر عہد کے اپنے کچھ خاص تقاضے ہوتے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے ایسے مضامین، کہانیاں اور نظمیں تحریر کی جانی چاہئیں جن میں ان کی تربیت کی باتیں ہوں، ان کے مطالعے سے ان کی معلومات میں اضافہ ہو، ایسی نصیحت آموز باتیں ہوں جن سے وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرسکیں، اچھے اور برے کے مابین امتیاز بھی اچھے انداز میں ہونا چاہیے تاکہ بچے فضول اور لایعنی کاموں میں اپنا وقت برباد نہ کریں۔ بچوں کے ادیب کے لیے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ جو بھی لکھیں اس میں بچوں کی دلچسپی کا خاص خیال رکھیں۔ شفیع الدین نیر کی اس کتاب ’منی کے گیت‘ میں بے حد دلچسپ اور معلوماتی نظمیں ہیں جن میں بچوں کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے۔ شفیع الدین نیر کا شمار بچوں کے عظیم شاعر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں معلمی کے پیشے سے بھی وابستہ تھے اور پھر یہیں سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے بچوں کے لیے درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں جن میں بچوں کا تحفہ، بچوں کا کھلونا، گھی شکر، نئی کہانیاں،اچھی چڑیا، منی کا تحفہ، منی کے گیت، وطنی نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب ’منی کے گیت‘ ویسے تو بچے اور بچیاں دونوں کے لیے مفید ہے، خصوصاً ننھی منی بچیوں کے لیے یہ کتاب زیادہ کارآمد ہے۔ ا س کتاب میں 29 نظمیں شامل کی گئی ہیں جن میں خدا کی تعریف،آؤچندا ماموں آؤ، چینی کی گڑیا، میری اچھی آپا آؤ، منی کی بلی، میری گڑیا، منی کی بکری، مجھ کو میرا بھیا پیارا، گڑیا کا بیاہ، گڈے میاں کا سہرا، منی کی سالگرہ، شرارت کی پتلی، سکھی برکھا کی دیکھو بہار، آؤ سہیلی باغ چلیں ہم، منی اور تتلی، منی کی لوری،عید کی خوشی، ریل کا کھیل، سردی کا زمانہ آیا ہے، پریوں کا ناچ، وہی بڑوں کی چاٹ، منی کی موٹر، گائے، تندرستی ہزار نعمت ہے، دیوالی آئی، گڑیا کا گھروا، منی کا گیت، آؤ منی میلہ دیکھو، خوب چھٹی ہوئی خوب چھٹی ہوئی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
’منی کے گیت‘ دراصل ان کی کتاب ’بچوں کا تحفہ‘ کی کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب انھوں نے 40برس قبل لکھی تھی جو بچوں میں کافی مقبول ہوئی۔ والدین اور رشتے داروں نے اسے تحفتاً بچوں کو پیش کیا۔ استاد اور استانیوں نے بھی ’بچوں کا تحفہ‘ کا مطالعہ بچوں کے لیے لازمی کردیا۔ درجنوں اسکول میں یہ کتاب پڑھائی گئی۔ کئی بچیوں نے خطوط کے ذریعے اور کچھ نے زبانی یہ فرمائش کی کہ آپ کچھ نظمیں بچیوں کے لیے لکھیں۔ اس تعلق سے شفیع الدین نیر نے کئی نظمیں تحریر کیں جو کئی رسائل میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ نظمیں ’منی کے گیت‘ اور ’منی کا تحفہ‘ جیسی کتابوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
زیرنظر کتاب ’منی کے گیت‘ میں سب سے پہلے خدا کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد نظم ’آؤ چندا ماموں آؤ‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ چندا ماموں سے بچوں کو بہت انسیت ہوتی ہے، اس کے تعلق کے بچوں کے ذہن میں کیا کیا خیالات آتے ہیں، شفیع الدین نیر نے اس کا ذکر بڑے ہی حسین انداز میں کیا ہے ؎
آؤ، چندا ماموں! آؤ
آؤ، میرا جی، بہلاؤ
دل کی کلیاں کھل کھل جائیں
ایسے چمن کی سیر کراؤ
گیت سہانے میٹھے میٹھے
میں بھی گاؤں تم بھی گاؤ
اپنی سونے کی کشتی میں
مجھ کو اپنے ساتھ بٹھاؤ
پھول ستاروں کے چن چن کر
میرے لیے اک ہار بناؤ
پیارا سا یہ ہار انوکھا
میرے گلے میں تم پہناؤ
ایک نظم ’منی کی بلی‘ ہے۔ بلیوں سے بچے بہت پیار کرتے ہیں، اسے اپنے گھر میں پالتے پوستے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں، بلیوں کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ شاعر نے بچوں کی چاہت کا بہت حسین انداز میں نقشہ کھینچا ہے ؎
منی نے اک بلی پالی
بلی پالی کالی کالی
آنکھیں اس کی نیلی پیلی
نیلی پیلی اور چمکیلی
دن بھر موج اڑاتی تھی وہ
دودھ ملائی کھاتی تھی وہ
چوہیا کو وہ دیکھ جو پاتی
جھٹ پٹ اس کو چٹ کر جاتی
’منی کی سالگرہ‘ بھی اچھی نظم ہے۔ یوم پیدائش پر ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس دن کو اس کے والدین خوب دھوم دھام سے منائیں اور اس کے دوست و احباب کو بلائیں۔ دیکھیے کس انداز میں بچوں کی خواہشات کا ذکر ہے ؎
آؤ منی کی بی بی کی
سالگرہ کا جشن منائیں
کھیل مزے کے ہم کھیلیں
اچھلیں کودیں، ناچیں گائیں
چائیں مائیں چائیں مائیں
چکر کھائیں، چکر کھائیں
اس اچھی تقریب میں ہم
سب ساتھی بچوں کو بلائیں
خوب ہی خوش ہوں خوب ہی خوش
اٹھیں بیٹھیں کھیلیں کھائی
بچوں کو ہر اس موقعے کی تلاش ہوتی ہے جس میں انھیں آزادی حاصل ہو، گھومنے پھرنے، کھانے پینے اور موج مستی کے سارے سامان مہیا ہوں۔ شفیع الدین نے ’عید کی خوشی‘ میں بچوں کے ان حسین جذبات کا کیا خوبصورت انداز میں ذکرکیا ہے ؎
لو پھر ہماری عید آگئی ہے
ہر ایک خوش ہے گھر گھر خوشی ہے
کیا قہقہے ہیں کیا دل لگی ہے
ہر سمت گویا شادی رچی ہے
منی اٹھے گی تڑکے سویرے
جھٹ پٹ نہا کر پہنے گی کپڑے
کپڑے بھی کیسے گوٹے زری کے
ریشم کا جمپر، مخمل کے جوتے
امی سے لے کر عیدی کے پیسے
بھیا کو دے گی کہہ کر یہ ان سے
پڑھ کر دوگانہ میلے میں جا کے
میرے لیے بھی کھلونے
عید کے ساتھ دیوالی کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ اس تہوار کا پیغام آپسی محبت اور بھائی چارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں پہلے سبھی مل کر یہ تہوار مناتے تھے۔ گاؤں میں تو اس تہوار کا ایک الگ نظارہ ہوتا تھا۔ جتنے بھی کنویں ہوتے ان پر دیے جلائے جاتے۔ بچے خاص طور پر بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔شاعر نے اس حسین منظر کو کیا ہی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے ؎
روشن ہر ہر سمت دیے ہیں
روشن گھر میں بلب کیے ہیں
کھیل تماشے سب کے لیے ہیں
پریم کے پیالے سب نے پیے ہیں
لو، اے لو، دیوالی آئی
اوہو ہو، دیوالی آئی
دیوالی کا جشن منائیں
کھیلیں اور بتاشے کھائیں
بیڑے خوشبودار چبائیں
پھر نیر کا گیت یہ گائیں
لو، اے لو، دیوالی آئی
اوہو ہو، دیوالی آئی
اس کتاب میں شامل ساری نظمیں شفیع الدین نیرنے بچوں/ بچیوں کے ذوق کا خیال رکھتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ زیادہ تر نظمیں چھوٹی بحر میں ہے۔ انھوں نے بہت ہی آسان اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔ الفاظ اور محاورے ایسے استعمال ہوئے ہیں جو روزانہ کی بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ اندازِ بیان بھی خوب دلچسپ ہے۔
ادب اطفال کے تعلق سے شفیع الدین نیر کی خدمات کی ستائش تو خوب ہوئی ہے۔ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین بچوں کے ادب پر ان کے بیش بہا خدمات کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
’’ان میں (یعنی نیر صاحب میں) بچوں کے ذہن کو سمجھنے اور محبت کرنے کی وہ صفت ہے جو پیدائشی معلم کا جوہر ہوتی ہے… بچوں کی رہنمائی کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت ہے وہ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بچو ںکے لیے جو نظمیں انھوں نے لکھی ہیں وہ ایک پیش رو کی حیثیت سے ان کا نہایت ہی بیش قیمت کارنامہ ہے۔ انھوں نے وہ میدان سر کیا ہے جسے سر کرنے کی بہت ہی کم اصحاب نے جرأت کی ہے۔ ان کی نظموں نے تعلیم کے خشک کام کو خوشگوار بنا دیا ہے۔ ان بچوں میں بھی ادبی دلچسپی پیدا کرنے میں کامیابی ہوئے ہیں جو دوسروں مضمونوں کی طرح مادری زبان کی تحصیل کو غیردلچسپ سمجھتے تھے۔‘‘ (ص VII)
اس کتاب کی اشاعت قومی اردو کونسل سے ہوئی ہے اس لیے ’منی کے گیت‘ کی اشاعت میں قومی اردو کونسل کے وہ ذمے داران بھی لائق ستائش ہیں جن کی کوششوں سے یہ مرحلہ طے ہوسکا۔ اس کتاب کے علاوہ شفیع الدین نیر کی اچھی چڑیا، منی کا تحفہ، منی کے گیت، وطنی نظمیں بھی قومی اردو کونسل سے شائع ہوئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ شفیع الدین نیر کی ’منی کے گیت‘ کے علاوہ بقیہ کتابیں بھی بچوں کو بہت پسند آئیں گی۔
50 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت محض 20 روپے ہیں۔ کتاب کا سرورق بھی بہت عمدہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ بچے اس کتاب کو اپنے مطالعے کا حصہ ضرور بنائیں گے!