منور رانا نے مشاعروں کے حوالے سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ ان کا شمار ہندوستان کے ان شعراء میں ہوتا ہے جو مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ عموماً مشاعروں میں متعدد شعراء ہوتے ہیں لیکن ادھر کچھ عرصے سے ایسے مشاعروں کا بھی چلن شروع ہوا جس میں صرف ایک شاعر کو بلایا جاتا ہے، غالباً اس کا آغاز منور رانا سے ہی ہوا۔ ’ماں‘ پر انھوں نے اتنے اشعار کہے کہ شعری دنیا میں وہ ایک حوالہ کی حیثیت اختیار کرگئے۔ ہجرت پر قلم اٹھایا تو سیکڑوں اشعار پر مشتمل مہاجرنامہ تیار کردیا جو تقسیم ہندکے تناظر میں ہجرت کی تاریخ بن گئی۔ مشاعروں کے حوالے سے منور رانا کا قد اتنا بلند ہے جہاں تک کم ہی شعرا پہنچ پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پر سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ان کی کچھ نثری و شعری تصنیفات اس طرح ہیں: غزل گاؤں (1980)، پیپل چھاؤں (1985)، مور پاؤں (1989)، نیم کے پھول (1993)، سب اس کے لئے (1995)، بدن سرائے (1998)، کہو ظلم الٰہی سے (2000)، بغیر نقشے کا مکان (2001)، ماں (2003)، گھر اکیلا ہوگیا (2004)، سفید جنگلی کبوتر (2005)، منور رانا کی سو غزلیں (2006)، جنگلی پھول (2007)، چہرے یاد رہتے ہیں (2007)، پھر کبیرؔ (2007)، غزل بیتی (2007)، شہدابہ (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ)، مہاجرنامہ وغیرہ۔
منور رانا کی شخصیت صرف شعر و شاعری تک محدود نہیں تھی۔ ان کے قلم نے نثری ادب میں بھی جولانیاں دکھائی ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی نثر ان کی شاعری پر بھاری ہے تو شاید بیجا نہ ہو۔ ان کی کچھ تصنیفات اتنی مقبول ہوئیں کہ ان کے متعدد اڈیشن نکلے۔ ’بغیر نقشے کا مکان اور ’سفید جنگلی کبوتر‘ ایسی ہی کتابیں ہیں جو ان کے متعدد انشائیوں اور خاکوں کے مجموعے ہیں۔ ’سفید جنگلی کبوتر‘ کا نام ان کے ایک مضمون کے عنوان سے ماخوذ ہے۔ اس مضمون سے ایک چھوٹا سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”گھر سے بھٹکا ہوا کبوتر کئی دنوں تک مسلسل فضا میں اڑتے ہوئے اپنا گھر تلاش کرتا ہے۔ کبھی اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے، کبھی مندروں کے کلس کو چومتے ہوئے، کبھی مسجدوں سے بلند ہوتی ہوئی صدائے حق کے اجالے میں، لیکن میلے میں کھویا ہوا بچہ اور گھر سے بھٹک جانے والا کبوتر واپس کہاں آتا ہے۔ بھوک پیاس کی شدت، گھر چھٹنے کا غم اور مستقل تلاش و جستجو میں سرگرم رہتے رہتے کبوتر اپنے پروں کی طاقت سے ناواقف ہونے لگتا ہے۔ کچھ دنوں تک جنگل جھاڑی، کھیت کھلیان، محلے اور بستیوں میں بھٹکنے کے بعد کبوتر کی آرزوؤں کے پر میلے ہونے لگتے ہیں۔ پھر ایک دن یہی دودھ اور چاندنی سے دھلا دھلایا کبوتر کسی مندر یا مسجد کے گنبد کو آباد کرلیتا ہے۔ کچھ دنوں تک تو وہ اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے جنگلی کبوتروں میں اجنبیت محسوس کرتا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اسی ماحول، موسم اور ٹھکانے کا عادی ہوجاتا ہے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد علم سے آراستہ لوگ اسے بھی جنگلی کہنا شروع کردیتے ہیں۔ انسان بھی کتنا خود غرض ہوتا ہے جو اس کا کہنا مان لے وہ پالتو اور جو کہنا نہ مانے وہ جنگلی کہلانے لگتا ہے۔“
منور رانا نے نثری ادب میں لفظوں سے جو تاج محل تیار کیا ہے اس کی جو خوبصورتی ہے وہ اپنی جگہ، مگر اس کے ساتھ انھوں نے جس طرح سماجی برائیوں پر جگہ جگہ نشترزنی کی ہے یہ سعادت کم ادیبوں کے حصے میں آتی ہے۔ اسی مضمون کی مزید چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:
”یوں تو کبوتر کئی رنگوں کے ہوتے ہیں لیکن فضا میں سفید اورسیاہ کبوتر ہی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ عموماً سیاہی مائل کبوتر جنگلی اور سفید کبوتر پالتو کہلاتے ہیں۔ کبوتر اپنا گھر فضا میں اڑتے ہوئے بھی نہیں چھوڑتا۔ کچھ کبوتر تو اپنے گھر کو اس قدر مرکز بناکر اڑتے ہیں کہ آنگن میں رکھے کٹورے کے پانی میں مستقل دکھائی دیتے ہیں۔ گھر سے اسی بے پناہ محبت کی وجہ سے اکثر وہ عقاب کے شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت بھی اب کبوتروں جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ گھر سے لگاؤ کے سبب ہجرت نہیں کرسکے اور شب و روز سیاسی چیل کوؤں کے شکار ہوتے رہتے ہیں“۔
منور صاحب نثر میں اقوال زریں، کہاوتوں اور روز مرہ کا استعمال اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ ’پرانی یادوں کے منظر سہانے لگتے ہیں‘ کے یہ جملے پڑھئے:
”راستے بھر عین رشید، شہود بھائی کی شاعری کے گل بوٹوں پر اظہار خیال کرتے رہے۔ ان کی قلندرانہ شخصیت اور ادبی خدمات پر گفتگو کرتے رہے۔ ایک پولیس کا اعلیٰ افسر اگر اتنا حساس اور دریا دل ہو تو اسے فرشتہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ پولیس کا محکمہ تو اتنا بدنام ہے کہ بقول حکیم صاحب وضو کی حالت میں پولیس اسٹیشن کا نام لینے سے ہی وضو ٹوٹ جاتا ہے“۔
سید منور علی رانا کا قلم جب اپنی جولانی پر آتا ہے تو نثرمیں پانی کی روانی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ جذبات میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ لفظوں کے در و بست اور جملوں کی ساخت سے قاری کے اندرون ایک ہلچل سی پیدا ہوجاتی ہے، ایک خاموش طوفان برپا ہوجاتا ہے جو کبھی کبھی موتی بن کر آنکھوں سے پٹک پڑتا ہے۔ خاکہ ’میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں‘ کا یہ اقتباس دیکھیں:
”عتیق الہ آبادی کے مشاعرے میں پاکستانی شاعرہ ذکیہ غزلؔ تشریف لائی تھیں۔ مشاعرہ کے دوسرے دن ان کی واپسی تھی، لیکن گریش بھائی اس بات پر اڑ گئے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بہن ہندوستان آئے اور بھائی کے گھر نہ آئے۔ یہ الہ آباد ہے، یہاں تو گنگا بھی جمنا میں آکر مل گئی ہے۔ پھر بہن اپنے بھائی سے ملے بغیر جا ہی نہیں سکتی۔ میں اجازت بھی دے دوں تو گنگا نہیں جانے دے گی۔ وہ سامنے گنگا کا کنارہ ہے، جہاں میلے میں برسوں کے کھوئے ہوئے مل جاتے ہیں۔ غرضیکہ کی ہندوستان کی پذیرائی کے سامنے پاکستان شرمندہ ہوگیا۔ دوسرے دن شام کو ذکیہ غزلؔ اپنے شوہر کے ساتھ گریش بھائی کے گھر تشریف لے گئیں۔ گھر میں بھابھی نے ان لوگوں کا استقبال اس طرح کیا جیسے کہ بیٹیوں کا مائیکے میں ہوتا ہے۔ گھنٹے بھر کی ملاقات میں محبتوں کی رسمیں پوری کی گئیں۔ چلتے وقت تحفوں کا ایک بھاری بیگ بھی میراؔ بھابھی نے یہ کہہ کر ساتھ کردیا کہ لڑکیاں اپنے بھائی کے گھر سے خالی ہاتھ نہیں جاتیں۔ سارا گھر ان لوگوں کو اسٹیشن پہنچانے گیا اور ریل کی سیٹی کے درد کی تفسیر سے پہلے ہی ذکیہ، گریش بھائی اور بھابھی سے اس طرح لپٹ کر روئیں جیسے لڑکیاں پہلی بار گھر چھوڑتے ہوئے روتی ہیں۔ نفرت کی لگائی ہوئی کٹیلے تاروں کی باڑھ بہن بھائی کے آنسوؤں کی حدت سے یوں پگھل گئی جیسے موم پگھل کر انگارے کو کالا کردیتی ہے“۔
”کلکتہ مذہب عشق کا دارالسلام ہے“، ”بنگال کے پھول، بنگال کی خوشبو، بنگال کی آنکھیں، بنگال کی زلفیں اور بنگال کی مٹی“جیسے پرلطف جملے منور رانا کی خوبصورت نثر کی پہچان ہیں۔ سید منور علی رانا ابن سید انور علی کی پیدائش 26 نومبر 1952ء کو ضلع رائے بریلی (یوپی) میں ہوئی اور 14 جنوری 2024 کو لکھنؤ میں آخری سانسیں لیں۔ انھوں نے شعیب ودیالیہ اور گورنمنٹ انٹرکالج رائے بریلی میں حاصل کی۔ اس کے بعد لکھنؤ کے سینٹ جانس ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ چونکہ والد انور علی روزگار کے سلسلہ میں کلکتہ منتقل ہوگئے تھے اس لئے آگے گریجویشن تک کی تعلیم انھوں نے کلکتہ میں رہ کر حاصل کی۔
منور رانا نے دور طالب علمی سے ہی شاعری شروع کردی تھی۔ میدان عمل میں قدم رکھا تو وقت کے ساتھ ترجیحات تبدیل ہوتی رہیں۔ شروعات میں وہ فلموں کی چکاچوند سے اتنے متاثر ہوئے کہ فلموں میں جانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ بڑے اداکاروں کی آوازوں کی نقالی سے شروعات کی اور فلمی ستاروں کے پروگراموں کی نظامت بڑی کامیابی سے کرنے لگے۔ اس دوران نے انھوں نے کچھ افسانے بھی لکھے جو مقامی اخبارات میں شائع ہوئے۔ ’جے بنگلہ دیش‘ کے نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا جسے کلکتہ کے ہومیو پیتھی کالج میں منعقدہ ڈرامہ مقابلہ میں انعام سے نوازا گیا۔ انھوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی لیکن جلد ہی وہ ان مشغولیات سے بیزار ہوکر اپنے اصلی میدان یعنی غزل گوئی و نثرنگاری کی طرف آگئے جو ان کی شناخت بنی۔ متعدد اعزازات سے نوازے گئے۔ لہجہ میں بے باکی تھی۔ کبھی کبھی سیاسی معاملات پر بھی اپنے اختلاف رائے کا اظہار بے خوفی سے کردیتے تھے جس کی وجہ سے میڈیا اور خاص طور ے الیکٹرانک میڈیا میں کئی دنوں تک سرخیوں میں رہتے تھے۔ جو لوگ ان سے قریب رہتے ہیں ان کے مطابق منور صاحب کے سینے میں ایک دردمند دل دھڑکتا تھا۔ وہ بہت سے پریشاں حال لوگوں کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔
منور رانا کی روایتی تعلیم بس گریجویشن تک تھی، غالباً معاشی حالات نے ان کو مزید حصول تعلیم کی اجازت نہیں دی تھی لیکن عزم کے پکے تھے۔ انھوں نے اپنی محنت،لگن اور عمل پیہم سے وہ مقام حاصل کیا جہاں پہونچنے کے بعد روایتی ڈگریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انھوں نے اپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو خوب پروان چڑھا یا۔ انسان جب کاروبار میں مصروف ہوجاتا ہے تو عموماً علمی و ادبی دلچسپیوں سے دوری ہوجاتی ہے لیکن منور رانا اس معاملہ میں متضاد صلاحیت کے مالک تھے۔ انھوں نے تجارت و ادب دونوں سے یکساں ’محبت‘ کا معاملہ کیا۔ جو لوگ ان کی شاعری کے دیوانے تھے ان میں سے اکثر کو شاید پتہ بھی نہ ہو کہ ان کے پاس بہترین کاروبار بھی ہے۔ جیسا کہ لوگ بتاتے ہیں انھوں نے مشاعروں کی وجہ سے اپنے کاروبار کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ کاروبار میں ان کا استحکام اور ادب کے میدان میں ان کی شہرت دونوں ان کی اپنی محنت اور اپنی جد و جہد کی وجہ سے تھی۔ کثیرالمطالعہ تھے۔ خاکسار کی ان سے ایک مرتبہ ان کے فلیٹ (لال کنواں، لکھنؤ)میں بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ فلیٹ کا گراؤنڈ فلور ہی ان کے ٹرانسپورٹ کا ہیڈکوارٹر بھی تھا اور ملاقاتیوں کے لیے مجلس گاہ بھی۔ وہ مردم شناسی کا فن جانتے تھے اور جسے مردم شناسی کا فن ّجائے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ انھوں نے دفتر کو ہی لائبریری بنا رکھا تھا۔ میرؔ نے کہا تھا ’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا- جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ منور رانا کا معاملہ یہ تھا کہ جب ان کے پاس کوئی نہیں ہوتا تھا تو کتابیں ہوتی تھیں۔ اگر کچھ ہم مزاج موجود ہوتے تو خوش گپیاں ہوتی رہتیں، ورنہ جب تک جاگتے کتابوں سے مصاحبت رہتی۔ سچ تو یہ ہے کہ کتابوں سے دوستی نے ہی منور رانا کو ’منور‘ بنایا۔