Home نقدوتبصرہ مژگاں : منوّر رانا کو شاندار خراجِ عقیدت – شکیل رشید

مژگاں : منوّر رانا کو شاندار خراجِ عقیدت – شکیل رشید

by قندیل

کولکاتا سے شائع ہونے والے مشہور ادبی مجلے ’ مژگاں ‘ کا نیا شمارہ اپنی نوعیت میں ’ ٹو اِن ون ‘ ہے ۔ اِس شمارے کا ایک حصہ معمول کے مواد پر مشتمل ہے اور ایک حصہ اُس شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پر ، ایک دنیا جسے منوّر رانا کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔ دونوں ہی حصوں کی ضخامت تقریباً یکساں ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک شمارہ میں دو شمارے سَمو دیے گیے ہیں ۔ بات پہلے حصے کی بھی کریں گے ، جو معمول کے مواد پر مشتمل ہے ، لیکن تفصیلی بات گوشۂ منوّر رانا پر ہوگی ۔ اپنے اداریے میں ، جو ’ مضراب ‘ کے مستقل عنوان سے شائع ہوتا ہے ، مدیر نوشاد مومن لکھتے ہیں : ’’ ’ مژگاں ‘ کا یہ شمارہ منوّر رانا کے تئیں خراجِ عقیدت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ امیدِ کامل ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا ۔‘‘ یہ دو جملے ہیں جن میں سے پہلا جملہ ہے کہ یہ شمارہ منوّر رانا کو خراجِ عقیدت ہے ۔ نوشاد مومن نے منوّر رانا کو خراجِ عقیدت پیش کرنا کیوں ضروری سمجھا ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عام طور پر اُنہیں عوامی اور مشاعروں کا شاعر سمجھا جاتا رہا ہے ، ادب کے اجارہ داراُنہیں ایک طویل عرصہ تک کوئی مقام دینے کو تیار نہیں تھے ۔ نوشاد مومن ول مین اور ڈلمور شوارز اِن دو دانشوروں کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’ منوّر رانا کے سامعین نرے جاہل نہیں ہوتے بلکہ پڑھے لکھے اور دانشور ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف منوّر رانا کا اسلوبِ نگارش اتنا سہل اور روزمرہ کے قریب ہے اس لیے سامعین ان کی طرف کھِنچے جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے اور سننے والوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے ۔ یہ منوّر رانا اور اُن کی شاعری کا وہ جوہر ہے جو زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما ہونے کے بعد ہی آتا ہے ۔ منوّر رانا کی شاعری دشمنوں سے بھی داد و تحسین وصول کر لیتی ہے ۔ یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ زمانہ اس بات کا معترف ہے ۔‘‘ وہ لکھتے ہیں : ’’ آج جب منوّر رانا ہمارے درمیان نہیں ہیں تو اُن کی یادوں کے دیپ دلوں میں روشن ہیں ۔ اُن کا شعری اسلوب ہمارے کانوں میں رس گھولتا ہے ، اُن کا دبنگ لہجہ اور مردانہ آہنگ ہمارے جذبوں کی آنچ تیز کرتا ہے اور ہم اُنہیں فراموش نہیں کر پا رہے ہیں ۔‘‘ یقیناً منوّر رانا کو فراموش نہ کر پانا اُن بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے جسں نے نوشاد مومن کے لیے یہ شمارہ پیش کرنا ضروری بنا دیا ۔ نوشاد مومن کا یہ ماننا ہے کہ ’’ منوّر رانا خوش نصیب ہیں کہ معاصرین نے اُن کی ادبی خدمات کا قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن بھرپور اعتراف کیا ۔ یہ اُن کی خوش نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ جہاں اُن کے بزرگوں اور ہم عصروں نے اُن کی حیات اور ادبی جہات پر بڑی تعداد میں مضامین قلم بند کیے ہیں ، وہیں بعد کی نسل کے ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں نے بھی اُن کی شخصیت اور فن پر اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ۔‘‘ اس شمارے میں ایسے کئی ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں کے اہم مضامین شامل ہیں ۔

گوشۂ منوّر رانا کی شروعات اُن کے انتخابِ کلام سے ہوتی ہے ۔ انتخاب سے ایک شعر پیش ہے ؎

ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں اک لمحے میں

کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں

اس کے بعد منوّر رانا سے گلزار جاوید کی طویل گفتگو ہے ، جس میں ادب کے ساتھ دیگر موضوعات پر بھی بات کی گئی ہے ۔ ایک سوال ایوارڈ واپسی کے تعلق سے تھا ، اس کا جواب ملاحظہ کریں : ’’ ایوارڈ واپس کرنے کی وجہ تو دنیا کو معلوم ہے ۔ شاید آپ بھی اس سے باخبر ہوں گے ۔ میری خواہش تھی کہ ایوارڈ واپس کرنے والوں کی کمزور ہوتی ہوئی اِن آوازوں کو ایک کھنک دار آواز مِل جائے ۔ میں اللہ کا شکرگزار ہوں کہ پچھلے ساٹھ ستّر برس میں برصغیر کے لوگوں نے دیکھا کہ ایک معمولی سا اردو شاعر جو کمزور اور اقلیت سے تعلق رکھتا ہے ، اُس کی آواز سُن کر اپنے طور پر زندگی گزارنے والے وزیراعظم نے ۲۴ گھنٹے میں اُس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور میں نے اپنے اجداد کی روش پر چلتے ہوئے اُن سے ملاقات کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا ؎

ہیں اہلِ وفا جتنے سب دار کے قابل ہیں

اعزاز نہ دے ہم کو توہین نہ کر سب کی

میں نے ملاقات کے لیے یہ گزارش کی کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے ایوارڈ واپس کیے ہیں اُن کی عمر بھی ہم سے زیادہ ہے اور علمی لیاقت بھی کہیں زیادہ ہے ، لہذا اُن میں سے کچھ نمائندہ قلم کاروں کو پی ایم او میں بلایا جائے اور اگر آپ چاہیں تو اس فہرست کے آخر میں میرا نام لکھ دیں ۔‘‘

انٹرویو کے بعد ’ آپ آسان سمجھتے ہیں منوّر ہونا ‘ کے عنوان سے مرحوم شاعر کے فن اور حیات پر 23 مضامین ہیں ۔ سب مضامین پر اظہارِ خیال ممکن نہیں ہے ، چند پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ انور سدید کا مضمون بعنوان ’ جدید غزل کی آبرو ‘ ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قافیہ اور ردیف کی غلامی کرنے والے مشاعرہ باز شاعروں کی طرح وہ مصرع ثانی سے مصرع اولا کی طرف سفر نہیں کرتے بلکہ شاید ان پر پورا شعر اترتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلا مصرع پڑھنے کے بعد وہ دوسرے مصرعے کو اس طرح کروٹ دیتے ہیں کہ پورے شعر کی تازگی اور توانائی اور تجدد کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ ان کی غزل چونکہ جدید زمانے کی غزل ہے اس لیے اس میں پرانے رموز و علائم نہیں آتے لیکن عصر حاضر کے مظاہر و مسائل ازخود غزل کی بنت میں شامل ہوتے چلے گیے ہیں ۔‘‘ انور سدید کا ماننا ہے کہ منوّر رانا جدید غزل کی آبرو ہیں ۔ ایک اور مضمون ’ منوّر رانا : مشرقی اقدار کا علمبردار مابعد جدید شاعر ‘ پر نظر ڈال لیتے ہیں ، اسے سہیل ارشد نے تحریر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ جدیدیت کے دور میں صرف اقدار کی شکست کا نوحہ لکھا گیا لیکن منوّر رانا نے اردو شاعری میں مشرقی اقدار کا احیاء کیا ۔ انہوں نے اپنی شاعری کی مدد سے عوام کی ذہنی و فکری سطح کو بلند کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔‘‘ تمام مضامین وقیع ہیں اور مرحوم شاعر کے حیات اور فن کے مختلف گوشوں کو منوّر کرتے ہیں ۔ لکھنے والوں میں علامہ اعجاز فرخ ، فاروق ارگلی ، شعیب رضا فاطمی ، ڈاکٹر رؤف خیر ، پروفیسر اسلم جمشید پوری کے علاوہ دیگر بڑے ادیب شامل ہیں ۔ ’ چل دیے ہم تو میسر نہیں ہونے والے ‘ عنوان کے تحت منوّر رانا کی یادیں اور باتیں پیش کی گئی ہیں ۔ اس حصے میں 13 مضامین اور دو قطعات تاریخِ وفات ہیں ۔ مضامین لکھنے والوں میں مرحوم مشرف عالم ذوقی کا نام بھی ہے ۔ ان کے مضمون کا عنوان سب کچھ کہہ دیتا ہے ، ’ منوّر رانا : زمین کی خوشبو اور جڑوں سے نیا لہجہ دریافت کرنے والا مہاجر ‘ ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ غزل سے انہوں نے وہی کام لیا ہے جو ان سے پیشتر انقلابی شاعر نظموں سے لیا کرتے تھے ۔‘‘ اس حصے میں سے دو مضامین کا مزید ذکر کروں گا ، ایک معروف صحافی معصوم مرادآبادی کا مضمون ہے بعنوان ’ منوّر رانا : مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے ‘، اور دوسرا مضمون ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا بعنوان ’ منوّر رانا : اردو شاعری کی ہم عصر مقبولیت کا استعارہ ‘ ۔ دونوں مضامین سے دو یا تین سطریں پیش ہیں ۔ معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں : ’’ منوّر رانا جب مشاعرے میں ماں کے موضوع پر شعر سناتے تھے تو سامعین کی آنکھوں میں نمی ہوتی تھی ۔ یہی ان کی شاعری کا کمال تھا ۔ ادھر کچھ عرصے سے بعض تنازعات نے انہیں گھیر رکھا تھا ۔ ان میں کچھ خاندانی تنازعات تھے اور کچھ سیاسی ۔ اس کے ساتھ صحت کے مسائل بھی تھے جو دن بدن سنگین ہوتے چلے جا رہے تھے ۔ مگر وہ دیوانہ وار ان سب کا مقابلہ کرتے رہے ۔ اُنہوں نے حالات کی ستم گری سے شاکی ہو کر 2015 میں اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں لیں گے ۔ انہوں نے ایسا کیا بھی ۔ حکومت نے اُن پر شکنجہ کسنے کی بھی کوشش کی ، لیکن وہ میدان میں ڈٹے رہے اور صحت و سیاست دونوں کے مسائل سے جوجھتے رہے ۔‘‘

ڈاکٹر سیّد احمد قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں : ’’ منوّر رانا بلاشبہ ایک بڑے اور معتبر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان تھے ۔ جن کا دل غریبوں ، مزدوروں ، بے کسوں کے لیے تڑپتا اور دھڑکتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ منوّر رانا نے غربت کو بہت قریب سے دیکھا اور جھیلا تھا ۔ اس لیے اُن کی پوری شاعری کے محور یہی موضوعات ہوا کرتے تھے ۔ جن میں سچائی کا عنصر نمایاں تھا ۔ ایک سچا فنکار وہی ہے جو اپنے اردگرد کے تجربات کو فکر و احساس کی بلندی عطا کرے ۔‘‘ اس حصے کے تمام ہی مضامین مرحوم شاعر کی یادوں اور باتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ لکھنے والوں میں عبدالسلام عاصم ، صفدر امام قادری ، کلیم حاذق ، فخرالدین عارفی ، وسیم ملک ، غوث سیوانی ، ندیم ہاشمی ، ابن نثار اور شاہینہ پروین شامل ہیں ۔ قطعات تنویر پھولؔ اور غیاث انور شہودی کے ہیں ۔ یہ بھرپور گوشہ منوّر رانا کو شاندار خراجِ عقیدت ہے ۔ یقیناً یہ قارئین کو پسند آئے گا ۔

اس شمارے میں معمول کا مواد بھی شامل ہے ۔ میں اس پر زیادہ بات نہ کرتے ہوئے چند ادیبوں کے نام لکھ دیتا ہوں ، خود اندازہ ہو جائے گا کہ معمول کا حصہ بھی کچھ خاص ہے ۔ لکھنے والوں میں سعادت سعید ، پروفیسر ناصر عباس نیر ، سیّد محمد اشرف ( ناول کے دو باب) ، محمد حمید شاہد ، پروفیسر سراج اجملی اور ڈاکٹر عمیر منظر جیسے بڑے نام شامل ہیں ۔ یہ شمارہ 504 صفحات پر مشتمل ہے لیکن قیمت صرف 300 روپیے ہے ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے رابطہ نمبر 9830126311 ہے ۔

You may also like