خطاطی کا فن اپنے حسنو زیبائش، دلکشی ورعنائی کے سبب صدیوں سے زندہ ہے۔ یوں تو اس فن میں کمال حاصل کرنے والے ہردور میں پیدا ہوتے رہے ہیں،لیکن جب سے خطاطی اور کتابت کا فن کمپیوٹر کے قالب میں ڈھلا ہے، تب سے اس فن کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہے۔ اب نہ تو ویسے خطاط ہیں اور نہ ہی اس فن کے قدردان۔ایسے نامساعد حالات میں اگر کوئی خطاط اپنے فن کا جادو جگارہا ہے تو بلاشبہ لائق تحسین ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ آج ہم آپ کی ملاقات ایسے ہی ایک فن کا ر سے کرائیں گے جس نے کمپیوٹر کے اس دور میں دستی ہنر سے نام پیدا کیا ہے۔ یہ فن کار ہیں منوراعظمی، جو اترپردیش کے ایک دور دراز شہر مؤ ناتھ بھنجن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی انگلیوں میں قدرت نے ایسا کمال پیدا کیا ہے کہ وہ جب قرطاس پراپنے فن کے جو ہر دکھاتے ہیں تو دیدہ زیب اور دلکش فن پارے وجود میں آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی فن پاروں کو عالمی سطح کی نمائشوں میں جگہ دی گئی ہے۔منور اعظمیفن خطاطی کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے ہاں روایت وجدت کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ راقم الحروف بھی چونکہ برسوں اس فن کا اسیر رہا ہے، اس لیے وہ اس کی باریکیوں اور خوبیوں سیبخوبی واقف ہے۔منور اعظمی کے تفصیلی ذکر سے پہلے آئیے اس فن کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
1981 میں جب اردو سافٹ وئیرنوری نستعلیق وجود میں آیا تو بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ اب دستی کتابت کا فن دم توڑ دے گااور کتابت کرنا ایک خواب بن جائے گا، لیکن کتابت اور خطاطی کے فن میں جو کشش ہے، اس سے نہ صرف اس فن میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہی بلکہ نئے نئے فن کار بھی پیدا ہوئے۔ یوں تو تمام ہی فنون لطیفہ اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان میں خطاطی ایک ایسا فن ہے جس نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اسلام میں تصویر کشی اور مصوری کی ممناعت تھی۔ مسلمانوں نے اپنے آرائش وزیبائش کے جذبہ کی تسکین کی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فن خطاطی کا سہارا لیا اور اس فن کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ یہ فن اہل ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا اور بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک کے لیے اس میں کمال پیدا کرنا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ایک اعزاز تصور کیا جانے لگا۔اگر آپ ہندوستان میں اس فن کے ارتقاء کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ جب مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ اس فن کو بھی لائے۔ اس طرح ہندوستان میں اس فن کی تاریخ تقریباً ایک ہزار برسوں کو محیط ہے۔ہر مسلمان بادشاہ نے اس میں دلچسپی لی اور ہندوستان میں جو عظیم الشان عمارتیں بنائیں، ان پر اپنے وقت کے بہترین خطاطوں سے قرآنی آیات کندہ کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطب مینا ر سے تاج محل تک ہمیں اس فن کے بہترین نقوش نظر آتے ہیں۔
ہندوستان میں مغلیہ عہد کواس فن کے عروج کا سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔ مغل دور کی جتنی بھی عمارتیں، مسجدیں، مقبرے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں اس فن کے جو ہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ خاص طور پر شاہجہاں نے اپنی تعمیرکردہ تمام ہی عمارتوں میں اعلیٰ درجہ کے خطاطوں سے کام لیا۔تاج محل ہو یا شاہجہانی جامع مسجدیا اس دور کی دیگر عمارتیں ان میں خطاطی کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ اس دور کی عمارتیں جہاں فن تعمیر کی اعلیٰ مثال ہیں تو وہیں ان پر کی گئی خطاطی بھی اپنی مثال آپ ہے۔کئی بادشاہ ایسے بھی تھے جنھوں نے ازخود اس فن میں کمال حاصل کیا۔ یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب اپنے زمانے کا بہترین خطاط تھا اوروہ اپنا ذاتی گذر بسر قرآن پاک کی کتابت سے حاصلشدہ معاوضے سے کرتا تھا۔ قرآنی خطاطی کی بھی ایک مستقل اور توانا تاریخ ہے۔ کئی مسلم بادشاہوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے قرآن مجید عجائب گھروں اور لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔
منور اعظمی نے ایک دور دراز علاقہ میں رہ کر اپنے فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ وہ یوں تو تمام ہی خطوط پر ملکہ رکھتے ہیں، لیکن خط ثلث میں طغرہ نویسی پرانھیں جو مہارت حاصل ہے، وہ آج کے خطاطوں میں کم ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ آج بھی ملک کے کئی حصوں میں کتابت اور خطاطی سکھانے کے مراکز سرگرم ہیں، لیکن یہاں وہ بات نہیں پائی جاتی۔منور اعظمی نے کسی سرپرستی کے بغیر جو کچھ کردکھایا ہے، وہ اس فن سے ان کے گہرے شغف کا ترثبوت ہے۔ ان کی پیدائش 6/جون 1964کو مؤ کے محلہ بلاقی پورہ میں ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔بعدازاں مقامی مدرسہ دارالعلوم مؤ میں پرائمری میں داخلہ لیا اور وہیں الہ آباد بورڈ سے منشی، مولوی اور کامل کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن فراغت مدرسہ جامعہ عربیہ دارالعلوم مؤ سے ہوئی۔
منوراعظمی کوفن خطاطی سے بچپن ہی سے لگاؤ تھا۔1976میں جب وہ درجہ سوئم میں پڑھ رہے تھے تو اس وقت مولانا مجیب اللہ ندوی نے مسلم انٹر کالج میں خطاطی کا مقابلہ کرایا، جس میں منور اعظمی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہیں سے ان کے شوق نے جلا پائی اورانھوں نے اس فن کو باضابطہ سیکھنے کے لیے ایک استاد کی تلاش شروع کردی۔ مؤ شہر کے استاد خطاط فیض الحسن سے اصلاح لینی شروع کی اور نستعلیق کا فن سیکھا۔ اسی دوران اپنے استاد کے ساتھ دہلی آئے اور مایہ ناز خطاط محمدخلیق ٹونکی سے ملاقات کی۔خلیق ٹونکی انھیں اپنے شاگردوں میں شامل کرنا چاہتے تھے، لیکن تعلیمی سلسلہ منقظع ہونے کے خوف سے انھوں نے مؤ میں رہنے کو ترجیح دی۔تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے پھوپھی زاد بھائی ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ایماء پر سعودی عرب کا سفر کیا اور سنہ 2000تک وہیں فن خطاطی کے جوہر دکھاتے رہے۔جب ہندوستان واپس آئے تو یہاں صورتحال بدل چکی تھی اور لوگ کمپیوٹر کی کتابت سے رجوع ہوچکے تھے،اس لیے دس سال کا عرصہ ایسا گزرا کہ منور اعظمی کو کوئی کام ہی نہیں ملا، لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے اور مشق جاری رکھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خطاطی کے شوقین ان کی طرف رجوع ہونے لگے اور آج صورتحال یہ ہے کہ انھیں فرصت نہیں ملتی۔ کتابوں کے ٹائٹل،طغرے، پوسٹر وغیرہ بنوانے کے لیے دوردراز کے لوگ ان سے رجوع ہوتے ہیں۔ان کے فن کی گونج سرحدوں کے پار بھی سنائی دے رہی ہے۔ وہ اب تک جن ملکوں میں خطاطی کی نمائشوں میں حصہ لے چکے ہیں، ان میں ایران، انڈونیشیا، ملیشیا اور مراکش شامل ہیں۔منور اعظمی کا فن بتدریج ترقی کررہا ہے اور اگر یہ رفتار جاری رہی تو وہ ترقی کی مزید منزلیں طے کریں گے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار عقیق کٹا،تب نگیں ہوا