یوں تو اس وقت ساری دنیا کورونا جیسی ہلاکت ناک وبا کی وجہ سے مختلف بحرانوں میں مبتلاہے،جن میں سب سے نمایاں طبی اور معاشی بحران ہیں۔جو ممالک اور وہاں کی حکومتیں اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے سنجیدہ اور عوام کی فلاح و بہبود کے تئیں پابندِ عہد ہیں انھوں نے اپنے یہاں نہ صرف اس وبا پر بہت حد تک قابو پالیا بلکہ ان کی معیشتیں بھی پٹری پر آنے لگی ہیں۔حالاں کہ اس وقت امریکہ جیسی عالمی طاقت اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کی معاشی صورت حال پر بھی منفی اثر پڑا ہے؛چنانچہ2020-21کے مالی سال کے دوسرے کوارٹر میں امریکی معیشت9.5فیصد گراوٹ سے دوچار ہوئی ہے اور اسی طرح دنیا کی ایک اور بڑی معیشت جاپان کو بھی قدرے سست روی کا شکار ہونا پڑا اور دوسرے کوارٹر میں 7.6فیصد گراوٹ سے دوچار ہوئی ہے۔مگر اس معاملے میں ہندوستان سب سے بری حالت میں ہے اور دوسرے کوارٹرمیں یہاں کی معیشت میں23.9فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس کی بنیادی وجہ کورونا وائرس کے سبب ملکی سطح پر نافذ کیے جانے والے سخت لاک ڈاو ¿ن اور اس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بے روزگاری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔وزیر خزانہ سیتارمن نے تو اس حالت کا ذمے دار’ایکٹ آف گاڈ‘کو قرار دیاہے، جس پر اپوزیشن کی جانب سے کافی اعتراضات بھی کیے گئے ،سابق وزیر خزانہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے چھ ستمبر کو انڈین ایکسپریس کے اپنے کالم میں ان کی اس بات کو خاص طورپر طنز کا نشانہ بنایا اور شیوسینا کے رہنما سنجے راوت نے بیان جاری کرکے کہا کہ سیتارمن بھگوان کو الزام دے رہی ہیں ،جو ہندوتوا کے نظریے کے خلاف ہے۔سابق آربی آئی گورنر رگھو رام راجن نے بھی موجودہ ملکی معیشت پر سخت تشویش کا اظہار کیاہے ،انھوں نے اپنے لنکڈ ان پیج پرایک پوسٹ میں لکھا کہ جی ڈی پی میں اس حد تک گراوٹ پورے ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہندوستانی بیوروکریسی کو جلد ازجلد اس سلسلے میں بامعنی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پیر کے دن حکومت کی جانب سے جی ڈی پی کا ڈاٹا ریلیز کیاگیا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دوسرے کوارٹرمیں کئی اہم سیکٹرز میں غیر معمولی گراوٹ آئی ہے۔تعمیرات،صنعت اور مواصلات کے شعبوں میں سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ اعداد و شمار سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اس وقت1996کے بعد کے سب سے بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے۔ہندوستانی معیشت کو مزید پیچیدگی کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑ رہاہے کہ یہاں بڑی تعدادمیں لوگ غیر رسمی سیکٹر سے وابستہ ہوتے ہیں،وہ ایسے اداروں اور کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں جو عام طورپر سرکارکی رسائی سے دور ہوتی ہیں،خود مختار ہوتی ہیں یا وہ خود اپنے طورپر چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔جیسے رکشہ چلانے والے،درزی،روزانہ مزدوری کرنے والے لوگ اور زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد۔ ماہرین معاشیات کا تو یہ کہناہے کہ آفشیل اعداد و شمار میں ان شعبوں کی حقیقی صورت حال کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے اور اصل حالت اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔
اِس سال کے شروع میں ہی چین اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں کورونا وائرس کے پھیلاو ¿ کے بعد ہندوستان میں بھی اس کے اثرات نظر آنے لگے تھے اور مارچ آتے آتے حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ پورے ملک میں سخت لاک ڈاو ¿ن لگادیا گیا،اتنی بڑی آبادی اور مہاجر مزدوروں کی کثیر تعداد رکھنے والے ملک میں یہ فرمان جاری کیاگیا کہ جوجہاں ہے وہیں رہے،ہر قسم کے نقل و حمل پر روک لگادی گئی،کارخانے،کمپنیاں اور تمام تجارتی و کاروباری مصروفیات بند کر دی گئیں یعنی پورا ملک اچانک تھم سا گیا،جو جہاں تھے،وہیں رکنے پر مجبور ہوگئے اور صرف اس وجہ سے بھی سیکڑوں جانیں گئیں اور دیگر نقصانات ہوئے۔اس صورت حال کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں مزدوری کرنے والے لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو جانے لگے،کچھ دنوں کے بعد معاشی حالت کو کچھ بہتر کرنے کے لیے لاک ڈاو ¿ن میں کچھ ڈھیل دی گئی اور بعض کاروباری سرگرمیاں شروع کی گئیں،مگر اس کے نتیجے میں ملکی معیشت تو خیر کچھ بہتر نہ ہوپائی البتہ غیر معمولی برق رفتاری کے ساتھ پورے ملک میں کورونا وائرس پھیلنے لگا اور اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کورونامتاثرین کے معاملے میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے اور روزانہ نوے ہزار سے زائد کیسز آنے لگے ہیں۔اس معاملے میں ہندوستان سے اوپر صرف امریکہ رہ گیا ہے، برازیل بھی پیچھے چلاگیا ہے۔
محض چند سال قبل 1.3بلین آبادی والا ہندوستان دنیاکی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت تھا اور مجموعی گھریلو پیداوارکی شرح آٹھ فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی تھی،مگر پھر جلد ہی اس میں گراوٹ بھی شروع ہوگئی اور کورونا سے پہلے بھی ہندوستانی معیشت کوئی بہت اچھی پوزیشن میں نہیں تھا۔مثال کے طورپر پچھلے سال اگست میں کار کی فروخت میں 32فیصد کی گراوٹ آئی تھی جو پچھلی دودہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔
حکومت نے پیر کو جو ڈاٹا ریلیز کیا ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اخراجات،پرائیویٹ سرمایہ کاری اور کھیل کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ تجارت،ہوٹل اور مواصلات کے شعبے میں47فیصد گراوٹ آئی ہے۔ایک وقت میں نہایت توانا رہنے والی ہندوستانی مینوفکچرنگ انڈسٹری میں 39فیصد تک کمی آگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف ایک شعبہ ہے جہاں ہندوستانی معیشت نے کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ زراعت کا شعبہ ہے،پہلے کوارٹر میں اس شعبے میں شرحِ نموتین فیصد تھی جو دوسرے کوارٹرمیں3.4فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ماہرین معاشیات اس کی وجہ اس مانسون میں ہونے والی اچھی بارش کو قرار دے رہے ہیں ۔چدمبرم نے اپنے کالم میں اسی حوالے سے حکومت پر طنز کیا ہے اور لکھا ہے کہ سیتارمن جی نے ملک کی گرتی معیشت کی ذمے داری پوری طرح ’گاڈ‘کے سر ڈال دی، مگر گاڈ نے ہی موسمِ برسات میں اچھی بارش برسائی جس کے نتیجے میں ملک کے زراعت سیکٹر میں بہتری آئی ہے ۔
گرچہ اس ماہ کئی اہم صنعتی سیکٹر ز کے کھولنے کا فیصلہ کیاگیا ہے ،مگر اس کے باوجود کورونا وائرس ملک میں جس تیزی سے پھیلتا جارہاہے اور لوگوں میں جو خوف و ہراس سمایا ہواہے اس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ہندوستانی معیشت کی مکمل بہتری کا امکان نظر نہیں آتا۔ملک کے ماہرینِ معاشیات بھی اس حوالے سے اسی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ آئی سی آر اے میں ایکونومسٹ محترمہ ادیتی نائرکا بیان نیو یارک ٹائمس نے شائع کیاہے کہ گرچہ ملک کے کچھ حصوں کی معیشت بہتر ہونے لگی ہے،مگر کورونا انفیکشن کے لگاتار بڑھنے کی وجہ سے حالات اُس رفتار میں بہتری کی طرف نہیں جاسکتے،جس کی ضرورت ہے۔اس ملک میں کورونا سے اموات کی شرح کم اس لیے ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستان ایک نوجوان ملک ہے ،جہاں کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں کی ہے اور وہ وائرس سے لڑنے کی زیادہ قوت رکھتے ہیں۔
اگر ملک کی ریاستوں کی بات کریں تواب بھی مہاراشٹر،بہار،کرناٹک،جھارکھنڈ،یوپی اور دیگر کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں حالات بہت بہتر نہیں ہیں اور وہاں کی حکومتیں گو مگو کی کیفت میں ہیں۔کبھی لاک ڈاو ¿ن میں ڈھیل دی جاتی ہے تو کبھی سختی کردی جاتی ہے۔کبھی ہفتے میں دودن لاک ڈاؤن کی تجویز آتی ہے تو کبھی رات کے وقت میں لاک ڈاؤن لگایا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے بھی صنعت کاروں اور مزدوروں کو دشواریوں کا سامنا ہے اور وہ اپنا کاروبار یا مزدوری شروع کرنے کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔ وزیراعظم مسٹر مودی یہ نعرہ دیتے آرہے ہیں کہ 2024تک ہندوستان پانچ ٹریلین کی معیشت کا مالک ہوگا،مگر پچھلے سال ہندوستانی معیشت 2ٹریلین تھی اور عالمی سطح پر اس کا نمبر امریکہ، چین،جاپان اور جرمنی کے بعد پانچویں نمبر پرتھا،مگر اس سال کے اخیر تک ایسا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ ہندوستانی معیشت میں کم ازکم دس فیصد تک کی گراوٹ آسکتی ہے۔
پی چدمبرم ،رگھو رام راجن سمیت کئی دیگر ماہرین معاشیات نے اپنی تحریروں اور بیانوں میں حکومت کو کئی مشورے دیے ہیں ،مثلا غیر رسمی صنعتی سیکٹرپر توجہ،غریبوں اور معمولی آمدنی والے لوگوں کا خیال رکھنا ، اختیارات کا عدمِ ارتکاز اور ریاستی حکومتوں کے لیے معاشی خود مختاری کا راستہ ہموار کرنا وغیرہ۔ان کا کہناہے کہ ان مشوروں پر عمل کرنے سے جی ڈی پی میں بہتری آسکتی ہے ،مگر حکومت کا اپنا موقف ہے،اس کا کہناہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت پر اثر پڑاہے ،تو ہندوستان کیسے اچھوتا رہ سکتا تھا۔مگر کیالگ بھگ24فیصد تک جی ڈی پی میں گراوٹ کی واحد وجہ کورونا وائرس کو قرار دینا درست ہے؟