حال میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ملک کی فضا دن بہ دن کس قدر مکدر ہوتی جا رہی ہے ۔ اگرچہ وطنِ عزیز کی اکثریت آج بھی ملک کی مشترکہ تہذیب کی پاسداری کے لیے سینہ سپر ہے کہ ملک میں منافرت پھیلانے والوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔لیکن اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر مٹھی بھر افراد ملک کے آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور اس کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں ہو رہی ہے نتیجہ ہے کہ اس طرح کے سر پھروں کا حوصلہ بڑھتا جا رہاہے ۔ سب سے المناک پہلو تو یہ ہے کہ اب انتظامیہ میں شامل عملے بھی غیر آئینی حرکت انجام دے رہے ہیں اور ملک کے خاص طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات سے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ مسخ ہورہی ہے اور ہماری حکومت کو کہیں نہ کہیں اس طرح کے غیر جمہوری حرکات وسکنات کرنے والوں کی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے۔پہلا المناک واقعہ دارالحکومت دہلی کے اندر لوک میں رونما ہواہے کہ وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے والے نمازیوں کو سجدے کی حالت میں اندرلوک تھانہ کی پولیس نے جس طرح زدوکوب کیا ہے وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر مہذبانہ فعل بھی ہے ۔واضح ہو کہ جب کبھی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے غیرآئینی فعل کو انجام دیا جاتا ہے تو اس سے ایک طرف جس طبقے کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہو جاتاہے اور دوسری طرف ان سرپھروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو جان بوجھ کر ملک کے اندر بد امنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اگرچہ دہلی پولیس نے اقلیت مسلم طبقے کے نمازیوں کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے اور سجدہ کی حالت میں زدوکوب کرنے والے پولیس عملہ کو معطل کیا ہے لیکن اقلیت طبقے کی طرف سے یہ مطالبہ جاری ہے کہ اس عملہ کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہوئے اسے برخاست کیا جائے۔میرے خیال میں یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ اس حقیقت سے لوگ باگ بخوبی واقف ہیں کہ معطل کرنا ہی کافی نہیں ہے بالخصوص پولیس محکمے میں تو اعلیٰ حکام اپنے ما تحت کے عملے کو بات بات پر معطل کرتے رہتے ہیں اور پھر اس کے معطل نامے رد کردیا جاتا ہے اس لیے معطل نامے کوئی بڑی سزا کے طورپر نہیں دیکھا جاتا۔اس لیے اگر واقعی محکمہ پولیس اقلیت مسلمانوں کے خلاف جس طرح کا غیر قانونی اور غیر انسانی فعل انجام دیا گیاہے اس کے خلاف بر خاستگی کی کاروائی ہی لازم معلوم ہوتی ہے تاکہ ملک میں یہ پیغام جائے کہ اس طرح کے غیر آئینی فعل کو انجام دینے والے سرکاری عملوں کے خلاف اس طرح کی کاروائی ہو سکتی ہے ۔
بہر کیف! دہلی پولس کی طرف سے اقلیت مسلم طبقے کے وفد کو یقین دلایا جا رہاہے کہ محکمہ پولیس جلد از جلد ٹھوس کاروائی کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دہلی پولس جو مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے وہ اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے۔دوسرا شرمناک واقعہ گجرات کی ایک یونیورسٹی میں رونما ہوا ہے وہاں بھی غیر ملکی مسلم طلبا کو نماز کی حالت میں مارپیٹ کی گئی ہے اور ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں ۔ چوں کہ یہ معاملہ غیر ملکی طلبا کے ساتھ پیش آیا ہے اس لیے یہ خبر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی ہندوستان جیسے عظیم ملک کے لیے باعثِ ندامت ثابت ہو رہی ہے ۔ واضح ہو کہ گجرات یونیورسٹی کا واقعہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ یونیورسٹی احاطے میں یہ حادثہ ہوا ہے گرچہ یونیورسٹی انتظامیہ یہ دلیل دے رہی ہے کہ باہری افراد نے اس واقعے کو انجام دیاہے ۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہرش سانگھوی نے پولیس عملے کے ساتھ ہنگامی میٹنگ کی ہے اور جانچ کر فوری کاروائی کرنے کا اعلان کیا ہے ۔دراصل گجرات یونیورسٹی میں افغانستان، ازبکستان، سری لنکا،بنگلہ دیش ، بھوٹان، شام اور افریقی ممالک کے طلبا ہندوستانی وظیفے پر تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔حکومت ہند ان غیر ملکی طلبا کو تعلیمی ویزا دیتی ہے اور انہیں ہر طرح کی آئینی آزادی فراہم کرتی ہے ۔ظاہر ہے کہ جن ملکوں سے طلبا یہاں آتے ہیں ان میں مسلم طلبا بھی شامل ہوتے ہیں کہ مذکورہ ممالک میں اسلامی حکومت بھی شامل ہے لیکن حال کے دنوں میں ان طلبا کے ساتھ جس طرح کا تعصبانہ رویہ اپنایا جاتا رہا ہے اس کی شکایتیں بھی آتی رہی ہیں ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یونیورسٹی احاطے کے ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبا اگر اپنے مذہبی فریضے کو انجام دے رہے تھے ماہِ مبارک رمضان میں اجتماعی طورپر نماز پڑھ رہے تھے تو اس پر بیرونی لوگوں کو اعتراض کیوں کر ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ گجرات پولیس نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ دو سوسے زائد بیرونی افراد یونیورسیٹی احاطے میں داخل ہو کر اس مذموم فعل کو انجام دیا ہے ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ اس سازش میں کہیں نہ کہیں یونیورسٹی احاطے میں رہنے والے طلبا یا اسٹاف ضرور شامل ہیں ورنہ یونیورسٹی احاطے سے باہری لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اندرونی نظام میں مداخلت کرے۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ کو کسی طرح کا اعتراض تھا تو وہ تمام غیر ملکی طلبا کو طلب کرکے ہدایت دے سکتے تھے کہ وہ ہاسٹل میں نماز ادا نہ کریں لیکن ایسا نہ کرکے یونیورسٹی سے باہری افراد کو احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا کئی طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں ۔یہ اچھی بات ہے کہ جس وقت ان مسلم طلبا کے ساتھ بد سلوکی ہو رہی تھی ، ان کے کمروں میں توڑ پھوڑ ہو رہی تھی ، ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل چھینے جا رہے تھے تو غیر مسلم طلبا نے ان مسلم طلبا کے ساتھ ہمدردی جتائی اور انہیں بچانے کی کوشش بھی کی مگر شرپسندوں نے ان غیر مسلم طلبا کے ساتھ بھی دھکا مکّی کی غیر ملکی طلبا پر حملے کا ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوگیا ہے اور اس ویڈیو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم سازش کے ساتھ ان مسلم طلبا کو ہراساں کیا گیا ہے ۔ ان کے سامان لوٹے گئے ہیں، ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ معاملہ غیر ملکی نوعیت کا ہے اور اس طرح کے واقعات سے اپنے ملک کی شناخت مجروح ہورہی ہے لیکن اس طرح کے حالات کیوں کر پیدا ہوئے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کے واقعات میں روز بروز اضافے ہو رہے ہیں ، وقتی طورپر ہائے توبہ ہوتی ہے اور پھر سارے کے سارے معاملے سرد خانے میں ڈال دیے جاتے ہیں نتیجہ ہے کہ دنوں دن ایسے شرپسندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ملک میں خوف وہراس کا ماحول بنتا جا رہاہے ۔اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا صرف ایک طبقے کی بے عزتی اور اس کو جسمانی وذہنی اذیت دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دور رس نتائج ملک کی سا لمیت کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ بالخصوص ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ایسے غیر جمہوری اور غیر آئینی واقعات کا رونما ہونا لمحۂ فکریہ ہے اور اس طرح کے واقعات کو انجام دینے والوں کے خلاف جب تک تمام تر ازم اور مفادات سے اوپر اٹھ کر کاروائی نہیں ہوگی اس وقت تک ملک میں اس طرح کے واقعات کو انجام دینے والے بے لگام رہیں گے اور پوری دنیا میں وطنِ عزیز ہندوستان کی جو تاریخی با وقار شناخت ہے اس پر سوالیہ نشان لگتا رہے گا۔اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کی فضا کو سازگار بنانا ہوگا تاکہ ملک کا کوئی طبقہ خوف وہراس کی زندگی جینے پر مجبور نہ ہوکہ ہمارے آئین میں ہر ایک شہری کوآئینی دائرے میں آزادانہ زندگی جینے کا حق دیا گیاہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)