[email protected]
پھیل جائے گی محبت چار سو
اک گزارش ہے کہ اُردو سیکھیے
اردو زبان محبت کی زبان ہے اور بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے اس لیے نہ مشرق کے لئے اجنبی ہے نہ مغرب کے لیے نامانوس، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر متعدد زبانوں میں کام ہوئے ہیں البتہ اردو زبان کی اہمیت تسلیم شدہ ہونے کے باوجود ایک طبقہ اردو دشمنی میں بھی سرگرم رہا ہے جس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو مخصوص نظریہ رکھنے کی بنیاد پر اردو سے دشمنی کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اردو زبان سے محبت کا دم تو خوب بھرتے ہیں لیکن غیر شعوری طور پر وقتی اور نجی فائدے کے لیے اردو کی ترویج و اشاعت کی کوششیں نہیں کرتے ہیں مجھے بارہا اس کا احساس ہوا ہے-
اگر گرد و پیش کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اچھے خاصے لوگ جو اردو اداروں سے وابستہ بھی ہوتے ہیں اپنی بول چال میں اردو کے بجائے بلاضرورت انگریزی کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی انگریزی زدہ اردو بولنے کی مصیبت پھلتی جارہی ہے اور لوگ اردو زبان کی زلفوں کو سنوارنے کے بجائے اس کوشش میں مصروف ہوتے جارہے ہیں کہ اپنی بول چال میں انگریزی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کو استعمال کرکے اپنا علمی قد اونچا کرلیں اور سامنے والوں کو متاثر کردیں حالانکہ اردو زبان اپنے الفاظ کی بندش اور خوبصورت بناوٹ کی بنیاد پر دنیا کی تمام زبانوں کے مقابلے میں نہ صرف لکھنے، پڑھنے. اور بولنے کے حوالے سے آسان ہے بلکہ سامنے والے کو اپنا بنانے کا ہنر بھی رکھتی ہے
لیکن دقت یہ ہے کہ ایک ذہن بن چکاہے کہ لوگ انگریزی کے الفاظ سے ہی متاثر ہونگے اور اسی ذہنیت کے تحت دوسروں کو متاثر کرنے کا بھوت اس طرح لوگوں کے سروں پر سوار ہوچکا ہے کہ اردو کے بہت سے خوبصورت ادبی الفاظ نامانوس اور اچنبھے بنتے جارہے ہیں، میں اردو زبان میں ان انگریزی الفاظ کے استعمال کے خلاف نہیں ہوں جنہیں اردو نے اپنے مزاج کے مطابق قبول کرلیا ہے مثلا ریڈیو ٹیلی ویژن، اسٹیشن، موبائل وغیرہ لیکن خون کی جگہ بلڈ، ارسال کی جگہ شیر تبصرے کی جگہ کمنٹ پسند کی جگہ لائک پسندیدہ کی جگہ فیورٹ وغیرہ کا استعمال انتہائی نامناسب معلوم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اردو کی صورت بگڑ جاتی ہے، بسااوقات لوگ اردو بولنے کے دوران آدھے ادھورے جملے انگریزی کے بولتے ہیں جس سے عجیب قسم کا ابہام پیدا ہوجاتا ہے مجھے عربی اور فارسی کے مشکل ترین الفاظ کا استعمال بھی اردو کے مزاج کے خلاف معلوم ہوتاہے جنہیں لوگ دوران گفتگو ایسی جگہ ٹھوس دیتے ہیں جہاں اس سے بہتر اور آسان الفاظ رکھے جاسکتے ہیں، اس لیے کہ یہی لوگ اردو زبان میں انگریزی الفاظ کے استعمال کے لئے جواز فراہم کرنے والے ہیں چند دن قبل کی بات ہے جب میں نے ایک شخص کو اردو زبان میں انگریزی کے جملے استعمال کرنے سے روکا تو اس نے سیدھا سیدھا کہا کہ عربی اور فارسی کے مشکل الفاظ آپ لوگ اردو میں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم لوگوں کو باتیں ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی ہیں، تو ادھر بھی قابو پانے کی کوشش کریں، مجھے یہ بات اچھی اس لئے لگی کہ مشکل ترین الفاظ کا استعمال واقعی اردو کے مزاج کے خلاف ہے،آخر محبت میں بلا وجہ کی سختی کیسی؟ لہذا ارباب نظر اعلی تعلیم یافتہ افراد اور اردو زبان سے دلچسی رکھنے والے حضرات کو سنجیدگی اور بیدار مغزی کے ساتھ اس صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی سطح پر کام کرناچاہییے ورنہ آنے والے دنوں میں یہ تشویش ناک رجحان مزید بڑھے گا اور اردو اردو کے علاوہ کچھ اور بن جائے گی نتیجتاً ہماری نسل اپنی مادری زبان اور مادری زبان میں موجود شاندار علمی ورثے سے محروم ہوجائے گی اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس نہ اپنی تہذیب ہوگی اور نہ اپنا شاندار ماضی:
ترے سخن کے سدا لوگ ہوں گے گرویدہ
مٹھاس اردو کی تھوڑی بہت زبان میں رکھ
مبارک انصاری