Home مکالمہ مولانا اعجاز احمد اسلم، ایڈیٹر ان چیف، ریڈیئنس ویکلی اور رکن مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند سے ایک ملاقات- اسانغنی مشتاق رفیقی

مولانا اعجاز احمد اسلم، ایڈیٹر ان چیف، ریڈیئنس ویکلی اور رکن مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند سے ایک ملاقات- اسانغنی مشتاق رفیقی

by قندیل

 

 

مولانا اعجاز احمد اسلم صاحب، ایڈیٹر ان چیف، ریڈیئنس ویکلی اور ممبر مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند، جہاں جماعت کے ساتھ قول و عمل کے طویل رفاقت کے لئے پہچانےجاتے ہیں وہیں اپنے لب و لہجے اور اندازِ نشست و برخاست میں ایک ایسی منفرد شان رکھتے ہیں جس کی مثال اب خال خال ہوچلی ہے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کی عملی تفسیر پیش کرنے والی آپ کی شخصیت جماعت اسلامی ہند کے حلقوں میں ہی نہیں اسلامی دنیا کے جدت پسند طبقے میں بھی کافی مقبول و معروف ہے خاص کر بر صغیر میں آپ کا حلقہ اکتساب بہت وسیع ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی پچھتر سالہ جدوجہد کو لے کر اور اس پس منظر میں مسلمانان ہند کے موجودہ مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے راقم نے ان سے خصوصی گفتگو کی جو آپ قارئین کے لئے یہاں پیش کی جارہی ہے۔

سوال: جماعت اسلامی ہند نے اپنی جدوجہد کے 75 سال مکمل کر لیے ہیں، آپ لگ بھگ چھ دہائیوں سے اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور تقریبا 52 سالوں سے جماعت سے جڑی کوئی نہ کوئی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ جماعت کے ساتھ رفاقت کے اس طویل سفر سے کیا آپ مطمئن ہیں؟

جواب: اطمینان کی وجہ سے ہی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ 1958 میں جب میں پندرہ سال کا تھا اور بہارکے مظفر پور میں ہوا کرتا تھا، اس وقت میں نے خطبات کا تیسرا حصہ حقیقت صوم و صلاۃ پڑھا اور اس سے متاثر ہوا، میرے سامنے اسلام کا ایک نیا تصور آیا۔اسلام میں عبادت کی بنیادی اہمیت ہے، عبادت کے بارے میں ہمارا تصور نماز روزہ تک ہی محدود ہے، اکثر امت تو بغیر سوچے سمجھے ہی نماز پڑھ لیتی ہے، روزہ کا مفہوم بھی نہیں سمجھتی اور حج بھی کر آتی ہے۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ عبادت عبد سے نکلا ہے اور عبد کا مطلب ہے بندہ یعنی غلام اور غلام چوبیس گھنٹہ بلکہ پوری زندگی کا غلام ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تشریح پڑھ کر پہلی بار یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ ہم اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے عابد بندے اور غلام ہیں اور اسلام دراصل بندگی کا نام ہے۔ میرے لیے یہ ایک نیا تصور تھا، اس کے بعد میں تلاش کر کر کے کتابیں پڑھتا رہا۔ کتابیں پڑھنے کا مجھے شروع ہی سے شوق رہا ہے، کھلونا، غنچہ، کلیاں ایسے پرچے پڑھتا تھا، جاسوسی دنیا کے شروع کے سو سے زیادہ شمارے پابندی سے پڑھے، اللہ کا فضل ہے کہ میں کسی بُرے شوق کی طرف مائل نہیں ہوا۔ پھر میری ملاقات میرے پہلے محسن، محسن جمال شمسی سے ہوئی، جو اسکول میں ٹیچر تھے اور 30 کلو میٹر دور سے سائیکل پر آتے تھے، انہوں نے مجھے ابو سیلم عبدالحی صاحب کی کتاب نماز دی۔ میرے ایک ماموں اور نانا کے انتقال پر 1958 میں ، میں بنگلور آگیا، وہاں بسنت گڑی کی مسجد میں حیدر آباد کے ایک امام صاحب تھے، ان سے کچھ کتابیں پڑھنے کو ملیں اور یوں ذہنی اطمینان حاصل ہوتا گیا، ایک نعمت غیر مترقبہ مجھے مل گئی، اسلام کا صحیح تصور ملا، ایسے لوگ ملے جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دین کی سرفرازی کو بنا لیا تھا اور یوں آج تک میری زندگی میں غیر مطمئن ہونے کا کوئی لمحہ نہیں آیا، اللہ کا شکر ہے۔

سوال: جماعت اسلامی ہند آزاد ہندوستان میں 75 سال جدوجہد کر کے آج جس مقام پر پہنچی ہے کیا آپ اس سے خوش ہیں یا آپ کو لگتا ہے کہ اسے اور آگے ہونا چاہیے تھا؟

جواب: ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جماعت اسلامی 1941 میں قائم ہوگئی تھی، اس وقت آزادی کی جدوجہد چل رہی تھی، ہر آدمی غلامی کا چوغا اپنی گردن سے اتار کر پھینکنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ 15 آگست 1947کو آزادی ملی۔ 1948 میں مولانا ابوللیث صاحب اصلاحی ندوی اور دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر یو پی کے لوگ تھے، یوپی میں بھی بڑی تعداد الہ باد، اعظم گڑھ وغیرہ یعنی مشرقی یو پی کے تھے، رامپور کے کچھ لوگ تھے، جنوب کے بھی کچھ لوگ تھے ایک محمد علی صاحب کیرلا کے اور صبغتہ اللہ بختیاری صاحب جو ویلور میں باقیات سے وابستہ رہے،ان صاحبان کے ہاتھوں جماعت کی تشکیل نو ہوئی، چونکہ نیا ملک بنا تھا اس لیے جماعت اسلامی ہند نام دیا گیا ، اس سے پہلے صرف جماعت اسلامی تھی۔ 1958 یعنی لڑکپن سے ہی جماعت کے ساتھ میری وابستگی رہی ہے الحمد اللہ۔

دیکھئے ایک ہماری تمنا ہوتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ پیغام سب کے لیے قابل قبول ہو یا کم از کم اس پیغام سے بہت سے لوگ واقف ہوجائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہوتا ہے، ہم کچھ چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کچھ اور چاہتا ہے۔ بہت سی چیزیں شروعات میں دھیمی رفتار سے چلتی ہیں بعد میں تیز ہوجاتی ہیں جس طرح پودے کی نشونما، بونے کے بعد بہت آہستہ ہوتی ہے اور بعد میں یہ تیزی سے بڑھنے لگ جاتا ہے۔ تاریخ بھی ہمیشہ ایک رفتار سے نہیں چلتی کبھی رک جاتی ہے کبھی آہستہ چلتی ہے کبھی تیز چلتی ہے اور کبھی چھلانگیں لگاتی ہوئی چلتی ہے۔

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

ایسا بھی ہوتا ہے، اچھا ہوتا کہ جماعت اور تیز چلتی۔ اب ہندوستان کافی تبدیل ہوگیا ہے مثلاً 1947 میں آزادی ہند کے وقت ہندوستان کی آبادی 35 سے 36 کروڑ تھی اب اس کی آبادی 144کروڑ ہوگئی ہے، اُس وقت ہماری فی کس آمدنی تقریبا سولہ سترہ روپیہ تھی، نوے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے تھے اب صرف ایسے تقریباً بیس بائیس فیصد لوگ ہیں۔ اس وقت خواندگی سولہ سترہ فیصد تھی اب ستّر فیصد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ اسی طریقے سے طوالت حیات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس حساب سے جماعت اور تیز چلتی تو اچھا رہتا،کوششیں ہم کرتے رہے ہماری کوتاہیاں دامن گیر رہیں لیکن:

جو کچھ ہوا ہوا کرم سے اس کے
جو کچھ ہوگا اس کے کرم سے ہوگا

اگلی بات، جب ہندوستان اتنا بڑا ہوگیا ہے، ذرائع ابلاغ بہت ترقی کرگئے ہیں اس حساب سے اور زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مصائب مشکلات اورچیلنجز بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔وطن عزیز میں ہندوتوا جو ابھی دس بیس سال میں پل کر جوان ہوا ہے وہ ہر قسم کے ستم ڈھا رہا ہے۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، آپ کی زبان سے تھوڑی سی ایسی بات نکلی جو ان کو ناگوار ہوئی تو آپ پر پابندی لگ سکتی ہے، ویسے پہلے بھی دو بار جماعت پر پابندی لگ چکی ہے۔ آج کل وہ ہر انسٹی ٹیوشن کو برباد کرنے پرلگے ہوئے ہیں،اپنے سیاسی مخالفین کودبانے اور غیرفعال کرنے کے لیے ای ڈی، سی بی آئی وغیرہ کا استعمال بے دریغ کررہے ہیں اور سلمانوں کے تعلق سے ان کی خاص پالیسی یہ ہے کہ انہیں ڈرا دھمکا کر ’انڈر دا ہیل‘ رکھیں۔

 

سوال: آزاد ہندوستان کے مسلم معاشرے میں جماعت اسلامی کی تحریک اپنی طویل موجودگی اور فعالیت کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جو اس کی ہم عصر دوسرے اصلاحی تحریکوں کو حاصل ہوئی۔ آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: جماعت اسلامی نے بنیادی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ فکر میں لائحہ عمل میں اور عملی جدوجہد میں۔ مثلاً، اسلام ایک چھوٹی ندی بن گیا تھا، ہم نے اس میں سمندر کی وسعت جو تھی وہ دینے کی جدوجہد کی ہے۔ دوسری بات اسلام صرف مسلمانوں کا مذہب بن گیا تھا، ہم نے ’وماارسلناک الا کافتہ لناس بشیر و نذیرا‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے آیا ہے،اول روز سے یعنی 1941 میں پہلے مولانا مودودیؒ کی قیادت میں اور ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا ابواللیثؒ اور دوسرے حضرات کی قیادت میں، ہندو مسلم دونوں کو مخاطب بنایا۔ البتہ یہ فطری بات ہے کہ اسلام سے مسلمانوں کی پہلے ہی سے وابستگی ہے، وہ جانتے ہیں یہ ان کا دین ہے تو ان سے ہمارا ربط زیادہ رہا، کیونکہ اسی معاشرے میں ہم رہتے ہیں۔

دوسری بات عورتوں کو نظر انداز کرنے کی، اب تک عورتیں نظر انداز کی جارہی ہیں۔ ہم نے عورتوں کو چولھے اور چکی سے باندھ دیا تھا ، حضور اکرمﷺ نے اپنے دور میں عورت کا رول جو بہت ہی مختصر اور محدود تھا، اس کو بہت کشادہ کیا، نبی کریم ﷺاگر آج کے اس دور میں ہوتے تو اس کواور زیادہ کشادہ کرتے۔

قرآن کی ایک آیت ہے سورۃ توبہ کی ’’ اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں‘‘۔۔ کتنا بڑا کام ہے، اس کے معنی صرف نیکی کی تبلیغ کرنا اور برائی سے منع کرنا نہیں ہے بلکہ نیکی کی قوتوں کو مضبوط کرنا اور برائی کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینکنے کی جدوجہد کرنا اور اس کے سوتوں کو بند کرنا بھی ہے۔ اللہ نے پہلے اس کام کا ذکر کیا، پھر نماز اور زکوۃ کا، پھر اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت اور زندگی کی تمام معاملات، اس طریقے سے جماعت نے اس پر بھی توجہ دی۔ لیکن ظاہر ہے کہ آدمی اپنے ماحول سے اچانک ہٹ کر توکچھ کام فوراً نہیں کرسکتا، جماعت کی رکنیت کا دروازہ شروع سے کھلا ہوا تھا چنانچہ اب جماعت اس پوزیشن پر ہے کہ پورے ہندوستان میں آپ دیکھیں گے، ایک ایک ریاست میں خاص کر جنوب کی ریاستوں میں زیادہ،(شمال میں ابھی پراناپن اور قدامت پسندی ہے)، ہمارے ارکان میں پچیس تیس فیصد اور کارکنان میں پینتیس چالیس فیصد تک خواتین ہیں اور امید ہے آنے والے دور میں خواتین کی تعداد اور زیادہ ہوگی۔

وانم باڑی کو ہی دیکھیں یہاں ساٹھ ستر سے زیادہ مسجدیں ہیں اور جماعت کا اچھا خاصا اثرو رسوخ بھی ہے، لیکن جماعت کو ابھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اور نہ جماعت نے بھی اتنی ہمت کی کہ مسجد میں خواتین آکر نماز پڑھ سکیں سوائے مسجد اہلحدیث کے، اہل حدیث کے پاس شروعات سے ہی یہ اچھا طریقہ رائج ہے کہ وہ خواتین کو مسجد آنے کی اجازت دیتے ہیں جمعہ اور رمضان میں تراویح تک ہی محدود سہی، لیکن ہمارے پاس یہ بھی نہیں ہے۔ اس طرح ہم نے عورتوں کو بہت بڑے خیر سے محروم کردیا ہے۔

سابقہ زمانے کے بڑے بڑے لوگوں کا یہ تصور تھا کہ عورت کو گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہیے ، عورت سال میں ایک دو بار اپنے والدین سے ملنے چلی جائے کافی ہے۔ عورتوں کو چولھے چکی سے باندھا ہی نہیں بلکہ کھوٹا گاڑھ کر باندھ دیا تھا۔ اب عورت کا رول بدل گیا ہے۔ گھر میں تلوار رکھنا کوئی اچھی چیز نہیں ہے میرے بچے کا ہاتھ بھی اس سے کٹ سکتا ہے لیکن اگر آس پاس کے بیس گھروں میں تلوار ہے تو مجھے بھی رکھنی پڑے گی۔ جب دوسری عورتیں کام کر رہی ہیں مرد بھی کما رہے ہیں اور عورت بھی کما رہی ہے، ہماری عورتیں چولھے چکی سے بندھی رہیں گی تو پھر ظاہر ہے ہماری آمدنی بھی کم ہوگی ہمارا دماغ بھی کم چلے گا اور ہم دنیا سے واقف بھی کم ہوں گے۔ کیرالا کو دیکھیے وہاں ساٹھ فیصد لڑکیاں کالج میں پڑھ رہی ہیں اور چالیس فیصد کے قریب مرد ہیں۔ میں دس دن پہلے اعظم گڑھ گیا تھا ،تعلیمی اعتبار سے بہت ترقی یافتہ ضلع ہے۔ مولاناابواللیث صاحبؒ اور مولانا صدرالدین اصلاحی صاحبؒ وہیں سے تھے، مولانا حمید الدین فراحی صاحبؒ نے وہاں کام کیا، پھر علامہ شبلیؒ، مولاناسید سلیمان ندویؒ نے دارلمصنفین قائم کیا۔ وہاں ایک مدرسۃ الاصلاح ہے جو 1908 میں قائم ہوا تھا، اس میں پونے تین ہزار کے قریب لڑکے پڑھ رہے ہیں، وہاں پہلے لڑکیوں کا الگ سیکشن نہیں تھا اب اس میں لڑکیوں کے لیے انگلش میڈیم کا اسکول قائم کیا گیا ہے، جس میں ابھی تعداد ڈھائی سو ہے لیکن آئندہ تعداد بڑھے گی۔ لیکن جامعتہ فلاح 1962 میں قائم ہوا اس میں لڑکے سوا ہزار ہوگئے ہیں اور لڑکیاں ڈھائی ہزار۔ اسی ضلع میں طوا نام کی ایک جگہ ہے وہاں جماعت نے ایک مدرسۃ البنات قائم کیا ہے اس میں ڈیڑھ ہزار طالبات پڑھ رہی ہیں، وہاں اس ضلع میں دیوبندی طرز کا ایک مدرسہ ہے انہوں نے بھی طے کیا ہے کہ لڑکیوں کو اب وہ انگلش پڑھائیں گے۔ اس طریقے سے تبدیلی آرہی اور تبدیلی آنی چاہیے اب تو پولیس میں بھی عورتیں ہیں، اب تک مسلمانوں کی جو مظلومانہ پٹائی کی جاتی تھی وہ پولیس والے مرد کرتے تھے اور اب عورتیں بھی کریں گی اور ہم مار کھا ئیں گے اس لیے کہ پولیس پہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتے،تو اس طرح سے حالات بدل رہے ہیں اور دوسری بات انگریزی اخبارت دیکھئے اس میں مضامین لکھنے والی کتنی خواتین ہوتی ہیں اور اس سے وابستہ کتنی کرسپانڈنٹ خواتین ہوتی ہیں، ہندی کے چینلز دیکھیں ان میں کتنی تعداد عورتوں کی ہوتی ہے،یہ عورتیں کتنی فر فر بولتی ہیں مرد ویسا نہیں بول سکتا کیونکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے طاقت لسانی یعنی فراٹے سے بولنے کی صلاحیت دی ہے۔

اسی طریقہ سے ہم نے غیر مسلموں کو مخاطب کیا اور اب دیگر جماعتیں بھی غیر مسلموں میں کام کر رہی ہیں۔ قرآن کا سب سے پہلا ہندی ترجمہ رامپور سے 1955 یا 1956 میں شائع کیا اور اب قرآن، حدیث، سیرت کی چھوٹی بڑی کتابیں بچوں کے لیے دانشوروں کے لیے خواتین کے لیے بڑوں کے لیے اور مخصوص کتابیں جیسے محسن انسانیت وغیرہ، ہر طرح کی کتابیں اور ہر سطح کے لوگوں کے لیے کتابیں، حدیث کے مجموعے ان چیزوں کو ہم نے عام کیا اور پھر ہم نے وہ زبان اور محاورے استعمال کیے جو اس وقت کے چلتے پھرتے قابل فہم ہیں۔ آپ کسی پرانے ترجمے کو پڑھ کر دیکھئے وہ اس زمانے کے لحاظ سے اڈوانس رہا ہوگا لیکن اب زبان کے اعتبار سے وقت سے پیچھے ہے۔

 

سوال: آج کا ہندوستان ہر اعتبار سے اس ہندوستان سے مختلف ہے جس کا آپ گزشتہ چھ سات دہائیوں سے مشاہدہ کر تے آرہے ہیں۔ موجودہ ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کے مستقبل کے حوالے سے آپ کے تاثرات؟

جواب: زمانہ کبھی ٹہرا نہیں رہتا ہے، اقبال نے کہا تھا:
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نُمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
مِری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
مَیں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شُمار کرتا ہوں دانہ دانہ

اسی طرح:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، آئی ہیں، لیکن کتنی تبدیلیاں دو رس اور گہری ہیں کتنی خود جلدی تبدیل ہوجائیں گی یہ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن جو ظالمانہ، غیر جمہوری، غیر انسانی اور اسلام دشمن چیزیں ہیں ان کی زندگی بہت طویل نہیں ہوگی ان شاءاللہ۔ کانگریس کا زوال تیس پینتس سال میں ہوا دوسروں کا دس پندرہ سال میں ہوجائے گا،جماعت کے مستقبل کے تعلق سے ان شاء اللہ جماعت کام کرتی رہے گی ، مستقبل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

سوال: موجودہ ہندوستان میں یہاں کے مسلمان ہر محاذ پر لیڈر شپ کے فقدان سے دوچار ہیں۔ کیا جماعت اسلامی ہند اس خلا کو پُر نہیں کر سکتی۔ اگر کرسکتی ہے تو اس کے لیے اس کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟

جواب: یہ ایک مشکل امر ہے۔ انبیاء کرام اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبعوث ہوتے ہیں وہ بھی کیسے مبعوث ہوتے ہیں، اس کو دیکھیں کہ :
خدا کی دین کا موسیؑ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

تو تیاری کسی نے بھی نہیں کی تھی کہ میں نبی بنوں گا مگر اللہ چن لیتا ہے، یہ اللہ کا ایک خاص کرم ہے، یہ کسبی نہیں وہبی ہوتی ہے، اسی طریقے سے لیڈر شپ جو ہے وہ تھوپی نہیں جاسکتی وہ اندر سے ابھرتی ہے۔ کچھ حالات کا دباؤ اور کچھ ہماری پرانی سرد مہریاں بھی اس کی وجہ رہی ہیں۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

یہ باتیں تو ہیں، لیکن کچھ لوگ تو بالکل مایوسی کی بات بھی کر دیتے ہیں، جیسے غامدی صاحب جو بہت اچھی، گہری اور سنجیدہ باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قوم کا دور عروج پھر نہیں آئے گا۔ ایسا تاریخ میں ہوا ہے، بنی اسرائیل تھے، اللہ نے انہیں دنیا جہاں کے لوگوں میں فضیلت دے کر ایک کار شہادت دیا تھا، انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو اللہ نے انہیں اٹھا کر پھینک دیا۔ مسلمانوں نے بھی کچھ حق ادا کیا بہت زیادہ نہیں اد اکیا۔ کچھ بتایا کچھ چھپایا، کچھ عمل کیا زیادہ تر نے بے عملی کا طریقہ اختیار کیا، لیکن پھر بھی امید ہے کہ آگے کریں گے، نہیں تو اللہ تعالیٰ جیسے قران مجید میں کہتا ہے کہ:’’اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو وہ تمہاری جگہ تمہارے علاوہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔سورۃ محمد 38

 

سوال: برادران وطن میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کئی غلط فہمیاں رواج پائی ہوئی ہیں۔ جماعت اپنے قیام کے اول روز سے ہی انہیں دور کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے، اس کے باوجود ان غلط فہمیوں میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور خاص کر کچھ سالوں سے اس میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا جماعت کے پاس اس بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے؟اس سلسلے میں آپ کے تاثرات؟

جواب: اس بات کے لیے ہندوستان کا جائزہ لینا پڑے گا۔ یہاں کی روایات بہت قدیم چارپانچ ہزار سال پرانی ہیں، یہاں ہر طرح کی چیزیں ہیں ، توحید کا تصور بھی ہے لیکن کچھ بنیادی غلط تصورات ہیں۔وحدت الوجود بھی ہے اور خدا اور بندے کا الگ تصور بھی، جنت دوزخ بھی ہے اور انسان مختلف جنموں کے پھیرے لگاتا ہے یہ تصوربھی ہے، غرض تضادات بہت زیادہ ہیں۔ کچھ اونچی اخلاقی باتیں ہیں تو فحش باتیں بھی ہیں اور معبودان باطل کے دامنوں میں بہت گندے دھبے لگائے گئے ہیں۔ شرک بہت زیادہ عوام میں پھیلا ہوا ہے اور عوام قصے کہانیوں میں گھسے پڑے ہیں اوریہ بہت بڑی خرابی ہے۔ دوسری بات آر ایس ایس کی، آر ایس ایس سے پہلے بھی یہاں تحریکیں اٹھی ہیں، آریہ سماج کی تحریک تھی جو دیا نند سرسوتی نے شروع کی، بھکتی کی تحریک تین چار سو سال پہلے چلی تھی۔ 1925 میں آرایس ایس کا آغاز ہوا، آر ایس ایس والوں نے سوچا کہ ہماری بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم مختلف ذاتوں میں، باہم آویزش کرنے والی ذاتوں میں، اونچ نیچ میں بٹے ہوئے ہیں اور یہ بہت خراب چیز ہے۔اس کو دور کرنے کے لیے کوئی اچھا طریقہ سوچنے کے بجائے انہوں نے مسلمانوں سے دشمنی کو بنیاد بنایا کہ ہم اس بنیاد پر متحد ہوں گے۔ منفی چیز کی بنیاد پر جو لوگ متحد ہوتے ہیں وہ متحد نہیں رہ سکتے یہ طریقہ زیادہ دیر پانہیں ہوگا۔ اب یہ تنظیمیں آر ایس ایس، بی جے پی ،وی ایچ پی، بجرنگ دل وغیرہ کے نام سے، کچھ نظریاتی کام کرتی ہیں کچھ سیاسی کام کرتی ہیں کچھ سماجی کام کرتی ہیں کچھ مذہبی دشمنی اور تعصب پھیلاتی ہیں، کچھ مار پیٹ قتل و خون کرتی ہیں، یوں کام بانٹ کر رکھا ہے ان لوگوں نے، اور یہ چیز بڑھ رہی ہے اور سر دست اس کے رکنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ مسلم مکت بھارت، عیسائی مکت بھارت بنانے میں لگے ہیں اور اگر یہ لوگ رہیں تو ان کے ملازم بن کر ان کے تلوے چاٹتے ہوئے رہیں ایسا ان کا تصور ہے۔ یہ بات لبرل،وسیع الذہن لوگ، جمہوریت پسند،کمیونسٹ، عیسائی وغیرہ سبھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یا ہمیں بالکل اپنے پاؤں کی جوتی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ چیز مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے، اب تو حکومت پر ان کا قبضہ ہے اور وہ چالیس پچاس سال تک کرسی پر برقرار رہنے کی باتیں کر رہے ہیں، ہر طرح کی تگڑم اور ہر طرح کے طریقے اختیار کررہے ہیں۔ دولت کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں ہے اور کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے مٹھی بھر سرمایہ داروں کے سپرد پورا ہندوستان کر دیاہے،حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ’’سوگندھ اس مٹی کی کھاتا ہوں میں دیس نہیں بکنے دوںگا‘‘ لیکن اب دو آدمی بیچ رہے ہیں اور دو آدمی خرید رہے ہیں، کچھ اور بھی دس بیس لوگ خرید رہے ہیں۔ جتنا انہیں فنڈ چاہیے الیکشن کے لیے اور اپنے کام کے لیے وہ سب کا سب انڈر دی ٹیبل ان کو ملتا رہتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کوشش کی کہ سپریم کورٹ کو زنجیریں پہنائی جائیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے، پھر کوشش کریں گے، ہیرا پھیری سے نہیں چوکیں گے۔ اسی طریقے سے اڈانی کا معاملہ ہے، اڈانی کو جس کا دنیا کے دولت مند لوگوں میں چھ سو واں نمبر تھا ان لوگوں نے دوسرے نمبر تک پہنچا دیا، اب ایک مہینے کے اندر جیسے ہی اس پر رپورٹ آئی اس کی مالی حیثیت پچھتر فیصد ختم ہوچکی ہے۔اسی طرح بی بی سی نے ان کی بدمعاشیوں کو ننگا کرنے کے لیے گجرات 2002 میں جو کچھ ہوا تھا اس کو ڈاکیومنٹری کی شکل میں اُجاگر کیا تو انہوں نے اس کو روک دیا۔ غرض یہ کسی بھی حد کو پار کرنے اورہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ تو ہم بھی کوششیں کر رہے ہیں ،سب کو مل کر کوششیں کرنی چاہئیں ۔ تمام قوتوں کے ساتھ اتحاد ہونا چاہیے، دلتوں کے ساتھ، لبرلز کے ساتھ، کھلے دماغ والے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے ۔

سوال: ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تعلق سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا یہ یونہی باقی رہیں گے یا مسقبل قریب میں ان میں تبدیلی متوقع ہے؟

جواب: حالات پلٹتے دیر نہیں لگتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں لوگوں کے درمیاں الٹتے پلٹتے رہتے ہیں، یہ تو ہوتا رہتا ہے۔اندھیرا جتنا گہرا ہوتا ہے اس وقت ایک موم بتی کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے بلکہ جو اگر بتی ہوتی ہے اس کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اس سے آپ اندھیرے میں کچھ نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں کہ کون کہاں جارہا ہے۔ حالات بدلیں گے ان شاء اللہ، لیکن جدوجہد تو کرنی ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ اللہ تعالی کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ ظالموں کو بھی ان کی اپنی حسرتیں پوری کرنے کے مواقع دیتا ہے، ہمیں محبت کے ساتھ خدمت خلق کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ کوشش کرنی ہے، لوگوں کے دلوں کے دروازوں پر دستک دینی ہے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

 

سوال: مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی تعلیمی گراوٹ آج ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ آپ کے نزدیک اس مسئلہ کا حل کیسے ممکن ہے؟ کیا جماعت اسلامی ہند اس مسئلے کو حل کرنے میں ایک بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی؟

جواب: گراوٹ پہلے سے کم ہورہی ہے۔ 2011 کے سنسکس کے مطابق اگر گرایجویٹس کو معیار مانیں اور 22سال کی عمر کے بعد گریجویٹس کا تعین کریں گے تو اس میں سب سے آگے ہیں جین،اس برادری کے چھبیس فیصد لوگ گریجویٹس ہیں، اگلے نمبر پر آتے ہیں عیسائی، ان میں نو فیصد گریجویٹس ہیں، تیسرے نمبر پر آتے ہیں سکھ، ان میں آٹھ فیصد گریجویٹس ہیں،ہندوؤں میں چھ فیصد گریجویٹ ہیں اور مسلمانوں میں پونے تین فیصد گرایجویٹس ہیں۔ ہم تو ہر لحاظ سے پیچھے ہیں، سیاست میں، بی جے پی کے تقریبا 1900 ارکان اسمبلی ہیں ان میں بمشکل دو تین ہی مسلمان ہوں گے ، مرکز میں جودو ایک نام نہاد مسلمان تھے،انہوں نے ان کو بھی نکال دیا ہے۔تعلیمی گراوٹ ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی کام کر رہی ہے۔جماعت اسلامی شروع سے یہ بات سمجھتی ہے کہ سارے کام ہم نہیں کر سکتے، سب کے تعاون سے کام ہوگا اور یہ سب کا مسئلہ ہے ہم تو غیر مسلموں کا تعاون بھی لیتے ہیں یہ ایک جوائٹ ونچر ہے اور بہت بڑا کام ہے۔

 

سوال: اسی طرح معاشی طور پر بھی مسلمانوں کی اکثریت خط غربت سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ انہیں اوپر لانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

جواب: رفاہ نام کا ہم نے چیمبرس بنایا ہے، جو جگہ جگہ ہر ریاست میں سرگرم عمل ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ کوششیں بہت معمولی ہیں، مسئلے زیادہ ہیں، بہت کام کرنا ہے۔ سب لوگوں کو اس کا احساس ہونا چاہیے ۔ جرنلزم میں ہم بہت پیچھے ہیں، معاشی طور پر بھی ہم پیچھے ہیں، ہماری فی کس آمدنی دوسروں سے کم ہے، ہمیں بینکوں سے جو قرضے ملے ہیں وہ کم ہیں، ہمارے پاس شہری زمینیں دیہاتوں میں کھیتی کی زمینیں سب کم ہیں، ہر چیز میں ہم پیچھے ہیں۔جماعت بھی اس پر کام کرر ہی ہے لیکن یہ کام سب کو مل کر کرنا چاہیے اور سب کو سمجھنا چاہیے ۔

 

سوال: ہندوستانی مسلمانوں میں خواتین کی حیثیت آج کے سیاسی حالات میں سماجی مسئلہ سے زیادہ سیاسی مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ فسطائی طاقتیں اسے ایک ملک گیر مسئلہ بنا دیں کیا موجودہ مسلم لیڈر شپ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنے سماج کے اندر ہی اسے حل کر لیں؟ آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: بی جے پی کا جو ایجنڈا ہے جو کچھ وہ حاصل کرنا چاہتی ہے اس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ وہ مسلمان دشمن ہیں، مسلمان دیش دروہی ہیں، مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد پر مسلمانوں کا ہوا دکھا کر ان سے ڈرا کر ان کو ایک خطرہ عظیم کے طور پر پیش کر کے یہ ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتی ہے۔ اس پالیسی سے اس کو فائدہ حاصل ہورہا ہے تو وہ اس کو اور زیادہ مضبوط کرے گی۔ اس کے پاس ویسے بھی دو معیار ہیں، مارا جائے گا مسلمان کو، گرفتار کیا جائے گا مسلمان کو اسّی اسّی مقدمات قائم کئے جائیں گے اعظم خان پر اور چالیس مقدمات ان کے بیٹے پر۔ چورغنڈہ ڈاکو کوئی بھی ہوسکتا ہے، لیکن وہ ان کا معاون ہے تو کچھ نہیں اگر مسلمان ایسا کرے تو اس کو سزا ہوگی ان کے دو معیار ہیں، ان کی پوری پالیسی ہی اینٹی مسلم سوچ پر ہے۔اس کا فوری ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔

خواتین کے تعلق سے تین طلاق کا مسئلہ کون سا بڑا مسئلہ تھا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا اور حجاب کا مسئلہ ہے، حجاب سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوری ہے لیکن مسلمانوں کو ستانا مقصود ہے۔ مسمانوں سے نفرت پید اکی جائے مسلمانوں کو تکلیف دی جائے و ہ چلائے روئے تو پھر یہ کہیں کہ دیکھو ہم تمہاری مدد کریں گے اگر تم ہمیں ووٹ دو اور ہندوؤں میں اس حد تک مسلمانوں کی نفرت پیدا کر دی جائے کہ ہر تکلیف دہ اور منفی چیز جو مسلمان کے خلاف کی جاتی ہے وہ ان کے لیے باعث مسرت ہو جو بی جے پی کے نرغے میں ہیں اور وہ ایساکہتے بھی ہیں کہ ہم ایک لیٹر لیٹر پٹرول دو سو روپے میں خریدنےکے لیے بھی تیار ہیں لیکن ان کو ٹھیک کرو۔

مسلم پرسنل لا بورڈ نے اب مسجدوں میں عورتوں کو لانے کی بات کی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ تمام عرب ممالک میں اس کا انتظام ہے ترکی میں اس کا انتظام ہے۔آج سے دس بارہ سال پہلے ایک بات آئی تھی کہ طواف میں عورتوں اور مردوں کو الگ کر دیا جائے، لیکن لوگوں نے خود کہا کہ جب اللہ کے رسول نے اس کی اجازت دی ہے تو پھر اس کو کیسے بدلیں گے، کیسے الگ کریں گے، نہیں کرسکتے ۔ حضور ﷺآج کے دور میں ہوتے تو بہت زیادہ عورتوں کو آزادیاں دیتے۔

ایک اور بات، میں بی بی سی اردو کے بجائے ہندی دیکھتا ہوں کیونکہ اردو میں پڑوسی ممالک کی خبریں زیادہ رہتی ہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بی بی سی ہندی میں وویچنا ایک پروگرام ہوتا ہے، وویچنا کے معنی ہوتے ہیں تحقیقات اور اس میں خواتین پچاس فیصد سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ کئی موضوعات پر ایکسپرٹ ہوتی ہیں، جیسے سماجی، صحت، کلینیکل، بیماریوں، تیکنیکل مو ضوعات پر اور سیاسی موضوعات پر تھوڑا کم ان کا پارٹسیپیشن رہتا ہے۔ پچاس فیصد تو وہ لازم ہوتی ہیں اور کہیں کہیں اس سے زیادہ بھی ہوتی ہیں۔ یہ سب ان کی عورتیں کر رہی ہیں۔ ہماری عورتیں کیا کر رہی ہیں، چولھا چکی۔ ہم نے انہیں بس عضو معطل بنا کے رکھا ہے۔ خواتین کو ہر شعبہ حیات میں آگے لانا ہے البتہ ایک بات پیش نظر رکھیں کہ اللہ نے خواتین کو ایک ایسا کام دیا ہے جو دنیا کے سارے مرد مل کر بھی نہیں ادا کر سکتے،وہ مادریت، مدرہڈ ہے۔ ان پر سماجی سیاسی اورمعاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اتنا نہ ڈالا جائے کہ اس میں وہ کوتاہ ہوجائیں، اس کا خیال رکھنا ہے۔ اس بات پر امام ابو تیمیہ کا ایک قول یاد آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے جتنے مرد ہیں وہ سب کے سب بیٹے ہیں ہم سب بیٹے ہیں انبیاکرامؐ بھی بیٹے ہیں دنیا کی تمام عورتیں ماں ہیں، میں اس میں ایک بات اور جوڑوں گا کہ عورت کی شخصیت کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ماں نہ بنے۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے پاؤں تلے ہے۔ اس کا لحاظ رکھ کر عورت کو ہر ایک کام میں آگے لانا چاہیے۔

 

سوال: ایمرجنسی کے دور میں آپ نے قید وبند کی صعوبتیں جھیلی ہیں، اس وقت کی کوئی ایسی بات جو موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے زاد راہ ثابت ہو؟

جواب: اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے ثابت قدمی کا ثبوت دیا، ہمارے بزرگ تھے انعام الرحمن خان صاحب وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی کے چند ماہ یا ایام جو بھی جیل میں گزارے ہیں، اس کے بدلے میں ایک نئی زندگی دینے کا مجھے وعدہ کیا جائے تب بھی میں ان ایام کواس کے بدلے میں نہیں دے سکتا۔ خوشی کی بات تھی کہ ہم سب لوگوں نے اسے اچھے طریقے سے صبر اور استقلال کے ساتھ برداشت کیا، اگر اب بھی ایسا کچھ ہوجائے تو:
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

 

سوال: آپ کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب: مسئلہ ایک نہیں ، بہت سے مسائل ہیں۔ ہم سچے مسلمان بن جائیں، ہمیں اسلام کی حقانیت کے ساتھ اس کا جو انسانیت نواز پروگرام ہے اس کو اپنانے اور اس کو پیش کرنے کی توفیق نصیب ہو، ہم تعلیم میں آگے بڑھیں، ہم معاش میں آگے بڑھیں، ہم لینے والا نہیں بلکہ دینے ولا ہاتھ بنیں، ہم اپنی خواتین کو جو پچاس فیصد ہیں اور نیم خفتہ نیم بیدار ہیں، ان کو جگائیں ان سے کام لیں۔

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

 

سوال: کیا ہندوستان کے مسلمانوں میں مسلکی، نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحاد ممکن ہے؟ اگر ہے تو کس بنیاد پر اور اس کے لیے کس کو آگے بڑھنا ہوگا؟

جواب: بالکل ممکن ہے کیوں نہیں۔ مجھے مولانا سالم قاسمی صاحبؒ کی بات یاد آتی ہے، 1996 میں پٹنہ میں ایس آئی او کے اجتماع میں جس میں وزیر اعلیٰ لالو پرساد بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ دین پیش کرنے کی چیز ہے مسلک نہیں۔ مسلک پر گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہ بہتریا یہ بہتر ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلک کوئی پیش کرنے، پروموٹ کرنے اور پروپگیٹ (تبلیغ) کرنے کی چیز نہیں ہے اور اس کا قبول کیا جانا اس سے بھی چھوٹی چیز ہوتی ہے۔ ان حد بندیوں کو ان دیواروں کو اگرتوڑ نہیں سکتے تو نیچا کرنا چاہیے اور یہ کام ہمیں سب کو کرنا ہے :
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

یہ کام سب کو کرنا ہے سب کی ذمہ داری ہے۔خاص کر علماء کی، دانشوروں کی اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔

 

سوال: جماعت کے ساتھ اس طویل رفاقت میں پیش آنے والا کوئی ایسا واقعہ جو متاثر کرنے والا ہو؟

جواب: سوچنا پڑے گا اس پر اب، آدمی جب سفر کرتا رہتا ہے تو ساری باتیں اس وقت نہیں سوچتا بعد میں سوچتا ہے۔ ابھی یہ سوچنے کا وقت نہیں ملا، برزخ میں شاید سوچنے کا موقع ملے، ہاں کسی اچھے عمل پر اللہ تبارک و تعالیٰ کچھ ثواب عنایت فرما دے تو اللہ کا کرم بھی ہوگا اور کچھ خوشی ہوگی کہ:
کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو ہم سے بن آئے

 

سوال: آپ ماہنامہ ریڈینس کے ایڈیٹر ہیں، مسلم حلقوں میں اس کی پہنچ کو لے کر آپ کے تا ثرات؟

جواب: ابھی محدود ہے ، ہم ابھی اتنے اونچے اٹھ نہیں سکے، ہمارے وسائل بھی کم ہیں، ہمارے پاس لکھنے والے بھی کم ہیں۔ ہر سال اپریل میں ہم ریڈینس کے طور طریقے پیشکش وغیرہ میں بدلاؤ لاتے ہیں، ابھی حال ہی میں اس کے لیے کئی پرچے خرید کر لائے گئے، انڈیا ٹو ڈے دس سال پہلے اس کا دو پیج کا اشتہار تین ساڑھے تین لاکھ کا ہوتا تھا، آدھا ہوگیا ہے دبلا پتلا سا۔ دوسرا اس کو مقابلہ کرتا تھا آوٹ لک وہ پاؤ ہوگیا ہے، دی ویک جس کے پیچھے ایک بہت بڑا ادارہ ہے وہ بھی جسامت کے اعتبار سے پچھتر فیصدپرآگیا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے ترجمان القران کے ایڈیٹر سے بات کی انہوں نے کہا کہ وہاں کا مشہور روز نامہ جنگ جو پانچ سات جگہوں سے نکلتا ہے وہ پہلے چار لاکھ چھپتا تھا اب ستر ہزار پر آگیا ہے، یعنی تقریبا چھ گنا کم ہوگیا ہے۔یہ صورتحال ہے آجکل، موبائل کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کی بڑی بربادی ہورہی ہے۔

 

سوال: مسلماںان ہند کے لیے آپ کا پیغام؟

جواب: فَفِرُّوٓاْ إِلَی للَّہِ، دوڑو اللہ کی طرف ، اور وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُو۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور، افتراق اور انتشار کا شکار نہ ہوجاؤ اور ،ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَلْمَوْعِظَۃِ لْحَسَنَۃِ وَجَٰدِلْہُم باِلَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِلْمُہْتَدِینَ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔

You may also like

Leave a Comment