Home تجزیہ مجرموں سے بھری پڑی ہیں پارلیمنٹ اور اسمبلیاں؟-ایم ودود ساجد

مجرموں سے بھری پڑی ہیں پارلیمنٹ اور اسمبلیاں؟-ایم ودود ساجد

by قندیل

سپریم کورٹ میں جاری ایک معاملہ کی سماعت کے دوران علم ہوا کہ اس وقت ملک بھر میں 2556 (دو ہزار پانچ سو چھپن) ایم ایل اے اور ایم پی ایسے ہیں کہ جن پر جرائم کے مقدمات درج ہیں۔۔اس کے علاوہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں سابق ممبران پر بھی مقدمات ہیں۔ اس طرح کل تعداد 4446 ہے۔

ان میں سے زیادہ تر معاملات ایسے ہیں کہ جن میں غیر ضمانتی وارنٹ جاری ہونے چاہئیں تھے۔۔یعنی ملزمین کی گرفتاری ہوجانی چاہئے تھی۔لیکن بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ جن میں مختلف عدالتوں نے ایسے وارنٹ ابھی تک جاری ہی نہیں کئے۔۔جن معاملات میں غیر ضمانتی وارنٹ جاری ہوگئے ہیں ان پر ابھی تک نہ پولیس نے عمل کیا اور نہ ہی متعلقہ عدالتوں نے ان کا نوٹس لیا۔۔ ایسے معاملات مہینوں سے لے کر برسوں تک پر محیط ہیں۔

سپریم کورٹ نے آج اس پر سخت ناگواری ظاہر کی۔بنچ کے سربراہ جسٹس این وی رمنا نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ آخر اس سلسلہ میں آپ نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس معاملہ کی سنوائی اب ایک ہفتہ بعد ہوگی اور حکومت اس سے پہلے اپنا جواب داخل کردے گی۔ عدالت میں سماعت کے دوران یہ بھی علم ہوا کہ ملک بھر کی مختلف اسپیشل عدالتوں اور ہائی کورٹس نے ان معاملات کے نپٹارے اور سنوائی کے لئے حکومت سے جو انفرا اسٹرکچر مانگا تھا وہ ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

اس وقت لوک سبھا میں کل 543 اور راجیہ سبھا میں 245 سیٹیں ہیں۔ہندوستان کی تمام ریاستی اسمبلیوں میں کل 4123 ممبران اسمبلی ہیں۔۔اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد 4911 ہوتی ہے۔اب آپ دیکھئے کہ ان 4911 میں سے 2256 کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔۔2655 ہی ایسے ہیں جن پر کوئی کیس نہیں ہے۔اور یہی نہیں مذکورہ ملزمین میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن پر ایک سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری آدھی پارلیمنٹ اور ریاستوں کی آدھی اسمبلیاں مجرمانہ کردار کے حامل عوامی نمائندوں سے بھری پڑی ہیں-

ان مجرمانہ کردار کے حامل افراد کے خلاف عدالتیں ہی کوئی موثر اقدام نہیں کرتیں تو پولیس کیسے کرے گی۔۔سپریم کورٹ نے اس بات پر ناگواری ظاہر کی کہ پولیس پر غیر ضروری سیاسی دباؤ رہتا ہے۔جب خود پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے نمائندے ہی مجرمانہ ریکارڈ اور کردار والے ہوں گے تو معاشرہ تو ہاتھرس جیسا ہی بنے گا۔۔ایسے میں ہاتھرس کے مجرموں کو کون پکڑے گا؟

میں اس طرح کی خبریں اردو میں اس لئے پوسٹ کرتا ہوں کہ اردو والوں کو اس طرح کی عدالتی اور قانونی خبریں پہنچتی ہی نہیں۔۔ان کے اخبارات اتنی زحمت ہی نہیں کرتے یا ان کے پاس اضافی افراد اور وسائل نہیں ہیں۔دوسروں تک تو یہ خبریں پہنچ جاتی ہیں‘ وہ خود بھی باخبر رہتے ہیں۔۔لیکن ہماری بے خبری ایسی ہے کہ جس پر ہمیں کوئی افسوس بھی نہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ میری اس کوشش کو کتنے لوگ سراہتے ہیں۔لیکن ایک طرف جہاں اس طرح کی کوششوں کی سخت ضرورت ہے وہیں یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اس عمل میں وقت اور محنت دونوں درکار ہوتی ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ الحمد لله میرے مضامین احباب بڑی تعداد میں شیئر کرتے ہیں ۔ بہت سی نیوز سائٹس نشر اور شائع کرتی ہیں۔ بہت سے وہاٹس ایپ گروپوں پر بھی احباب چلاتے ہیں ۔۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عبث قسم کی پوسٹ پر پڑھے لکھے افراد خوب تبصروں اور بحث میں حصہ لیتے ہیں۔ خاص طور پر مسلکی اختلافات والی پوسٹ تو "ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں”۔

اگر وقت اور محنت لگانے کے بعد بھی یہ اندازہ ہی نہ ہوسکے کہ احباب اس کوشش کو پسند کرتے ہیں یا نہیں تو پھر کتنے دنوں تک کوئی اپنا وقت اور محنت صرف کرے گا؟ ایسی خبروں پر نہ صرف یہ کہ بحث ومباحثہ کو آگے بڑھانا چاہئے بلکہ اس طرح کی خبروں کو دوسرے ذرائع اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں سے مزید فروغ بھی دینا چاہئے۔۔اردو والوں کو اور خاص طورپر مسلمانوں کو قانون کی بنیادی معلومات کا ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے۔۔جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں تو ہر گھر میں نہ سہی ہر خاندان میں ایک وکیل کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس طرف مسلم گھرانے عام طور پر توجہ نہیں دیتے۔اب وقت فضول باتوں میں صرف کئے جانے کا متحمل نہیں ہے۔ یہ بڑا کٹھن اور عدیم المثال وقت ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment