Home تجزیہ مجوزہ این ،پی ، آر: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ – عبید الکبیر

مجوزہ این ،پی ، آر: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ – عبید الکبیر

by قندیل

 

پہلی جنگ عظیم میں نمایاں مقام پانے والےمیجر اور ریاست امریکہ کے ۳۳ ویں صدر ہیری ایس ٹرومین کا جملہ مشہور ہے کہ ‘ اگر تم لوگوں کو قائل نہ کر سکو تو انھیں تذبذب میں ڈال دو’۔(If you can’t convince them, confuse them.)

اس جملے کا انطباق ایسی صورت میں تو سمجھ میں بھی آتا ہے جہاں دو فریقوں کے مابین حریفانہ کشمکش جاری ہو ۔ ایسے موقعے پر عجب نہیں کہ کوئی اس تکنیک کو کسی شاطر دماغ کی اختراع قرار دے تاہم جہاں ایک فریق سامنے والے کے لیے جواب دہ کی حیثیت رکھتا ہو وہاں اس تِگڑم کا کوئی جواز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔سٹیزن شپ امینڈمینٹ ایکٹ اور این ، آر ، سی کو لے کر جس طرح کا ہنگامہ ملک کے طول وعرض میں برپا ہے اس میں عوامی رجحانات پر ہمارے وزراء کا جو رد عمل آئے دن سامنے آرہا ہے خاکم بہ بدہن وہ کچھ اسی قسم کے رطب ویابس کا مجموعہ ہے۔ جب سے این ، آر ، سی کا جن بوتل سے باہر آیا ہے تبھی سے ہمارے وزراء کے بیانات خود اپنے اوراپنی ہی پارٹی کے دیگر وزراء سے متصادم ہیں ۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ لیپا پوتی بھی کی جارہی ہے مگر تمام باتوں کے خلاصے کے بعد جو نتیجہ عوام کے سامنے آتا ہے وہ وہی ہے جس کے خلاف عوام اپنے جمہوری حقوق کی دہائی دے رہی ہے۔ وزیر داخلہ کا تازہ بیان جس میں انھوں نے این ، پی ، آر کو غیر متنازعہ اور شفاف اسکیم باور کرانے کی کوشش کی ہے وہ بجائے خود ان کی حکومت کے گزشتہ اعلامیوں کے خلاف ہے۔ اس سلسلہ میں جن اندیشوں کو قطعی حیثیت حاصل ہے ان میں وزارت داخلہ کی سال ۲۰۱۸-۱۹ کی رپورٹ بھی شامل ہے ۔مذکورہ رپورٹ کے باب نمبر 15 ، صفحہ 262 میں میں صاف طور پر این ،پی ،آر کو این ، آر، سی کا پہلا قدم بتایاگیا ہے۔وزیر داخلہ اگر چہ اسے ایک معمول کی کارروائی بتاتے ہیں ۔ ان کے بقول شہریوں کے اعداد وشمار کی غرض در اصل ملک کے باشندوں کے لیے مختلف فلاحی اسکیمیں ترتیب دینا ہے، ایسا کیا جاتا رہا ہے اور ہم اسی سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ان تمام چیزوں کو لے کر عوام میں بے چینی بلکہ کسی حد تک سراسیمگی بھی پائی جاتی ہے۔ سی ، اے ،اے کو لے کر ملک کے سواد اعظم کو جو بے اعتمادی اپنے نمائندوں کے تعلق سے لاحق ہو چکی ہے ہمارے وزرا ء کے بدلتے بیانات نے اس صورت حال کو مزید دھندلا بنا دیا ہے۔زمینی حقیقت یہی ہے کہ مجوزہ این ، پی ، آر محض آبادی کی تفصیلات جمع کرنے کا ذریعہ ہے نہ کہ شہریت کے تعین کا مگر یہ پروسیس بھی سابقہ روایت سے ذرا مختلف ہے۔ اب کے این ، پی ،آر کے لیے 21 نکات طے کیے گیے ہیں جن میں کسی باشندے کی سابقہ جائے قیام ، اس کے والدین کی تاریخ پیدائش ، جائے پیدائش ، پین، آدھار ، ڈرائیونگ لائیسنس ، ووٹر کارڈ اور موبائل نمبر کا اندراج کیا جانا بھی طے پایا ہے جو کہ پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ ‘دی ہندو’ اخبار کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ” این ، پی ، آر کے پروسیس میں معلومات جمع کرنے کا فارم یا طریقہ کار کو ہنوز کوئی حتمی شکل نہیں دی گئی ہے”۔اس پر پیچ مسئلے میں ابھی کتنے بَل باقی ہیں یہ تو نہیں کہا جاسکتا مگر یہ سارے خم وپیچ اپنے آپ میں بڑے عجیب وغریب ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری لائق وزارت نے اتنے سنجیدہ مسئلے پر خاطر خواہ سنجیدگی کا التزام نہیں کیا ہے۔قطع نظر ان کی نیت اور ارادے کے ان کے پروگرام کی کڑیاں بہت ناموزوں اور غیر مربوط معلوم ہوتی ہیں۔مرکزی حکومت کے اہم نمائندے بہ شمول وزیر اعظم اپنے انتخابی منشور، انتخابی جلسوں کی بیان بازیوں اور حالیہ صفائیوں میں کچھ اس طرح گھرے ہوئے ہیں کہ ان کی پالیسی سمجھ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔اس پہ طرہ یہ کہ اب بھی این ، آر ، سی کو مجوزہ این ، پی، آر سے بالکل الگ چیز ہونے کا دعوی بدستور کیا جارہا ہے۔

بادی النظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ این ، پی ،آر کے ذریعے حاصل کی جانے معلومات این ، آر، سی کے لیے کارآمد بھی ہیں اور اس پر اثرانداز بھی ہوسکتی ہیں۔مبیّنہ طور پر این ، پی ، آر میں ملک کے معمولی باشندے کا اندراج کیا جاتا ہے۔ "معمولی باشندے” سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی مقام پر گزشتہ چھ ماہ سے قیام پذیر ہو اور آئندہ چھ مہینے تک اسی مقام پر بودباش کا ارادہ رکھتا ہو۔یعنی اس میں وہ تمام لوگ بھی شامل ہوں گے جو بھارت کے واقعی باشندے نہ ہوں ۔اور ان کے والدین سے متعلق تفصیلات سے یہ طے ہوجائے گا کہ وہ شہریت کے قانون کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اس تکلف کی آخر کیا ضرورت ہے؟ اگر حکومت این ، پی ، آر کو این ، آر ، سی کی جانب ایک فیصلہ کن پیش قدمی نہیں مانتی تو اسے ان تمام سولات کا شافی جواب دینا چاہئے جو اس ضمن میں خلجان کا سبب بنے ہوئے ہیں۔اتنی بڑی آبادی کے لیے سادہ سے سادہ کارروائیوں میں بھی ملک کے بجٹ میں سے بھاری سرمایہ صرف ہوگا۔ایک ایسے وقت میں جب معاشی بدحالی کے چیلنجز سے ہمارا سامنا ہے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا کہ ہم اپنی ترجیحات میں تمیز نہ کر سکیں۔ناقص تیاری یا غیر دانشمندانہ ہنگامی اقدامات مجموعی طور پر بد سے بد تری ہی کی طرف لے جائیں گے۔ ہمارے سامنے آسام میں باضابطہ طور پر کی جانے والی این ، آر ، سی کی صورت حال اور اس کے نتائج موجود ہیں ۔ ہمارے یہاں دفتری معاملات میں جس قدر بد نظمیاں پائی جاتی ہیں اس حوالے سے بھی آسام کا معاملہ بڑا سبق آموز ہے۔کتنے ہی ایسے بے قصور لوگ ہیں جن کےوہ دستاویزات جو ہزاروں روپے کی رشوتوں کے بعد مہیا کیے گیے تھے صرف حکام کی غفلت یا شرارت کی بنا پر رد کردیے گیے ہیں۔اس سے قطعی انکار نہیں کہ سرکاری اسکیموں کے لیے متعلقہ وزارتوں کو ملک کے باشندوں کے صحیح اعداد وشمار فراہم کرنا ایک معقول ضرورت ہے ،مگر معلومات حاصل کرنے کے طور طریقوں کو شفاف اور منظم ہونا چاہئے ۔ ہم یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ کوئی شہری ایک حق سے فائدہ اٹھانے کی امکانی ضرورت کے لیے اپنے بہت سے حقوق کے تلف ہوجانے کا یا تلف کیے جانے کے امکان کا خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوجائے گا۔یہ ایک انتہائی نازک ، سنجیدہ اور غور طلب مسئلہ ہے جس میں ذار سی بے احتیاطی سے ریاست کے حدود اور رعایا کے حقوق کے درمیان تصادم کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

You may also like

Leave a Comment