(عربی سے ترجمہ:نایاب حسن)
یہ روسی رسام فیودور ریشتنکوف کی پینٹنگ ہے،جو برش اور رنگوں کی مدد سے سماجی حقائق کی عکاسی پر عدیم النظیر قدرت رکھتا تھا،اس کی پینٹنگ کے نمونے روس کا قیمتی آرٹسٹک سرمایہ سمجھے جاتے ہیں اور وہاں کی مختلف گیلریوں اور میوزیموں میں انھیں سجاکر رکھا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی اس کی پینٹنگ کے بہت سے نمونے موجود ہیں، انھیں دیکھیے تو ذہن ایک دم سے زندگی کی ان سچائیوں میں محو ہو جاتا ہے، جن سے کسی نہ کسی مرحلے میں ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے۔
زیر نظر پینٹگ اس نے 1952 میں بنائی تھی،اس پر کیپشن تھا: "پھر ناکام ہوکر لوٹ آیا! "۔
اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچے کی والدہ،بہن،بھائی اس لڑکے کو گھور رہے اور نا پسندیدگی و تمسخر کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ، مگر ایک کتا ہے، جو اس کا استقبال پرجوش اور ہمدردانہ انداز میں کرتا اور اس سے لپٹ جاتا ہے۔
آرٹسٹ اس سے یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ اس بچے کے ساتھ اس کی ماں،بہن اوربھائی کو ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے تھا، جیسا کہ اس کتے نے کیا ، اس کی محبت اس بچے سے غیر مشروط ہے،چاہے وہ کامیاب ہو یا ناکام، اسی کو مشہور امریکی فلسفی کارل راجرز نے ’نظریۂ ذات‘ کے ضمن میں کسی سے بلا شرط محبت کرنے او قبول کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
یہ دراصل بڑوں کو ایک پیغام دینے کے لیے بنائی گئی تھی کہ عملی زندگی میں اپنے لوگوں کے ساتھ انھیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بے مثال حقیقت پسندانہ فن کاری کی وجہ سے یہ پینٹنگ سوویت عوام میں بے پناہ مقبول ہوئی اور اسے وہاں کے اسکولی کے نصاب میں شامل کیا گیا۔
فیودور دوستویفسکی نے اپنے دو ناولوں: The Adolescent اور Crime and Punishment میں انسانی نفسیات کے ایک پیچیدہ پہلو کو واضح کیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہماری روحیں اس وقت بھی ایک قسم کی لذت سے ہم کنار ہوتی ہیں، جب ہمارا کوئی بہت قریب و عزیز شخص مصیبت کا شکار ہو اور ہم اس کے تئیں حقیقی معنوں میں مخلصانہ رشتہ رکھتے ہوں۔ اس پینٹنگ میں انسانی جذبات کے اسی پہلو کو درشایا گیا ہے۔
اس لیے جب کوئی شخص کسی بھی قسم کی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے، تو اسے ہماری سرزنش کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنی اس کی کہ اسے سمجھا جائے، اس پر توجہ دی جائے اور اسے گلے لگایا جائے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جب ہماری اس سے محبت غیر مشروط ہو، اچھے برے ہر حال میں وہ ہمارے دل کے قریب ہو۔
جارج آرویل نے کہا ہے:
"انسان کو زندگی میں شاید محبت کرنے والے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنی اسے سمجھنے والے کی ہوتی ہے۔”