امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ7320818304
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحیؒ کو قدرت نے متنوع فضل وکمال کی نعمت سے نوازا تھا،ان سے امار ت شرعیہ آنے سے قبل تک ناآشناتھا؛مگر جب آپ کی کتاب ’’امارت شرعیہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘اور’’امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب ‘‘پڑھنے کا موقع ملا تو وہاں سے میں حضرت مفتی صاحب ؒ سے متعارف ہوا،پھرمولانا ڈاکٹر محمداعجازاحمد صاحب کی طرف سے آپ کی شخصیت پر ہونے والے سمینار پرکچھ رقم کرنے کا حکم ہوا، تو مزید آپ کی شخصیت سے آشنا ہوا،آپؒ کی ولادت مورخہ 21؍شعبان المعظم 1344ھ مطابق 7 ؍مارچ 1926ء کو منشی شمس الدین صاحب کے آبائی وطن پورہ نوڈیہہ ضلع دربھنگہ میں ہوئی اوروفات ۳۱؍مارچ ۲۰۱۱ء کو وہیں ہوئی،انہوں نے اپنے گاؤں سے تعلیم کاآغاز کیا ،آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ مفتاح العلوم شاہی کٹرہ مئو کا رخ کیاجہاں جبال علم وعمل محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ سے علم حدیث میں رسوخ حاصل کیا ،جن کے علم حدیث کا شہرہ دوردراز علاقوں میں پھیلا ہوا تھا،آپ نے 1945ء میںدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کاسفرکیا جہاں عالم اسلام کی مشہور علمی شخصیت ،مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ،علامہ سید سلیمان ندویؒ جیسے کبارعلماء اورصاحب طرز ادیب ومفکرین سے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع فراہم ہوا ؛اسی طرح آپ کو وقت کے بڑے نامور عالم دین،پیرطریقت حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ امیر شریعت رابع امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ وغیرہم سے بھی علمی مذاکرہ کاموقع ملااورعلوم دینیہ میں رسوخ حاصل کیا،جیساکہ حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’مفتی صاحب نے ہندوستان کے عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث اوراسماء الرجال کے فاضل یگانہ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ متوفی 1412ھ مطابق 1992ء جیسے استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ،مولانا علامہ سید سلیمان ندویؒ متوفی 1373ھ مطابق 1953ء ، امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحما نیؒ متوفی 1411ھ مطابق 1991ء ،مولانا عبدالرحمٰن صاحبؒ،امیر شریعت بہار،اڈیشہ،متوفی 1418ھ مطابق 1998 ء ،مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ 1420ھ مطابق 1999ء ،شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنیؒ 1377ھ مطابق 1957ء ،حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ متوفی 1403ھ مطابق 1983ء،مولانا شاہ فضل اللہؒ متوفی 1399ھ 1979ء کی صحبت سے نہ صرف یہ کہ فیض پایا بلکہ ان سے خوب خوب روحانی ،علمی اورفکری پیاس بجھائی ،اسی لیے نہ صرف یہ کہ ان کا علم شریعت ٹھوس ہے ؛بلکہ ان کے یہاں فکری استقامت ،تجربے کی پختگی اور زبان وقلم کی راست روی کا جو امتیاز نظر آتا ہے،وہ انہیں اساطین علم وکمال وطریقت کا فیضان ہے،جو مفتی صاحب نے خداکی توفیق سے اچھی طرح جذب کیاتھا‘‘(پس مرگ زندہ ،مولانا نور عالم خلیل امینی ،ص:۹۲۲ )
آپ کی شخصیت گوناگوں صفات وکمالا ت کی حامل تھیں، فقہ وفتاویٰ پر عبور حاصل تھا،کتابو ں اورلائبریریوں سے بڑی الفت ووابستگی تھی،آپ نے فراغت کے بعد تقریبا ایک سال تک اپنی مادر علمی جامعہ مفتاح العلوم شاہی کٹرہ مئو میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ،پھر کچھ سالوں بعد دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت استاد تقرر ہوا؛جہاں تقریبا پچاس سال تک علم کے متلاشیوںکو زیور علم سے آراستہ کرنے ان کو علم وفکر سے منظم کرنے میں خود کو وقف کر دیا،آپ کو کتابوں کے مطالعہ سے بڑی رغبت اورلائبریری سے وابستگی اوردلی لگاؤ حاصل تھا،جس کام میں لگتے پوری محنت ،جدوجہد اورعرق ریزی کے ساتھ بحسن وخوبی ا نجام تک پہونچاتے ،اسی جہدمسلسل اورعمل پیہم کا نتیجہ ہے کہ آپ کے ذمہ جب دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کی لائبریری کی کتابوں کوترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ نے چند مہینوں میں اس کام کو مکمل کرکے تاریخ رقم کردی ۔
حضرت مفتی صاحب کو لکھنے پڑھنے کاخاص ملکہ تھا،آپ کے قلم میںجولانی اورطغیانی تھی،آپ بہت سلیس اورشستہ لکھا کرتے تھے،بھاری بھرکم اورغیر مانوس الفاظ سے اجتناب کیاکرتے،آپ کی تحریروں ، مقالات ومضامین اورکتابوں کے مطالعہ ،الفاظ وتعبیرات کے پیچ وخم ،جملوں کے اتارچڑھاؤ سے معلوم ہوتا کہ موتیوں کی ایک لڑی ہے جسے استعارات وکنایات ،الفاظ و عبارات کی حسیں لڑی میں پرودیاگیا ہو،اورقارئیں کے ذہن ودماغ پر اس کے اثرات مرتب ہوتے چلے جارہے ہوں۔آپ نے قاری کے ذہن ودماغ کو سامنے رکھ کر ان کی اصلاح کی غرض سے متعدد مضامین تحریرفرمائے ،کئی اہم اورنادر کتابیں آپ کی نوک قلم سے نکل کر زیوطبع سے مزین ہوچکے ہیں جن سے لوگوں کو بڑا فائدہ ہورہا ہے،بہت ساری کتابیں اورتصنیفات تووہ ہیں جو کئی جگہوں پر نصاب میں شامل بھی ہیں آپ کی انہیں مختلف الجہات تصنیفات اور تحریرات کے اعتراف میں فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم رقم طراز ہیں ’’اس حقیر کی گناہ گار آنکھوں نے ایسی جن برگزیدہ شخصیتوں کو دیکھا ،ان میں ہمارے مخدوم اوربزرگ حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی سابق مفتی دارالعلوم دیوبند وصدر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا بھی ہیں،انہوں نے بہت ہی خاموش اوریکسوئی کے ساتھ علم وتحقیق کی راہ میںجو آبلہ پائی کی ہے اورنئے عہد کے تقاضوں کے مطابق نیز نئی نسل کے اذہان کو سامنے رکھ کر اورکتاب وسنت کا عطر کشید کر کے وقت کے تقاضوں کے مطابق جس طرح قلم اٹھایا ہے اس کی مثال معاصرین میں کم ہی ملے گی ‘‘(اسلامی زندگی کے آثار ونقوش:ص۳)
آپ کی تحریروں اورقلمی کاوشوں کو جن لوگوں نے سراہا ہے؛بلکہ پسند فرمایا ان میں ایک نمایاں نام مشہورمؤرخ وسیرت نگار علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کا ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں :’’مضامین کا اسلوب ،معلومات کی فراہمی ،بیان کی شستگی اورطریقۂ تعبیر کی درستی ہرچیز پسندآئی ‘‘(اسلام کا نظام مساجد ،ص :۶)
اب آئیے! آپ کی چند مختلف ا لجہات تصنیفات کا ذکر کرکے اپنی تحریر کو سمیٹنے کی کوشش کرتاہوں:
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:اس کتاب میں حضرت مفتی صاحب نے ان مسائل اورفتاویٰ کا ذکر کیا ہے جو آپ سے ماقبل دارالعلوم کے مفیتوں نے فتاویٰ اورلوگوں کی طرف سے پیش آنے والے روز مرہ کے سوالات( عبادات،معاملات،معاشیات،تجارت وغیرہ) کے جوابات دیے تھے ،جیساکہ ڈاکٹر عبید اقبال عاصم شعبہ نظامت سنی دینیات ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے مضمون ’’مولانا مفتی ظفیرالدین صاحبؒ کا تصنیفی کارنامہ‘‘میں کیا ہے (مستفاد حیات ظفیر:ص ۱۹۲)
امارت شرعیہ کتاب وسنت کی روشنی میں :اس کتاب میں امارت شرعیہ کے نظام کو سراہا گیاہے ، امارت شرعیہ کا نظام یہاںپر کوئی نیانہیں ہے بلکہ عہداول اورقرون اولی کی غماز اوراس کی اقتداء کی عملی پیش رفت ہے؛ جس کانظام نظام مصطفوی ہے ،جسے ہرمسلمان پر نافذ کیا جانا چاہیے، اور انہیں ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنا چاہیے اور ان کو اس بات کا بھی پابند ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک امیر کی رہنمائی میں زندگی گزاریں،جس کی تعلیم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں۔جیسا کہ حضرت مفتی صاحب کتاب کے دوسرے صفحہ پر رقم طراز ہیں:’’امارت شرعیہ کا نظام اس نظام کی ایک اچھی تصویر ہے ؛جسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء اربعہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)نے مرتب کیا تھا،جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں پسند کیا گیا،اورجس کے بدولت مسلمانوں کو ہردور میں سربلندی نصیب ہوئی ‘‘
امارت شرعیہ دینی جدوجہدکا روشن باب :یہ کتاب مولانا کی ان گراں قدر تصنیفات میںسے ہے جس سے امارت شرعیہ کے قیام ،مقاصد ،طریقۂ کاراور یہاں کے مسلمانوں کے عائلی مسائل کے حل اورعبادات واحکامات کے تئیں مسلمانوں کی رہبری کرنے کی طرف سے اشارہ کیا گیا ہے اوراس کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کیا ہے،اوراس کے قیام کے پس منظر میں حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ کی کوششوں کا ذکر کیا گیاہے۔
اسلام کا نظام مساجد:اسلام میں مساجد کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ،مسجد اللہ کاگھر ہے،اوراس کی تعمیر وترقی کی سوچ وفکر رکھنے والے احباب اوراس میں حصہ لینے والے افراد کے لیے اللہ کے نبی ؐنے فرمایا کہ ’’من بنیٰ مسجد اً للہ بنی اللہ لہ فی الجنۃ مثلہ‘‘(المسلم:کتاب الزہد والرقاقباب فضل بناء المسجد:الحدیث7471)کہ جس شخص نے اللہ کے لیے مسجد کی تعمیر کرائی اللہ اس کے لیے جنت میں اسی کے مثل( ایک گھر ،محل) بنائے گا اورخود اللہ کے محبوب پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لاتے ہیں تو سب سے پہلے مسجد کی تعمیر پر توجہ دی اورپھر مسجد کا پورانظام اورسسٹم طے کیااورمساجد میں آکر عبادت کرنے والے ائمہ ،مؤذنین ،متولی اورخدمت گزارسب کی اہمیت وفضیلت کا ذکر کیا گیاہے،مساجد کے مقام ومرتبہ،آداب وقواعد ،اس کی دینی وسیاسی حیثیت کے ساتھ ساتھ مساجد کے اغراض ومقاصد اوراجتماعی امور سے متعلق بہت ساری چیزوںکو بھی اس کتاب کی زینت کا حصہ بنایا گیاہے ،آپ کی یہ کتاب مساجد کے نظام کو سمجھنے میں بڑی معین اورمددگا رہے،اس لیے ائمہ مساجد،مؤذنین کو خصوصااورہم تمام لوگوں کو عموماضرور مطالعہ کرنا چاہئے،اس کتاب پر جن اکابرعلماء کی قیمیتی آراء اور تحریرات آئی ہیں ان سب سے اس کتاب کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے ،چنانچہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلا نی ؒ لکھتے ہیں:مساجد کے متعلق اتنی جامعیت کے ساتھ تمام پہلوؤں پر اتنی حاوی کتاب نہ صرف اردو بلکہ عربی اورفارسی میں بھی میر ی نظر سے نہیں گزری‘‘(اسلام کا نظام مساجد نظر ثانی اضافہ شدہ ایڈیشن:ص ۵ )
اسلامی زندگی کے آثار ونقوش:یہ کتاب درحقیقت حضرت مولانا کے ان فکری ،اصلاحی اورتاریخی مضامین کا مجموعہ ہے جومتعدد علمی ،ادبی رسائل اورمیگزین کی زینت بن چکے تھے اورکئی اخبار کی سرخیاں بٹور چکے تھے جسے بعض محبین ومخلصین کی مسلسل توجہ دلانے پر مفتی صاحب نے اپنی پیرانہ سالی ہی میں سہی اس کو کتابی شکل دیا وگر نہ شاید یہ بڑا کام انجام نہ پا تاجس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاحب کتاب نے حرف چند میں لکھا ہے کہ ’’ یہ کا م اس عمر میں میرے لیے آسان نہ تھا ،مگر احباب کی دل جوئی بھی ضروری تھی ،پہلے میں نے ان مضامین ومقالات کو مختلف رسالوں سے یکجا کیا،پھر ان پر نظر ثانی کاکام شروع کیا،اللہ کا شکر ہے کہ یہ خدمت میں نے بڑی خوشی سے انجام دی جس سے آج ایک دنیا فیض حاصل کر رہی ہے‘‘(اسلامی زندگی کے آثار ونقوش:ص ۵)بقول شاعر
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
اس کے علاوہ حضرت مفتی صاحبؒ کی درجنوں کتابیں ہیں جن کے اسماء کے ذکرپر اکتفا کرتا ہوں :
کشف الاسرار اردو ترجمہ وتشریح الدرالمختار4 ؍جلدوں میں،اسلام کا نظام عصمت وعفت،تاریخ مساجد،اسوۂ حسنہ ،تعارف مخطوطات کتب خانہ دارالعلوم دیوبند،جماعت اسلامی کے دینی رجحانات ،مشاہیر علمائے دیوبند،دارالعلوم دیوبند :قیام وپس منظر،دارالعلوم :ایک عظیم مکتب فکر،،نظام تربیت ،اسلام کا نظام تعمیر سیرت،مسائل حج وعمرہ،درس قرآن (دس جلدوں میں)حکیم الاسلام اوران کی مجالس،جرم وسزا کتاب وسنت کی روشنی میں،اسلامی حکومت کے نقش ونگار،اسلام کانظام امن،حیات گیلانی،حضرت نانوتویؒ ایک مثالی شخصیت،تذکرہ مولانا عبداللطیف نعمانی،مشاہیر اکابرومعاصرین،مشاہیر علماء دیوبندکے علمی مراسلے،تاریخی حقائق،اسلامی نظام معیشت ،اسلام کا نظام تربیت،درس قرآن،تفسیر حل القرآن،ہندوستان میں نظام تعلیم وتربیت‘‘
آپ مفتی صاحب ؒ کی ایک ایک کتاب اورتصنیفات کو پڑھ جائیے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا،شریعت اسلامی کی باریکیوں اورا س کے نکتوں کا علم ہوگا،اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے اورا ن کی تمام علمی ،ادبی،تصنیفی خدمات کو قبول فرمائے آمین،اب اخیر میں پروین شاکر کے اس شعر کے ساتھ با ت مکمل کرتاہوں:
ایک سورج تھا تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا