Home نقدوتبصرہ مبارک علی کی ’در در ٹھوکر کھائے‘پر کچھ باتیں – محمد علم اللہ

مبارک علی کی ’در در ٹھوکر کھائے‘پر کچھ باتیں – محمد علم اللہ

by قندیل

کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لکھتے پڑھتے یا کوئی بہت اہم کام کرتے ہوئے یکایک بریک لگ جاتا ہے اور پھر لاکھ جتن کریں گاڑی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ لمحے بڑی بے چینی میں گذرتے ہیں، پھر اچانک کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دم سے سِرا جڑ جاتا ہے اور آپ پھر سے کام میں لگ جاتے ہیں، جیسے جلتی دو پہری میں کسی پیڑ کے نیچے سستانے کے لیے رکے، تھوڑی دیر دم لیا اور پھر تازہ دم ہوکر چل پڑے۔ پچھلے دنوں کچھ ایسی ہی کیفیت رہی مگر ابھی زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ سرا پکڑ میں آگیا اور وجہ بنی ڈاکٹر مبارک علی کی آپ بیتی ’’در در ٹھوکر کھائے‘‘۔

ہمارے سینٹر میں کچھ تقریبات جاری تھیں، اپنی استاد پروفیسر عذرا رزاق کے کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اس کتاب پر نظر پڑی۔ خیال آیا چپکے سے بیگ میں ڈال لوں، میم کو پتہ بھی نہ چلے، لیکن پھر فورا ہی ضمیر نے کچوکے لگایا کہ یہ تو چوری ہوگی۔ ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اچانک زبان سے نکلا: "میم یہ کتاب آپ کی ہے؟”۔جواب ملا :

’ہاں تمہیں چاہیے تو رکھ لو‘۔

اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں!

سو میں نے کتاب رکھ لی۔ شام کو کمرے پہنچا تو کتاب کا خیال آیا، کھول کر پڑھنا شروع کیا تو رات بیت چکی تھی،سامنے والی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی اور میں مبارک علی کی یہ سطریں پڑھ رہا تھا:

’’حالات و ماحول انسان کو تنہائی پر مجبور کرتے ہیں اور انسان دن بدن تنہا و اکیلا ہوتا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں کبھی وہ اداسی کا شکار ہوتا ہے اور کبھی زندہ رہنے کے لیے روشنی کی تلاش کرتا ہے۔۔۔ میں ان لوگوں کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جو محرومیوں کا شکار ہیں، جن کی پوری زندگی محنت و مشقت میں گذری مگر انھیں سکون و آرام کے لمحات میسر نہیں آتے۔ تو کیا ایسا ہی ہوتا ہے کہ عام لوگ اسی طرح اپنی خواہشات کو سینوں میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کے جذبات و تمناؤں کو سمجھنے والا کوئی ہے کہ نہیں اور کیا ان کی تقدیر کبھی بدلے گی بھی یا نہیں ؟۔۔۔ایسے لمحوں میں پوری فضا مجھے اداسی میں لپٹی نظر آتی ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں کہ جب میں اپنے غموں اور دکھوں کو بھی بھول جاتا ہوں۔ ایسے وقت میں مجھے اپنی تنہائی سے لگاؤ ہو جاتا ہے اور اس میں پناہ لیکر مجھے بڑا سکون ملتا ہے‘‘۔ (صفحہ 157-185)

کہتے ہیں رات کے آخری پہر لکھی گئی تحریر اداس ہوتی ہے، یقینا مصنف نے کسی اداس لمحے میں اسے لکھا ہوگا، تبھی تو ان کی اداسی میرے اندر بھی اتر آئی تھی، تھوڑی دیر کے لیے میں ان کے لفظوں میں گم ہو گیا تھا۔ کتاب ختم ہو چکی تھی اور میں سرا جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آزادی نے کتنے دلوں کو توڑا، کتنے گھروں کو بے گھر کیا اور کتنی بستیاں شہر خموشاں بن گئیں۔ ٹونک بھی انھیں بستیوں میں سے ایک بستی تھی۔ جس کی اپنی تہذیب اور تاریخ تھی، جس کی پر شکوہ علمی روایات اور شان و شوکت تھی، لیکن سب چھوڑ چھاڑ مبارک علی کے خاندان نے بھی آنکھوں میں ڈھیر سارے سپنے سجائے رات کی تاریکی میں پاکستان کی جانب کوچ کیا۔ بوڑھے مبارک کو بچپن کی ایک ایک چیزیں یاد ہیں، وہ کہتے ہیں:

’’جب میں نے اپنی یاد داشتیں لکھنی شروع کیں تو ایک عجیب تجربہ ہوا۔ ایک بار میں پھر اپنے بچپن اور جوانی کے دور سے گذرا اور ایک ایک کرکے تمام گذرے واقعات میرے سامنے آتے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سکرین پر فلم دیکھی جا رہی ہو۔ اس کے بعد ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ انسان ایک ہی زندگی میں کتنی بار مرتا ہے۔ میرا بچپن مر گیا، جوانی مر گئی، اب یہ واپس آنے والی چیز نہیں۔ انسان خود اپنی زندگی میں موت کا ذائقہ بار بار چکھتا ہے۔ غالب کا یہ شعر کس قدر بر محل ہے کہ ‘مجھے کیا برا تھا مرنا جو ایک بار ہوتا۔۔۔اور یہ بھی احساس ہو اکہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے یادوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور انسان بار بار ان یادوں کو کھوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو انھیں یادوں کے سہارے زندہ رہنا پڑتا ہے۔‘‘ (پیش لفظ، صفحہ 5)

پاکستان پہنچنے کے بعد ان پر اور ان کی فیملی پر کیا گذرتی ہے، اس پوری سر گزشت کو انھوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کے لیے لندن اور پھر جرمنی کا سفر، پی ایچ ڈی اور واپسی تک کا ذکر بڑا ہی دلگداز اور افسردہ کر دینے والا ہے۔برسوں بعد اپنے آبائی وطن کو دیکھنے کا خواب جب پورا ہوتا ہے اور اپنی مٹی کا دیدار نصیب ہوتا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ کہاں کنویں کا منڈیر تھا؟ کہاں وہ اپنے ساتھیو کے ساتھ کھیلا کرتے تھے؟ کہاں مسجد اور کہاں مندر تھا؟ کیسے آنگن میں دھوپ چھن کر آتی تھی ؟ کیسے ہندو مسلم سبھی مل کر رہتے تھے؟گلیاں، قلعہ اور پہاڑی کیسے تھے؟۔

مبارک علی بھولی بسری کہانیوں کو یاد کرتے ہوئے بے چین ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس پوری کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص کچھ پانے کے لیے کتنا کچھ کھو دیتا ہے اور اس کے لیے اسے کتنی قیمت چکانی پڑتی ہے، وہ خود کہتے ہیں :

’’جو لوگ معاشرے کی روایات، اقدار اور اداروں سے بغاوت کرتے ہیں ان میں سچائی کا ایک جذبہ ہوتاہے۔ اس جذبے کا نشہ اس قدر زور آور ہوتا ہے کہ انسان ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اس کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اس کا کیا بنے گا۔ وہ صرف اپنے جذبے کا اظہار چاہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک فنکار اپنے تخلیقی جذبے کے نشے میں غربت و افلاس، ذلت و خواری اور الزام تراشی ہر چیز سے بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ اسے نہ معاشرے کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے احساسات کی۔ یہ جذبہ اس کی شخصیت کو ابھارتا ہے، اس میں اعتماد پیدا کرتا ہے اس کے سہارے وہ تکلیف و اذیت برداشت کرتا ہے۔ ‘‘(صفحہ 150)

پوری کتاب یادوں کا مرقع ہے، جس میں راجستھان کے ٹونک سے لیکر پاکستان کے سندھ، کراچی، لاہور، حیدر آباد اور پھر لندن سے لیکر جرمنی کے بوخم تک کی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ اپنی یادوں کو قلم بند کرتے ہوئے مصنف کہیں افسردہ ہوجاتے ہیں۔ کہیں خوشی سے قہقہے مارتے ہیں تو کہیں بہت سنجیدہ اور دکھی دکھائی پڑتے ہیں۔ پاکستان میں جوڑ توڑ اور علمی گراوٹ کا ذکر ہوتا ہے تو لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر گفتگو شکوہ شکایت سے اوپر اٹھ کر ذاتی پر خاش معلوم ہونے لگتی ہے، تاہم ان کی اس کتا ب سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، مثال کے طور پر وہ جذباتیت کو شخصیت کے لیے سم قاتل قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جذباتیت کی وجہ سے انھوں نے کافی نقصان اٹھایا۔ اسی طرح ان کی تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خواہ راستہ میں کتنے بھی روڑے آئیں، منزل کی جانب چلتے رہنا چاہیے، کامیابی ایک دن مل کے رہتی ہے۔ فکشن ہاؤس، لاہور سے شائع ہونے والی کتاب بہت زیادہ ضخیم نہیں بلکہ محض 158 صفحات پر مشتمل ہے۔

You may also like

Leave a Comment