مولانا غیر منقسم ہندوستان کا پیدا کردہ مضطرب دماغ ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے شعور دی اور بٹوارے نے فکر و خیال کو بالیدگی عطا کی، اتنی کہ انڈیا کے تیسرے بڑے شہری اعزاز "پدم بھوشن” سے نوازے گئے۔ اسلامک اسکالر ہیں مگر سننے سے پہلے اسکالر کم تلون مزاج ہذیان گو زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ دعوت ان کا اوڑھنا تو تنقید بچھونا ہے۔ مولانا مودودی کے دست و بازو بنے۔ پندرہ سال تک ہم راہی اس کے بعد ابدی جدائی اختیار کی۔ اس تعلق سے "تعبیر کی غلطی” نے جنم لیا۔ مولانا معتوب بہ مولویت بھی ہیں راندۂ درگاہ بوجہ جدیدیت بھی ہیں ۔
یمین و یسار کے ہاں یکساں معتوب ہیں۔ ڈھلتی عمر نے چہرے پر گہری جھریاں چھوڑدی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز میں اب طنطنہ باقی رہا نہ چال ڈھال میں ہمہمہ۔ انھیں بالمشافہ دیکھنا تو اب تک نصیب نہ ہوا البتہ "کافرانہ ذرائع” سے براہ راست سننے اور دیکھنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ سر کے بال مسجع ہیں نہ ریش و بروت مقطع۔ چہرے مہرے اور وضع قطع سے عہد عتیق کے کوئی فلسفی لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی زندگی سوچنے ہی میں گزری ہے۔ ان کا قلم بے باک ہے، اس طور پر کہ برصغیر کا کوئی مکتب فکر ان کے نقد سے محفوظ نہ رہا۔ علی میاں اور مولانا مودودی سے تو گویا انھیں ذاتی رنجش ہے۔ 1976 میں الرسالہ کا اجرا کیا جو تاہنوز چھپتا اور پڑھا جاتا ہے۔ مگر مجال ہے کہ الرسالہ میں مولانا کے علاوہ کسی دوسرے لکھاری کی کوئی تحریر جگہ پائے۔ اس کے صفحات پر مولانا کی تحریروں کا اس قدر مضبوط قبضہ ہے جس قدر مقبوضہ کشمیر پر انڈیا کی گرفت ہے۔ معمولی واقعے سے غیر معمولی نتائج اخذ کرنے کی بہترین استدلالی قوت سے بہرہ ور ہیں۔ جسمانی حجم کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ اندازہ یہی ہے کہ ان کی ڈائری سے تنقیدی باتیں حذف کرکے اکہری رہ جانے والی صورت کو اگر انسانی شکل میں ڈھالاجائے تو مولانا وحید الدین خان بنتے ہیں۔
لہجے میں داعیانہ تفکر اور کلام میں فلسفیانہ تصلب ہے۔ لیکن تحریروں میں نقد کا عنصر غالب ہے۔ قد "الرسالہ” کی طرح پست نہ "اوراق حیات” کی طرح دراز بلکہ بیچوں بیچ ہے۔ ستواں ناک پر بھاری عینک، عین اسی طرح جیسے "راز حیات” پر دبیز "ڈسٹ کور”۔ جماعت اسلامی سے نکلے، تبلیغی جماعت میں در آئے۔ لیکن اس کے تفصیلی مطالعے اور تکمیلی مشاہدے کے بعد کنارہ کش ہوگئے۔ طبیعت میں اشتعال ہے نہ کلام میں غضب۔ زندہ مصنفوں میں سے ایک ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر ان کی تصنیفات سے نقدِ بے جا کو حذف کیا جائے تو لٹریچر کا حجم گھٹ کر ایک تہائی رہ جائے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)