امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مولانا سہیل احمد ندوی تریسٹھ سال کی عمر میں 6 محرم 1445 ھ مطابق 25 جولائی 2023ء بروز منگل اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں لوگوں کو بیدار کرنے اور ووٹنگ کرانے کے لئے امارت شرعیہ سے علماء کا وفد پورے بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں سفر پر تھا، مولانا بھی اڑیسہ میں وفد کے ہمراہ تھے۔ نماز ظہر میں سجدہ کے لیے جھکے، اور چل بسے۔ وہاں سے آپ کو امارت شرعیہ لایا گیا ، اور اگلے دن 26 جولائی بروز بدھ سوا بارہ بجےامارت شرعیہ کے احاطے میں قائم مقام ناظم مولانا شبلی القاسمی کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی، پھر انہیں ان کے آبائی وطن مغربی چمپارن لے جایا گیا، وہاں دوبارہ نماز جنازہ نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی کی امامت میں ادا کی گئی، اور وہیں تدفین عمل میں آئی ۔
آپ کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا پورے ہندوستان عموماً اور بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ کے لیے خصوصاً کسی بڑے صدمے اور اذیت سے کم نہیں کہ موت العالم موت العالم۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ جیتے جی لوگوں کی قدر دانی کرلو، ان سے ملو، ان سے علمی و روحانی استفادہ کرو، کیوں کہ علوم شرعیہ اور خدمت دین کی راہ میں سالہا سال گزارنے والوں کی محفل میں بیٹھنے سے دراصل شعور میں اضافہ ہوتا ہے، ان مشکل حالات میں حوصلہ مندی کے ساتھ جینے کا سلیقہ آجاتا ہے۔
ورنہ یوں موت کے بعد لفظوں میں آنسو بہانا زمانے کی ریت اور ٹرینڈ بن گیا ہے۔ حضرت سے ذاتی طور پر میری ملاقات نہیں ہے، البتہ انہیں امارت کی عمارت میں چہل پہل کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہے، سچ کہوں تو میں ابتداء میں انہیں عام ملازم سمجھتا تھا، البتہ نام خوب سنتا تھا، حضرت ندوی دراصل سادگی میں باکمال تھے، تکلف و تصنع سے کوسوں دور، اور بناوٹی زندگی سے کلی اجتناب تھا، بڑی بے نیازی سے زندگی بسر کی، اور اپنے اخلاق سے لوگوں کو گرویدہ کرگئے، ہر چھوٹا بڑا ان کے گن گارہا ہے، اور اس حادثۂ فاجعہ سے رنجیدہ اور ٹوٹا ہوا دکھ رہا ہے،
مولانا راشد العزیری بتانے لگے کہ” حضرت ندوی لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے، کوئی نہیں کہ سکتا کہ انہوں نے کسی کو ڈانٹا ہو، اپ انتہائی ملنسار تھے، آپ ریٹائر ہوچکے تھے، مگر ایکسٹینشن پر کئی سال سے بحال تھے، قرآن بڑا اچھا یاد تھا کہ امارت میں تراویح آپ ہی پڑھایا کرتے تھے، تلاوت قرآن کے انتہائی شوقین تھے، زندگی بھر بعد نمازِ فجر تلاوت کا عام معمول تھا "، بڑی بے نیازی سے زندگی گزارتے ہوئے جان کی نیاز حضور خداوندی میں پیش کردیا, عام طور پر جب کوئی مرض الوفات میں ہو تو ذرا سا صبر کا بہانہ مل جاتا ہے، لیکن حضرت کی وفات اتنی اچانک ہوئی کہ امارت شرعیہ کے کارکنان کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
آپ کی پیدائش مغربی چمپارن کے خطہ دیوراج کی بستی بگہی میں 1962 ء میں محمد شکیل کے یہاں ہوئی، آپ کے دادا جناب وکیل حسین صاحب عوامی خدمت کی وجہ سے سرسید ثانی کے نام سے جانے جاتے تھے، اسی طرح آپ کے پردادا عدالت حسین جالیا جنگ آزادی کے عظیم مجاہد تھے، گویا کہ شرافت وجاہت، اور قوم کی فلاح و بہبود کا جذبہ پرانا اور خاندانی تھا، دینی ملی سماجی اور سیاسی خدمات میں اس خاندان کا اہم کردار رہا ہے، راشد انور قاسمی بتا رہے تھے کہ چمپارن ستیہ گرہ کا جب آغاز ہوا، تو گاندھی جی وغیرہ آپ کے پردادا جناب عدالت حسین کے دروازے ( کوٹھی) پر تشریف لائے تھے ۔
بہر کیف آپ کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی، اور جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا سے 1976ء میں حفظ کی تکمیل کی، اور فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ بتیا میں حاصل کی، پھر 1979 ء میں اعلی تعلیم کی غرض سے بصد شوق مشہور دینی درس گاہ دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، اور دیوبند کے علمی فضا سے خود کو معطر کیا، لیکن اجلاس صد سالہ کے بعد جب اسٹرائیک ہوا، اور احاطۂ دار العلوم دیوبند کو پی اے سی کے ذریعے خالی کرایا گیا، تو آپ بھی وطن واپس لوٹ آئے، پھر امیر شریعت رابع کے مشورے سے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بیچ سال سے ثانویہ رابعہ میں سماعت کی، اور آئندہ سال باضابطہ عالیہ اولی میں داخلہ ہوا، اور 1987ء میں ندوہ سے امتیازی نمبرات کے ساتھ فراغت حاصل کی، فراغت کے بعد قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا نظام الدین قاسمی اور امیر شریعت رابع مولانا منت رحمانی رحمھم اللّٰہ نے آپ کو دفتر نظامت میں مبلغین کی کارروائی کو قابل اشاعت بناکر ہفت روزہ نقیب میں شائع کرنے کی ذمہ داری سونپیں، پھر امیر شریعت رابع کے حکم سے نقیب میں بعنوان ” اللہ اور رسول کی باتیں” مضامین لکھنے لگے، تین ماہ کی ہی مدت گزری تھی کہ آپ کو دفتر نظامت میں کارکن کے عہدے پر بحال کیا گیا، آپ نے چار امراۓ شریعت کا عہد پایا،اور اپنا کام بحسن و خوبی انجام دیا، اور بڑوں کی خدمت میں رہ کر قوم کا درد اپنے سینے میں منتقل کیا، حتی کہ جب محبوب کا بلاوا آیا تو قوم کی فکر میں گھر سے میلوں دور تھے، سجدے کی حالت میں تھے، لوگ اتنی بابرکت موت کی تمنا کرتے ہیں ۔ کہ :
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
موجودہ وقت میں حضرت کے کندھے پر کئی بڑی ذمہ داری اور عہدے تھے، آپ باصلاحیت عالم دین اور فقیہ المثال قائد و مصلح اور منتظم تھے۔ آپ بیک وقت امارت شرعیہ کے نائب ناظم، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری، مولانا سجاد میموریل ہسپتال، امارت ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، اور قاضی نور الحسن اسکول، کے انچارج تھے۔ اللہ حضرت کا نعم البدل نصیب فرمائے اور امارت شرعیہ کے کارکنان اور مولانا کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔