Home ستاروں کےدرمیاں مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ : کچھ یادیں، کچھ باتیں – مولانا ذکی الرحمن غازی مدنی

مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ : کچھ یادیں، کچھ باتیں – مولانا ذکی الرحمن غازی مدنی

by قندیل

ہمارے دین و ایمان کا اٹوٹ حصہ یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا دار العمل اور امتحان گاہ ہے اور انسان کا آخری اور ابدی ٹھکانہ آخرت ہے۔جو متنفس بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے دیر سویر یہاں سے جانا ہے۔مہلتِ زندگی پوری ہوجاتی ہے تو پھر ایک لمحے کے لیے بھی چھوٹ نہیں دی جاتی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُون}(منافقون،۱۱)’’جب کسی کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘

اللہ کے آخری نبی محمدﷺ نے حدیثِ قدسی میں ارشادِ خداوندی نقل فرمایا ہے کہ ’’میں کسی کام کا فیصلہ کر لوں تو کبھی متردد نہیں ہوتا، جتنا کہ مومن بندے کی جان لیتے ہوئے مجھے تردد ہوتا ہے جو موت کوناپسند کرتا ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اس کی دل شکنی کروں۔‘‘[وما ترددت عن شییٔ أنا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت وأنا أکرہ مسائتہ](صحیح بخاریؒ:۶۵۰۲۔مسند احمدؒ:۲۶۱۹۳)

دنیا سے جانے والوں کی ایک بڑی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی آمد ورفت کا کوئی اثر دنیا والے محسوس نہیں کرتے۔ قرآن کے الفاظ میں ان کی زندگی حیوانی ڈھب پر گزرتی جاتی ہے۔ یتمتعون ویأکلون کما تأکل الأنعام والنار مثوی لہم۔’’یہ بس چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘

مگر انہی جانے والوں میں قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی رخصتی اور جدائی کا صدمہ پورا زمانہ محسوس کرتا ہے اور جن کی چھوڑی ہوئی میراثِ غم سب کو غمزدہ ورنجور کردیتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ وقت کا مرہم بھی زخمِ دل کا مداویٰ اور علاج نہیں بن پائے گا۔زبانیں ان کا ذکرِ خیر کرتی ہیں۔ لوگ ان کی مثالیں دیتے ہیں۔ان کے محاسن وفضائل گناتے اور یاد کرتے ہیں۔ایسی ہی ایک دلآویزشخصیت حضرت مولانا سید جلال الدین عمریؒ کی تھی۔

موت اس کی ہے زمانہ کرے جس کا افسوس
ورنہ دنیا میں سبھی آئے ہیں، مرنے کے لیے

ہر انسان زندگی کے مختلف ادوار میں گردوپیش کے حالات وواقعات اور موجود وغیر موجود شخصیتوں کے افکار وخیالات اور سیرت وکردار سے متاثر ہوتا ہے اور اپنی زندگی کی شاہراہوں کو متعین کرنے اور انہیں سازگار اور آسودہ بنانے کے لیے،ان کے فکر ونظر اور تجربات اور مشوروں سے استفادہ کرتا ہے۔اس تناظر میں بعض شخصیتوں کے تاثرات وقتی ہوتے ہیں جو بہت جلد زائل ہوجاتے ہیں اور بعض کے دائمی ہوتے ہیں جنھیں زمانے کی گردشیں بھی نہیں مٹا پاتیں۔مگر اچھے برے،کم یا زیادہ؛ یہ تاثرات ہوتے ضرور ہیں۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو مردم گر اور مردم ساز کہلاتے ہیں۔یہ گردوپیش کے ذی شعور افراد کو بے پناہ متاثر ومنفعل کرتے ہیں۔فیاضِ ازل نے مولانا جلال الدین عمری صاحب کے پیکرِ خاکی میں یہ تاثیر اور فعالیت رکھی تھی اور راقم السطور نے اپنے ظرف کے مطابق ان سے بہت کچھ سیکھا،سمجھا اور برتاہے۔

ولیس علی اللّٰہ بمستنکر
أن یجمع العالم فی واحدٍ

مولانا محترم کی پوری زندگی ’’طاب حیا وطاب میتا‘‘کی منھ بولتی تصویر ہے۔اس زندگی کی محنتیں، کاوشیں،سرگرمیاں،علمی کارنامے، دعوتی اسفار اور ملاقاتیں اور تحریکی توسیع واستحکام کے لیے کی گئی جانفشانیاں،غرض اس کا ایک ایک حصہ زبانِ حال سے ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے جیسے معمولی کام تو جانور بھی کرتے ہیں، اگر انسان بھی انہی کاموں اور خواہشوں کے لیے جیا تو کیا جیا؟پھر اس میں اور حیوان میں فرق کیا ہوا؟

انقلابی شخصیات مر کر بھی زندہ رہتی ہیں۔ موت ان کے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، مگر وہ اپنے افکار سے، اپنی روحانیت سے، اپنے اثرات سے،اپنے کارناموں سے، اپنی دکھائی اور کھولی ہوئی راہوں سے اور نوعِ انسانی پر اپنے احسانات سے زندۂ جاوید ہوتے ہیں۔ دلوں میں ان کی محبت اور عظمت پسِ مرگ بھی باقی رہتی ہے۔ صدیوں تک اہلِ وفا انھیں یاد کرتے ہیں۔ ان کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ نسل در نسل انھیں ایک نمونے اور آئیڈیل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ تو دنیا میں ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو اجرِ عظیم تیار کیا ہوا ہے، وہ اس فانی اور ذلیل دنیا سے ناقابلِ قیاس وگمان حد تک بہتر ہوگا۔ دنیا میں ان کی نیک نامی تو محض بارانِ رحمت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل سے بتادیتا ہے کہ میں اسے چاہتا ہوں، تم بھی اسے چاہو۔ تو جبریل اس بندے کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں۔ پھر وہ آسمان والوں کو پکار کر بتاتے ہیں کہ فلاں بندے کو اللہ چاہتا ہے، تم بھی اس سے محبت رکھو۔ لہٰذا اہلِ فلک اسے چاہنے لگتے ہیں۔ پھر کرۂ ارض پر دلوں میں اس کی مقبولیت ومحبوبیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘[إذا أحب اللّٰہ العبد نادی جبریل إن اللّٰہ یحب فلانا فأحبہ فیحبہ جبریل فینادی جبریل فی أہل السماء إن اللّٰہ یحب فلانا فأحبوہ فیحبہ أہل السماء ثم یوضع لہ القبول فی الأرض](صحیح بخاریؒ:۳۲۰۹۔صحیح مسلمؒ:۲۶۳۷۔ سنن ترمذیؒ:۳۱۶۱)

مولانا محترم کی وفات حسرت آیات پر تمام حلقوں کی طرف سے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیااور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔یہ آں محترم کی ہردلعزیزی کا اعلامیہ بھی ہے اور عند اللہ ان کی مقبولیت ومحبوبیت کے نیک گمان کا استعارہ بھی۔

یقینا ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی کے اخروی انجام کا فیصلہ سنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، سوائے ان چند نفوسِ قدسیہ کے جنھیں اللہ کے رسولﷺ نے نام بہ نام جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔ ورنہ حضرت عثمانؓ بن مظعون کو دیکھو کہ ’’السابقون الأولون‘‘ یعنی اولین ایمان لانے والوں میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ستائے گئے اور گھر بار چھوڑا۔جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت ام العلائؓ انصاریہ نے کہا کہ اے ابو السائبؓ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا اکرام فرمایا۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ کے اوپر قسم کھانے والی کون ہے؟ تمھیں کس نے بتایا کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا ہے؟ اللہ کی قسم، حالانکہ میں اللہ کا رسولﷺ ہوں،مگر نہیں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ میرا رب کیا کرے گا۔‘‘[أشہد علیک أبا السائب لقد أکرمک اللّٰہ فقال من ہذہ المتألیۃ علی اللّٰہ وما یدریک أن اللّٰہ أکرمہ واللّٰہ ما أدری وأنا رسول اللّٰہ مایفعل اللّٰہ بی](صحیح بخاریؒ: ۷۰۰۳۔مسند احمدؒ:۲۷۴۵۷)

تاہم عام اہلِ ایمان جب کسی بہ ظاہر نیک اطوار یا مستور الحال مسلمان کو ’’شہید‘‘ یا ’’مرحوم‘‘ یا ’’مغفور لہ‘‘ کہتے ہیں تو ایساوہ یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہتے، بلکہ ’’من باب التفاؤل‘‘ اور حسن ظن رکھتے ہوئے کہتے ہیں اور اس کی گنجائش فقہائے کرام نے دی ہے۔

حیران ہوں کہ کن الفاظ میں قارئین سے مولانا محترم کا تعارف کرائوں۔وہ ایک نادرۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔باکمال اوربے مثال! ان کی شان بہت بلند تھی۔ذہانت وفطانت میں فائق،ادب ولغت کے ماہر،قرآن کے بہترین مفسر،احادیث کے بہترین شارح،علومِ دینیہ میں نکتہ رس اوردقیقہ سنج۔ہمیشہ غور وفکر میں ڈوبے ہوئے۔

ان کا سراپا کیسا تھا؟دراز قد،بھرا ہوا کھڑا چہرا،متناسب ناک نقشہ،داڑھی سفید اور گھنی،رنگ سرخی ملا ہوا سفید،آنکھیں نیم باز،ہونٹ بھرے ہوئے،دانت موجود تھے، نہیں معلوم اصلی تھے یا شیخوخت کی وجہ سے مصنوعی،بدن پر کرتا جس پر گرمیوں میں واسکیٹ اور سردیوں میں شیروانی بالعموم ہوتی تھی،سخت سردی میں گرم موٹا اوور کوٹ زیب تن فرماتے،پائوں میں سفید براق پاجامہ جس کی مہری معمول سے زیادہ چوڑی ہوتی تھی، خوبصورت جوتا یا نفیس سینڈل، چلنے میں قدم بالکل برابر رکھتے، رفتار ہلکی ہوتی،اخیر سالوں میں کمرکچھ خمیدہ ہوگئی تھی،کسی دور میں لمبی مسافتیں پیدل ناپ لیتے تھے،مگر اخیر عمر میں چلت پھرت کم ہوگئی۔ طبیعت بہت نفیس ونستعلیق تھی،گھر ہو کہ دفتر ہر چیز مرتب ومہذب رکھتے۔ کم گو تھے، الا یہ علمی گفتگو ہونے لگے، تب جلوۂ گفتار دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔

میں "اسلامی اکیڈمی” دہلی میں تدریسی ملازمت کے سلسلے میں مرکز جماعت میں فروکش ہوا تو پہلی بار قریب سے مولانا مرحوم کو دیکھنے، سمجھنے، جانچنے اور پہچاننے کا موقع ملا۔یہ مولانا محترم کی امارت کا پہلا دورانیہ تھا۔چند ماہ بعد ہی محسوس کیا کہ مولانا محترم کی زندگی ایک ایسی کھلی ہوئی کتاب ہے اور اس کے متعدد ابواب باہم دگر ایسے مربوط اور مشابہ ہیں کہ ان میں سے کسی ایک باب کا، بلکہ ایک ورق کا بھی مطالعہ بغور کر لیا جائے تو بقیہ ابواب واوراق کے مطالعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور پوری کتاب کے بارے میں ایک صحیح اور جامع رائے قائم کر لینا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

شخصی حالات کے علاوہ جہاں تک مولانا محترم کی عمومی سیرت وکردار کا تعلق ہے، خوش قسمتی سے اس سے متعارف ہونے کے مجھے بہت سے مواقع میسر آئے۔متعدد مسائل پر مولانا محترم سے سنا اور سیکھا اور متعدد حالات میں ان کے طرزِ عمل اور رویوں کا مشاہدہ کیا۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی صحبت ورفاقت کے دوران گوناگوں تجربات،مشاہدات اور تاثرات کے جو نقوش دل ودماغ پر مرتسم ہوجاتے ہیں،انہیں الفاظ کا جامہ پہنانا آسان کام نہیں ہوتا۔ایسی حالت میں انسان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کہاں سے شروع کرے اور کہاں جاکر بات ختم کردے۔کس چیز کو بیان کرے اور کس چیز کو چھوڑ دے۔

قریب تھے تو قیامت کا لطف آتا تھا
ہوئے جو دور تو یادوں کا حشر برپا ہے

عرب ممالک سے خط وکتابت کے سلسلے میں مولانا محترم مجھے طلب فرماتے تھے۔ایک بارمکالمہ بین الادیان یا "انٹرفیتھ ڈائیلاگ” کے سلسلے میں میرے الفاظ دیکھے تو ٹوکا اور فرمایا: ’’مغربی اصطلاح کی رو سے مکالمہ بین الأدیان کا مطلب ہے کہ ہر دین ومذہب کے لوگ کسی ایک جگہ بیٹھ کر گفتگو کریں اور جس مذہب کی جو بات غلط ہو اسے اس کے ماننے والے چھوڑ دیں اور متفق علیہ باتوں پر تعاون اور بقائے باہم کی بنیاد رکھی جائے۔ مگر ایک مسلمان کے لیے مکالمہ بین الأدیان کا یہ اصطلاحی مفہوم کفر ہے۔ اسلام دینِ حق ہے اور کوئی بندۂ مومن اپنے دین کے کسی ایک حصے سے بھی کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا ہے۔مسلمان جب اس نوع کے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں شریک ہوتا ہے تو اس کا مطمحِ نظر بس یہ ہوتا ہے کہ اپنے دین کی حقانیت پر کامل یقین رکھتے ہوئے غیر مسلموں کو حق کی طرف بلانے اور قریب کرنے کے لیے ان تعلیمات پر زیادہ زور دے جو دینِ فطرت اسلام اور دیگر ادیان ومذاہب میں مشترک ہیں۔ یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء ببیننا وبینکم۔ ہمیں بین الملی مکالمہ اور تقریب بین المذاہب کے نعروں سے متاثر ہوکر اس حد تک نیچے نہیں گرنا چاہیے کہ محسوس ہو کہ ہم اپنے دین کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں اور اب مل بیٹھ کر اس کے بعض حصوں کی تراش خراش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘گفتگو کا مدعا اور لبِ لباب یہی تھا جسے میں نے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

ایک بار میں نے ان کا نام ’’جلال الدین انصر عمری‘‘ لکھا تو اس پرمجھے ٹوکا اور فرمایا کہ نانیہالی رشتے داروں کی طرف سے میرا یہ گھریلو نام ’’انصر‘‘ رکھا گیا ہے،ورنہ میرے والد اور دادا نے میرا نام ’’جلال الدین‘‘ ہی رکھا ہے، اور مجھے دونوں ناموں کی یکجائی پسند نہیں۔بعض لوگ غلطی سے مولانا کے نام کے ساتھ ’’انصر‘‘ کا لاحقہ لگادیتے ہیں۔ میں ایک عرصے تک اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ مولانا شاعر ہیں اور ’’انصر‘‘ تخلص ہے۔ مگر مولانا کی وضاحت سے یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔

صنفِ نازک کے حقوق کے حوالے سے جو اعتراضات دینِ حق پر وارد کیے جاتے ہیں ان کے ردّ وابطال کے سلسلے میں مولانا محترم کی ذات مرجعِ خلائق تھی۔اسلام کے عائلی نظام اور اس کی خصوصیات پر مولانا محترم نے ایک پورا مکتبہ تیار کر دیا ہے اوریہ اتنا ٹھوس اور وسیع الاطراف کام ہے جوپوری پوری انجمنیں اور مستقل اکیڈمیاں ہی کر پاتی ہیں۔

مولانا کا خاص فن فقہ وفتاویٰ تھا۔اس میں انھیں غیر معمولی استحضار تھا جس کا منھ بولتا ثبوت مولانا کی کتابیں ہیں۔ بالخصوص ’’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘‘، ’’تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث‘‘ اور ’’صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات‘‘ وغیرہ کتابیں ان کی فقہی ژرف نگاہی اور مجتہدانہ شان کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔بہ ایں ہمہ علم وتفقہ وہ تواضع وانکساری کے پیکر تھے۔دینی مسائل میں شذوذ اور تفرد سے کوسوں دور تھے۔البتہ مسالکِ اربعہ اور دیگر فقہی آرا میں سے جسے دلائل کی روشنی میں مضبوط پاتے اسے اختیار فرمالیتے تھے۔ کثرت وتکرارِ مطالعہ نے تمام کتابیں ان کے ذہن ودماغ میں محفوظ کر دی تھیں۔کسی مسئلے کے بارے میں بارہا فرمایا کہ فلاں فقہی کتاب کے فلاں باب میں ذکر ہوا ہے، اور کتاب جاکر دیکھی گئی تو واقعتا وہ مسئلہ وہاں مل گیا۔

اپنے وقت کی بڑی قدر کرتے تھے۔وقت ضائع کرنے کا ان کے یہاں کوئی خانہ ہی نہیں تھا۔دوسروں کو وقت برباد کرتا ہوا دیکھ کر پیچ وتاب کھاتے اور ممکن ہوتا تو ضرور ٹوک دیتے۔ بولتے تھے تو گفتگو مختصر ہوتی،مگر عام فہم اور دلنشیں۔صرف مغز بولتے تھے۔مشکل مسائل کو نہایت آسان مثالوں سے سمجھا دینے کا ملکہ حاصل تھا اور مثالیں اتنی دلچسپ دیتے کہ آدمی انھیں بھولنا چاہے تو نہ بھول سکے،مگر اتنی نازک ہوتیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا بیان بھی نہ کر سکے۔ان کی کتاب ’’اسلام کی دعوت‘‘ اس حوالے سے بڑی شاندار کتاب ہے۔وفات کے بعد مولانا کے عقیدت مندوں نے ان کی کتابوں کے اقتباسات سے سوشل میڈیا بھر دیا ہے جن میں ایسی بہت سی مثالیں بھی آگئی ہیں۔

ان کا اسلوبِ نگارش علمیت سے معمور تھا، مگر ادبیت کا ذائقہ لیے ہوئے۔سادہ اور دلچسپ انداز میں لکھتے تھے۔

معاشرتی آداب اور رکھ رکھائو کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر مولانا محترم کی نگاہ خوب رہتی اور خوردوں کو بھی ان کا خوگر بنانے کی کوشش کرتے۔جن لوگوں نے مولانا کے دسترخوان پر بیٹھ کر کھاناکھایا ہے وہ جانتے ہیں کہ چھوٹوں کی تربیت کے سلسلے میں ان کا حال کیا تھا۔چھوٹی چھوٹی گُر کی باتیں خوب بتایا کرتے تھے۔میں نے کبھی ان کو فکر ونظر،سلوک وبرتائو اور اسلوب وگفتگو میں اپنے معروف بلند معیار سے سے فروتر نہیں پایا۔ہمیشہ ان کی سوچ اعلیٰ ہوتی۔وہ مثالی طرزِ فکر کے حامل تھے۔ہمیشہ اعلیٰ اقدار پر نظر رہتی۔حکماء وفلاسفہ کی طرح سوچتے تھے اور گفتگو بہت ٹھیر ٹھیر کرآہستہ آہستہ کرتے تھے۔

ان کی عالی ظرفی اور خوش اخلاقی اور خورد نوازی کا یہ حال تھا کہ ہم ایسے کم علم اور نوعمر بھی اپنی کم علمی وبے بضاعتی کے باوجود ان کے یہاں بار پالیتے اور ان کی توجہ حاصل کر لیتے اور وہ ازراہِ لطف وکرم یوں عنایت فرما ہوتے کہ تکلف کے تمام حجابات اٹھ جاتے تھے۔متانت کے باوجود مجلسی زندگی میں ہلکے پھلکے اوربذلہ سنج تھے۔گاہے ہنستے ہنساتے بھی تھے۔میں مدینے سے فراغت کے بعد جامعۃ الفلاح میں پڑھانے لگا اور وہ شوریٰ کے اجلاس میں تشریف لائے۔ میں نے جاکر ملاقات کی تو بہت خوش ہوئے۔ حال پوچھ کر دعائیں دیں۔اصرار کرکے میرے بچوں کو بلوایا اورمل کر ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا، ڈھیروں دعائیں دیں اور خود کو ان سے ’’دادا جان‘‘ کہلا کر مسرت کا اظہار کیا۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر، اے ہم نفسو، وہ خواب ہیں ہم

دہلی میں ایک دفعہ بے تکلفانہ مجھ سے کہا کہ تم داڑھی پوری رکھو۔ میں طرح دے گیا کہ وقت آنے پر انشاء اللہ یہ بھی کروں گا۔ہمارے خسر مولاناشمس الحق شمیم صاحب، مولانا مرحوم کے قدیم شناسائوں اور دوستوں میں سے تھے۔ میرے جواب پر مولانا نے ہنس کرفرمایا کہ "شاید اہلِ خانہ داڑھی رکھنے سے منع کرتے ہیں، میں شمیم صاحب سے بات کروں گا اور کہوں گا کہ آپ کی بیٹی ہمارے ایک رکنِ جماعت کو داڑھی رکھنے سے روکتی ہے۔” میں نے گھر آکر یہ بات اہلِ خانہ کو بتائی تو وہ بڑے محظوظ ہوئے۔ مولانا نے کہا تھاکہ "آج ہندوستان میں مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی باتیں بہت ہوتی ہیں۔میرے پاس ایک فارمولہ ہے جس پر اگر اسلامیانِ ہند عمل پیرا ہوجائیں تو ان کی صفوں کی شیرازہ بندی میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔انھیں دو کام کرنے ہوں گے۔ ایک تو ہر مسلمان شرعی داڑھی رکھے اور دوسرے جہاں اور جس وقت فرض نماز کا وقت آجائے توتنہا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔ سکھ برادری کی آبادی کا تناسب مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس کے باوجود انھوں نے اپنے ظاہری شعار کی حفاظت کی ہے اور ہر جگہ نمایاں اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے اندر اجتماعیت کا احساس پوری طرح پختہ اور توانا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں یہ وصف مفقود ہے۔ حالانکہ دینِ اسلام نے محمدﷺ کو ہر امتی کے لیے اسوہ اور آئیڈیل کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ظاہر وباطن میں محمدی رنگ اور نہج کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے اپنے ملی شعار اور ظاہری تشخص کو ازخود پامال کیا ہوا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شرپسند عناصر کسی بھی پبلک مقام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یاوہ گوئی اور دشنام طرازی کرتے ہیں اور ہر مسلمان دبکا بیٹھا رہتا ہے کیونکہ اسے خیال ہوتا ہے کہ وہ یکہ وتنہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔اگر مسلمان اپنی ظاہری وضع قطع میں یکسانیت پیدا کر لیں تو اس کا بڑا اثر ان کی شیرازہ بندی کی شکل میں ظاہر ہوگا اور وہ ڈر اور خوف کی نفسیات سے باہر آسکیں گے۔”

ادھر کچھ عرصے سے ملکِ عزیز میں جس طریقے سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے کو ایک جرم کی حیثیت سے دیکھا اور سمجھا جارہا ہے اور اس پر باقاعدہ گرفتاریاں اور سزائیں ہورہی ہیں؛ یہ سب دیکھتے ہوئے بڑی شدت سے مولانا محترم کی کہی باتیں یاد آتی ہیں۔

مولانا کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیاہے۔ اس کے کیا اثرات ہندوستانی مسلمانوں پر پڑیں گے، بالخصوص جماعتِ اسلامی اور دینی تحریکات پر اور بالأخص مادرِ علمی جامعۃ الفلاح پر؛ یہ ابھی مستقبل کے پردے میں پوشیدہ ہے۔بہ ظاہر حالات خوش آئند نہیں ہیں۔ اللہ سے عافیت اور سلامتی کا سوال ہے۔ جماعتِ اسلامی کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ اس میں علمائے دین کا تناسب اور نمائندگی بہت کم ہے، ایسے میں مولانا محترم جیسی قدآور اور معتبر علمی ودینی شخصیت کا اٹھ جانا بہت بڑا سانحہ ہے۔ تحریکی اور فکری گلیاروں میں بہ تدریج پھیلتے جارہے انکارِ حدیث کے سرطان کے سلسلے میں متفکر رہا کرتے تھے۔ اس بگاڑ کے آگے مولانا کا وجود سدِ سکندری ثابت ہورہاتھا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد جیسے فتنوں کا بندھ ٹوٹا ہے جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی، اندیشہ اور خطرہ ہے کہ مولانا محترم جیسی مایہ ناز اور دین پسند شخصیت کے غیاب میں دینی تحریکات اور طلبہ تنظیموں کا رشتہ سرمایۂ احادیث اور خود صاحبِ رسالت محمدﷺ سے کمزور یا منقطع نہ ہوجائے۔ مولانا محترم کا اپنا ایک علمی وقاراور دبدبہ تھا۔ان کی تحریکی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں تھیں جن کی وجہ سے نام نہاد فکری اشرافیہ ان کے آگے دم نہیں مارتا تھا اور اسے زیادہ بال وپر پھیلانے کی چھوٹ نہیں تھی۔ مگر اب اللہ جانے کیا ہو۔ بس اللہ ہی خیر کا معاملہ فرمائے۔ اسی پر بھروسہ ہے اور وہی تنہا سہارا ہے۔

غالباً ماہر القادری نے کسی جگہ لکھا ہے کہ انسانوں کی زندگی کو جانچنے کا یہ پیمانہ انتہا پسندی کا ایک عجوبہ ہے کہ یا تو آدمی بالکل فرشتہ ہو اور جو فرشتہ نہیں ہے وہ لازماً شیطان ہی ہوگا۔ان دوانتہائوں کو انسانی زندگی کے لیے معیار بنانا بنیادی طور سے غلط ہے۔تنزیہِ کامل اللہ تعالیٰ کی ذات کو سزاوار ہے، اور عصمت انبیائے کرام کے لیے مخصوص رکھی گئی ہے۔دنیا میں کوئی شخص چاہے علم وتقوی کے کتنے ہی بلند مقام پر فائز کیوں نہ ہوجائے،وہ بہرحال معصوم نہیں ہوسکتاہے۔

یقیناً مولانا محترم میں کچھ بشری کمزوریاں رہی ہوں گی جو باریک بینوں اور عیب چینوں کو نظر بھی آتی ہوں گی۔مجھے ان کمزوریوں سے انکار نہیں ہے،تاہم مولانا محترم کی گوناگوں خوبیوں اور تہہ در تہہ اچھائیوں کے سامنے ان کمزوریوں کا تناسب صفر کے برابر ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔کم لوگ اس ہمت اور حوصلے کے نکلیں گے۔امید نہیں تھی کہ مولانا یوں آناً فاناً ہم سے رخصت ہوجائیں گے۔ بہ ظاہر آپ تندرست دکھائی دیتے تھے، سوائے اس نقاہت کے جو پیرانہ سالی کا لازمہ ہوتی ہے۔مگر ہر متنفس کو جانا ہے، اس لیے مولانا کا وقتِ موعود بھی آپہنچا اور طے شدہ عمر پوری کرکے علم وحلم،عزم وجزم، تہذیب وشرافت،ذہانت وفراست کا یہ پیکرِ جلیل اس خاکدانِ ارضی سے رحلت کرکے اپنے ربِ حقیقی سے جاملا۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے جملہ پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے اورکسی حد تک ان جیسا بننے کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین۔

شکست وریخت کی دنیا
نہیں ہے زیست کی دنیا
ابھی باقی ابھی فانی
یہ ہست ونیست کی دنیا

You may also like

Leave a Comment