Home نقدوتبصرہ مولانا مودودی کی "چار بنیادی اصطلاحات ":ایک اصولی تبصرہ-عبد الاحد ندوى

مولانا مودودی کی "چار بنیادی اصطلاحات ":ایک اصولی تبصرہ-عبد الاحد ندوى

by قندیل

عالم اسلام کے مشہور مصنف و مفکر اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ اپنی مشہور و مقبول کتاب ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات ” میں ” الہ ، رب ، دین ، عبادت ” کے قرآنی کلمات اور اسلامی اصطلاحات کا ذکر کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نزول قرآن کے وقت اس کا ہر مخاطب جس کی زبان عربی تھی ، ان چاروں بنیادی اور قرآنی اصطلاحوں کے صحیح معنوں اور مفہوم سے آشنا تھا ، وہ لکھتے ہیں :
” لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے ، بدلتے چلے گئے ، یہاں تک کہ ہر ایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لئے خاص ہوگیا "ـ ( ص ۴ )
پھر اس کے وجوہ و اسباب بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
” نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کے اصل مدعا کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو گیا ” ( ص ۵ )
پھر اس غلط فہمی کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑجانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی ہے ، اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد و اعمال میں جو نقائص نظر آ رہے ہیں ، ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے ” ( ص ۶ )
مولانا مودودی صاحب رحمہ اللہ کے اس طرز تحقیق اور طرز کلام سے ضمنی طور پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ امت پر ایک ایسا طویل دور گزرا ہے ، جب وہ قرآن مجید کے ایسی اہم بنیادی اصطلاحات کے صحیح مفہوم اور مضمرات سے نا آشنا رہی ہے ، جن پر اس کے صحت فکر اور صحت عمل کا دار و مدار ہے اور جس کو صریح جہالت و غفلت ، بلکہ ایک قدم بڑھ کر ضلالت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، حالانکہ کتاب و سنت اور احادیث کے ذخیرے سے مجموعی اور اصولی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ امم سابقہ کے بر خلاف یہ امت کسی دور میں بھی عمومی و عالمگیر ضلالت میں مبتلا نہیں ہوگی ـ
یہ نتیجہ اگرچہ بادی النظر میں کچھ زیادہ اہم اور سنگین معلوم نہ ہو ، لیکن اس کے اثرات ذہن و دماغ اور طرز فکر پر بڑے گہرے اور دور رس مرتب ہوتے ہیں ، اس سے قاری کو یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلمان اس طویل مدت میں مستقل جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہے اور دین کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے، جو کہ ہر زمانہ اور ہر ماحول کا دین ہے اور اسی طرح قرآن کی بنیادی اصطلاحات اور تعبیروں کو سمجھنے سے قاصر رہے، کیوں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طویل مدت میں یہ کتاب الہی غفلت اور جہالت کی نذر رہی ، اس کے حقائق کو سمجھا نہیں جا سکا اور نزول قرآن کے تھوڑے ہی مدت کے بعد اس سے استفادہ کا سلسلہ منقطع ہو گیا ، یہ تصور قرآن کی آیت مبارکہ ” إنا نحن نزلنا الذكر و إنا له لحافظون ” کے بالکل خلاف ہے اور اس سے اس امت کی گذشتہ تاریخ ، اس کے مجددین ، مصلحین اور مجتہدین کے علمی و عملی کارنامے بھی مشکوک اور کم قیمت ہو جاتے ہیں اور آئندہ کے لئے بھی یہ الزام عائد ہوتا ہے کیوں کہ جو درخت اپنی زندگی کی بہترین مدت میں برگ و بار نہ لائے اور بے حاصل اور بے ثمر پڑا رہے ، اس کی افادیت اور فطری صلاحیت مستقل طور پر مشکوک ہوجاتی ہے،اس سے مستقبل میں بھی کسی بھلائی کی امید کرنی مشکل ہے ـ
ایک مسلمان فاضل کا مقالہ دیکھنے کا موقع ملا ، جس میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں لفظ ” صلوۃ ” آیا ہے ، اس سے مراد اسلامی حکومت اور اقتدار ہے ، جہاں ” صلوۃ ” کا مطلق لفظ آیا ہے اس سے مراد علاقائی حکومت ہے اور جہاں ” الصلوۃ الوسطى ” کا لفظ آیا ہے اس سے مراد مرکزی حکومت ہے ؛ یہ اس طرز حکومت کا نمونہ ہے ، جو ایک مقصد اور مرکزی فکر کو سامنے رکھ کر سارے قرآن مجید کو یا دینی ذخیرہ کو اس کے مطابق بنانے اور اس سے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش سے پیدا ہوتا ہےـ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس انداز فکر میں اس اہمیت و مقبولیت کو بھی بڑا دخل ہے ، جو ہمارے زمانہ میں سیاسی اقدار ، سیاسی اداروں اور تنظیموں نے حاصل کرلی ہے ، اسلامی نظام کا اجرا ، حکومت الہیہ کا قیام اپنی جگہ پر نہایت صحیح اور ضروری مقاصد ہیں ، جن میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ، مسلمان اہل فکر اور اہل قلم کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام توانائیاں اور پوری صلاحیتیں اس عظیم مقصد کے حصول میں لگا دیں ، لیکن اس مقصد کے لئے قرآن مجید کی آیات و اصطلاحات سے بہ تکلف اپنے مدعا کو ثابت کرنے اور سارے قرآن کو اسی ڈھنگ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ، ان کی ترغیب و تاکید اور ان کی اہمیت و عظمت کے ثبوت کے لئے کتاب و سنت کے ذخیرہ میں واضح دلائل و نصوص موجود ہیں( اور انہی کی روشنی و رہنمائی میں ہر دور کے صحیح الفہم اور عالی ہمت مسلمان مصلحین اور داعیوں نے کوشش کی ) ان کی موجودگی میں ان تکلفات کی کوئی ضرورت نہیں ـ

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment