جمعیت علماے ہند کے حالیہ اجلاس میں مولانا ارشد مدنی صاحب کی طرف سے دیا گیا بیان بہت اہم, بر وقت، جرات بھرا، بہت مدلل و محتاط اور نہایت نپاتلا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ جس تناظر اور جس ملکی فضا میں جن لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ اہم بیان دیا گیا ہے اسی تناظر میں اس کو سمجھیں۔
بیان کا اصل مقصد توحید کو اجاگر کرنا ہے، یہ بتانا ہے کہ اسلام ہی اصل اور قدیم ہے، چودہ سو سال قبل صرف بعض شرائع اپ ڈیٹ کیے گئے ہیں، دنیا کا انسانِ اول جس غیر مرئی ذاتِ باکمال کی عبادت کرتا تھا وہی اللہ ہے، جسے مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے, لاکھوں انبیا مختلف قوموں قبیلوں میں آئے، ان کی زبانیں اور تہذیبیں الگ تھیں، انہیں زبانوں میں وہ اللہ کو پکارتے تھے اور زمین پر وہ پہلا انسان آدم ہیں ان کے بھی مختلف زمانوں میں مختلف نام ہیں۔
آدم عرب میں نہیں بلکہ ہند میں تشریف لائے اس اعتبار سے اسلام اسی ملکِ ہند کا سب سے پہلا مذہب ہے اور اس کے ماننے والے سب سے قدیم اور اصل ہندوستانی ہیں، لہذا ہم وطنی اور مذہبی ہر اعتبار سے روزِ اول سے ہندوستانی ہیں، اپنے اصل ملک اور اصل گھر میں ہیں، لہذا ہم سے گھر واپسی کا مطالبہ جہالت و حماقت ہے, اصل بھٹکے ہوئے دوسرے ہیں، نہ کہ ہم مسلمان۔
مولانا ارشد مدنی صاحب نے نہایت دوٹوک، ازحد قطعی اور بہت ہی واضح انداز میں اپنے چند جملوں اور اپنی مختصر گفتگو سے ملک میں موجود اسلام اور مسلم مخالف ماحول اور کنفیوزن پھیلانے والے منفی شبہات و مغالطات کو لمحے بھر میں دھواں دھواں کر دیا، دشمن کے منفی پروپیگنڈوں کے مقابلے میں ہزاروں لاکھوں سادہ لوح مسلمانوں کے منہ میں زبان دے دی۔
مجھے حیرت ہے کہ آج مختلف ماحول میں دعوت و حکمت کے اسلوب سے ناآشنا اور خشک فقہ و متعصب مسلک کے غالی پرستاران بلا وجہ مولانا پر تنقیدیں کر رہے ہیں، میں پھر ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ بیان کو اصل تناظر میں رکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر بیان کی بعض ضمنی چیزیں بعض مسلم عوام کے لیے قابلِ وضاحت ہیں تو بجاے مولانا پر تنقید کرنے کے، ان چیزوں کو آپ واضح کر دیں, مولانا آپ کو اس سے منع نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ تو اس سے مزید خوش ہوں گے کہ ان کے اہم, ضروری، بروقت اور نہایت کاٹ دار بیان کے بعد تکملہ آپ نبٹا رہے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)