Home نقدوتبصرہ قیوم خضر کا ماہنامہ ’اشارہ‘-حقانی القاسمی

قیوم خضر کا ماہنامہ ’اشارہ‘-حقانی القاسمی

by قندیل
Cell:9891726444
ماہنامہ ’اشارہ‘ کی اشاعت کا آغاز گیا سے 1950 میں ہوا۔ اس کے سرنامہ پر علم و ادب کے نئے اشاروں کا علمبردار درج ہوتا تھا۔قیوم خضر (پیدائش:6؍دسمبر، -1924وفات:12؍مارچ،1998) اس کے مدیر تھے۔ ایک اچھے ادیب اور دانشور تھے۔ ادب و صحافت کے ایک ممتاز خانوادہ سے ان کا تعلق تھا۔ مشہور طنز و مزاح نگار انجم مانپوری اُن کے چھوٹے دادا تھے۔ ’اشارہ‘ عبدالقیوم انصاری کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔ مجلہ کے معاونین میں عزیز عظیم آبادی، قیوم قادر، حمیدہ بانو راز کے نام شامل تھے۔ اشارہ کے اشاعتی آغاز کے تعلق سے قیوم خضر لکھتے ہیں کہ:
’’میں نے جب اگست 1950میں پہلی بار اپنے وطن مالوف گیا سے ماہنامہ اشارہ کا اجراء کیا تو میری صحافتی زندگی کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ پچیس برسوں یعنی 1975تک قائم رہا۔ شروع ہی سے میں نے رسالہ کو عام صحافتی روش سے الگ ایک خاص مزاج میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ زیادہ تر صحافیوں کا عام طور پر یہ رویہ چلا آرہا ہے کہ وہ مضامین کی افادیت پر غور نہیں کرتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس مضمون نگار سے زیادہ مالی فائدہ ہونے کی امید ہے۔ اگر غیر افادی مضامین ہونہار نو مشقوں کی ہمت افزائی کے لئے شائع کئے جائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں تعلیم و تربیت کا پہلو مضمر ہے۔ چنانچہ اشارہ میں جہاں ملک کے مستند اور معتبر ادباء اور شعراء کے مضامین نظم و نثر آپ کو ملیں گے وہیں اُن نو مشقوں اور نوجوان ادباء و شعراء کی تخلیقات بھی ملیں گی جن کی نہ کوئی گنتی تھی نہ پوچھ۔ یعنی ادارہ اشارہ نے اپنی پالیسی کے پیش نظر صرف زبانی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا بلکہ تربیت کی خاطر نئی پود کے ادبی نونہالوں کی کچی پکی چیزوں کو چھاپ کر عملی طور پر ایسی حوصلہ افزائی کی کہ ان میں سے بیشتر ادباء اور شعراء ایسے ابھر کر سامنے آئے جو آگے چل کر آسمان ادب کے آفتاب و ماہتاب ثابت ہوئے۔‘‘(صحرائے صحافت کی آوارہ گردی، محاسبہ، ص۔121)
اور یہ سچ ہے کہ قیوم خضر نے صحافت میں اوروں سے الگ اور عمدہ تجربے کیے۔ انہوں نے مجلہ کو صرف ادبی موضوعات اور مسائل پر مرکوز نہیں رکھا بلکہ سماج اور سیاست کے مختلف رنگوں سے بھی قاری کو روشناس کراتے رہے۔ انہوں نے اپنے ایک اداریے میں ’اشارہ‘ کے امتیازات کو واضح کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ:
’’اشارہ نے کچھ کارہائے نمایاں بھی انجام دیے ہیں۔ ہم نے نئے ادیب و شاعر کو روشناس کرانے کے علاوہ اُن ادباء و شعراء کے قلم کو بھی متحرک کیا جو برسہا برس سے منجمد تھے اور بلاشبہ اشارہ نے یہ بڑا کام انجام دیا۔ ہم نے ایک نیا چراغ بھی جلایا۔ یعنی اردو ادب میں سب سے پہلے اشارہ نے حاشیائی ادب کی بات پیش کی اور اس طرح پیش کی کہ اہل الرائے حضرت کے درمیان ادب کا ایک نیا مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس پر مضامین لکھے گئے اور دوسروں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔‘‘
یقینی طور پر یہ اشارہ کا امتیاز ہے کہ حاشیائی ادب کو ایک مستقبل موضوع بنا کر مجلہ میں اسے مرکزیت عطا کی گئی۔ ورنہ عام طور پر ادبی رسائل مرکز مرکوز ہی ہوتے ہیں اور حاشیائی آبادیاں اکثر و بیشتر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
قیوم خضر کا انداز نظر جداگانہ تھا۔ اُن کی سوچ عام روش سے ذرا مختلف تھی۔ ادب، ثقافت، سیاست، معاشرت کے تمام پہلوؤں پر اُن کی گہری نگاہ تھی اس لئے اُن کے اداریوں میں عام طور پر سیاسی اور سماجی شذرات اور اشارات بھی ہوا کرتے تھے۔ اُن کا مقصد صرف تخلیقی یا ثقافتی سطح پر لوگوں کو بیدار کرنا نہیں تھا بلکہ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بھی پیدا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے بیشتر اداریوں میں سیاست، معاشرت کے رجحانات اور رویے پر گفتگو ہوا کرتی تھی اور وہ کھل کر اپنے سیاسی رجحانات کا اظہار بھی کرتے تھے۔ خاص طور پر فسطائیت، فرقہ واریت اور فسادات کے تعلق سے انہوں نے بہت اہم اداریے تحریر کئے اور عوام کو اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کی تلقین کی۔ انہوں نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’میں نے قومی یکتا کے موضوع پر جتنے اداریے لکھے اور دوسروں کے جتنے مضامین چھاپے اس دور میں شاید ہندوستان کا کوئی اردو ماہنامہ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔‘‘ (ارتعاش قلم ص۔26)
اپنے ایک اداریے میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ:
’’کوئی مذہب بھی انسانوں میں منافقت کا جذبہ پھیلانے نہیں آیا۔ مذاہب کے علاوہ دوسری تمام سوشل تحریکیں بھی زندگی کو سدھارنے کے لئے وجود میں آئیں۔ شاعری، مصوری، موسیقی ان تمام چیزوں کا مقصد یہی ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آدمی آدمی رہے۔ خونخوار وحشی درندہ نہ ہو جائے۔‘‘
قیوم خضر نے اشارہ کا قومی یکجہتی نمبر بھی اسی مقصد کے تحت شائع کیا تھا جس میں کئی قیمتی مضامین شامل کئے گئے۔ جن میں جواہر پارے (جواہر لال نہرو) قومی اتحاد کی بنیاد، رواداری اور بردباری (سردار پرتاپ سنگھ کیروں) قومی یکجہتی (ڈاکٹر نرمدیشور پرتاپ) ہندوستان قومی یکجہتی کے آئینے میں(ماہ منیر خان) ہندوستان کا جذباتی اتحاد (چندر بھان گپتا، وزیراعلیٰ اترپردیش) ہندوستان میں قومی اتحاد کا مسئلہ (ضیاء الدین احمد) اور اختر قادری کا ایک ڈرامہ ’یاران وطن‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔
سماج اور سیاست کے جمود کو توڑنے کے علاوہ انہوں نے ادبی جمود کو بھی توڑنے کی کوشش کی کہ دراصل جس دور میں اشارہ نکل رہا تھا وہ دور بھی ادبی اور ثقافتی لحاظ سے کم پرآشوب نہیں تھا۔ زوال کی پرچھائیں صاف صاف نظر آرہی تھی۔ اسی لئے اپنے ایک اداریے میں انہوں نے یہ لکھا :
’’ادھر پانچ برسوں سے اردو ادب میں ایک طرح کا انجماد سا محسوس ہوتا ہے۔ جو پرانے ادیب و شاعر ہیں وہ تھکے تھکے سے معلوم پڑتے ہیں اور نئے ادیب و شاعر نظر نہیں آتے اور اگر آتے بھی ہیں تو خال خال۔ ادب میں کوئی جان نہیں، کوئی نئی بات نہیں، کوئی نئی بحث نہیں۔ لے دے کے صرف غزلوں کی بھرمار ہے۔ جسے دیکھئے بیٹھا ہوا صرف غزل لکھ رہا ہے اور اونگھ رہا ہے۔ کسی کی غزل میں زندگی کی لو نہیں۔ زندگی کی کوئی چمک نہیں۔ ان میں صرف فرسوہ خیالات اور قافیہ و ردیف کی پابندی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘
نومبر 1960 میں قیوم خضر نے جو بات لکھی تھی آج بھی وہ بات حرف بہ حرف صحیح ہے اور عہد حاضر پر بھی صادق آتی ہے کہ ابھی بھی ادب و ثقافت کا معاملہ پہلے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اشارہ میں شامل اختر اورینی کا مضمون شاعری میں روایت و جدت کا یہ اقتباس بھی اس بات کی تصدیق و توثیق کرتا ہے:
’’اقبال کے بعد اردو شاعروں کا قد گھٹتا جار ہا ہے اور اب تو بونوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔‘‘
قیوم خضر کو غزل کی کثرت سے وحشت ہوتی تھی۔ انہیں شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ نثری ادب کی طرف قلم کاروں کی زیادہ توجہ نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف غزل گوئی میں مصروف ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ستمبر 1961کے اداریے میں لکھا تھا کہ:
’’افسوس ادھر دس بارہ برسوں سے معیاری نثری چیزوں کا قحط ہے اور تمام لوگ صرف غزل گوئی کی طرف مائل ہیں۔ یہ یقینی اردو کے لئے نحس کی بات ہے۔‘‘
قیوم خضر نے اردو زبان کے مسائل اور متعلقات کے حوالہ سے بھی بہت اہم اداریے تحریر کئے۔ اردو سے جڑے ہوئے لوگوں کو انہوں نے بیدار کرنے کا بھی کام کیا اور اردو کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ اردو کے تعلق سے اُن کے ذہن میں بہت سے منصوبے اور خاکے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اردو زبان کو وہ حق ملے جس کی وہ مستحق ہے۔ اسی لئے وہ اردو کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کا خیر مقدم کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو بنیادی طور پر قیوم خضر اردو زبان کے ایک بہترین وکیل تھے۔ جنہوں نے ہر موڑ اور ہر مرحلے پر اردو کی وکالت کی اور اردو زبان کی لسانی اور فکری خصوصیات سے قارئین کو آگاہ کیا۔ اس حوالہ سے اُن کی ایک بہت اہم کتاب ’اردو اور قومی ایکتا‘ بھی ہے۔ جو پانچ ابواب پر محیط ہے ۔ جس میں اردو کے تعلق سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیو ںاور بدگمانیوں کا مدلل انداز میں دفاع کیا گیا ہے۔ خاص طور پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اردو نہ غیرملکی زبان ہے اور نہ ملک دشمن زبان ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے بلکہ قومی ایکتا کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو ہندی تنازعہ پر بھی مدلل گفتگو کی ہے۔ اردو کی محبت اور دفاع میں ’اردو درپن‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جس میں انہوں نے اردو زبان کا بین تفاعلی مطالعہ پیش کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو قومی یکجہتی کی سنگ بنیاد ہے۔ قیوم خضر مسلسل اردو کے حوالے سے لکھتے رہے اور یہ ہندوستانی عوام کو بتاتے رہے کہ اردو کے تعلق سے تعصب اور تنگ نظری بے بنیاد ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ لکھا تھا کہ :
’’اردو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ملک کی رنگ برنگ زبان، رنگ برنگ تہذیب اور رنگ برنگ علاقائی علامتوں کا ایک حسین گلدستہ ہے۔ اس لسانی گلدستے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر رنگ کے پھول ایک ساتھ اپنی اپنی پھبن اور بانکپن کے ساتھ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ ان لسانی پھولوں میں دراوڑی، آریائی،پالی، سنسکرت، عربی، فارسی، ترکی، لاطینی، فرانسیسی، پرتگالی، چینی، یونانی، انگریزی، ہریانی،  بھوجپوری، مگہی، پوربی اور دکنی گویا مختلف زبانو ںکا رنگ بھی ملے گا اور خوشبو بھی ملے گی۔ اردو حب الوطنی اور بھائی چارگی کی مکمل تاریخ اور بھرپور علامت ہے۔‘‘
وہ یہ مانتے تھے کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور یہ نہایت کشادہ ذہن اور فراخ دل زبان ہے۔ انہوں نے اپنے ایک اداریے میں اردو زبان کی اس انفرادی خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’’اردو ایک ایسی زبان ہے جسے وقت نے اپنی کوکھ سے جنم دیا اور حالات نے جھولا جھلا کر پروان چڑھایا۔ اس کی رگوں میں خالص ہندوستانی خون دوڑتا نظر آتا ہے۔ اس کا مزاج حب الوطنی اور دیش بھکتی کے جذبوں سے سرشار ہے۔ اردو ہندوستانیوں کے دل کی دھڑکن اور اُن کے لبوں کی معصوم مسکراہٹ ہے۔ یہ زبان ہندو مسلم ایکتا کی جان اور قومی یکجہتی کی روح ہے۔ اس زبان میں بڑی فراخ دلی ہے۔ اسے تنگ نظری اور تعصب سے شدید نفرت ہے۔‘‘
ایک اور اداریے میں انہوں نے مظفر اردو کانفرنس کے حوالے سے اردو پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ:
’’اردو خالص لسانی مسئلہ ہے۔ یہ ہندو مسلم میل کی واحد نشانی ہے۔ نیشنلزم اور اردو ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اردو کی مٹی ہندوستانی کلچر اور ہندومسلم اتحاد کے خمیر سے گودی گئی ہے۔‘‘
’اشارہ‘ میں زندہ اور زندگی سے جڑے ہوئے موضوعات پر ہی اداریے ہوتے تھے اسی لئے قیوم خضر کے اداریے عوام و خواص دونوں میں مقبول تھے اور ان اداریوں کی حیثیت ایک مشعل راہ کی سی تھی۔
قیوم خضر نے اپنے مجلہ میں موضوعاتی تنوع کا خاص خیال رکھا اور ایسی تحریروں کو ترجیحی طور پر شائع کیا جن سے معاشرے کو روشنی ملے۔ اشارہ کے مختلف شماروں میں جو مضامین ملتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے افادی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ بہار میں اردو (حسن مثنی ندوی) مومن اور وہابی تحریک (نادم بلخی) کیا اکبر رجعت پسند تھا؟(سہیل الرحمن انجم) ہندی کے مسلم شعراء (قیصر سرمست) ادبی تخلیق و تنقید (صابر شاہ آبادی)کلیم الدین احمد کی بیالیس نظمیں (محمد مظفر حسین ایڈوکیٹ) نظیر کو کس نے زندہ کیا (پروفیسر سید یوسف الدین احمد بلخی) اردو شاعری کے مختلف اصناف (جوش ملسیانی) اردو شاعری میں نام و پیام (ہربنس لال نارنگ) خزانۂ علم و فن کتب خانہ مشرقیہ (ماہ منیر خان) رسالہ مطلوب المبارک (پروفیسر خورشید حیدر) فانی کا غم (ہربنس لال ایم اے) اردو ادب میں کرشن بھکتی کی روایت (پروفیسر سید حسن) اکبر اور مسلۂ زبان (ابوذر عثمانی) شکیلہ اختر بحیثیت افسانہ نگار (شعیب راہی) پنجابی میں امریکی لوک گیت (ہربنس سنگھ) اختر اورینوی بحیثیت نقاد (قمر اعظم ہاشمی) احمد عظیم آبادی(طلحہ رضوی برق) گیا کی تاریخی اہمیت (موہن لال مہتو بیوگی) آنجہانی کشتہ گیاوی(نریندر نارائن لال) مولانا ابوالکلام آزاد اور الپنچ (سید بدرالدین احمد بدر عظیم آبادی) امیرمینائی عظیم آباد میں (فصیح الدین بلخی) اردو شاعری کے نئے عناصر (علیم اللہ حالی) فلسفۂ زبان و اقوام (اختر اورینوی) کشمیر میں اردو صحافت (واقف کار) بہار کا پہلا اردو ڈرامہ (ایس حسن) بہار کا ایک گمنام مصنف مولوی حسن علی (ایس حسن) میر کی المیہ شاعری (سعیدہ وارثی ایم اے) وغیرہ اہم ہیں۔ یہ تمام مضامین آج کے عہد میں بھی قدرو قیمت کے حامل ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین کی مکرر اشاعت سے یقینی طور پر علمی اور ادبی معاشرے کو بہت فائدہ ہوگا۔ خاص طور پر پروفیسر سید حسن کا مضمون اردو ادب میں کرشن بھکتی کی روایت کی اشاعت ہونی چاہئے کہ اس میں انہوں نے دلائل کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ اردو ادب کا بیشتر حصہ دیسی ہے اور اس زبان میں ہندوستانی کلچر کے عناصر ہیں اور یہ زبان ملی جلی سنسکرتی کی نمائندہ ہے۔ انہوں نے اس میں کرشن کنہیا کے تعلق سے لکھا ہے کہ:
’’مسلمان انہیں پیغمبر مانتے ہیں اور خواجہ حسن نظامی تو انہیں خدا کا اوتار کہتے تھے جب کہ اس کے برعکس لالہ لاجپت نے انہیں خدا کا اوتار ماننے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض ہندو مصنفین نے انہیں ہوسناک نوجوان اور عیاش طبع عاشق بھی بتایا ہے۔ مگر خواجہ حسن نظامی نے اُن کی پاکبازی اور پرہیزگاری کو بیان کیا ہے۔ مرزا مظہر جان جاناں کرشن جی کو ہادی مانتے تھے۔ ‘‘
’اشارہ‘ ہی میں ایک بہت ہی وقیع مقالہ ’ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی کردار تاریخ کی روشنی میں‘ شائع ہوا تھا۔ چالیس صفحات پر محیط اس مقالہ میں مسلمانوں کے قومی کردار اور تشخص پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس مضمون کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ:
’’اگر ہندوستان کی ساری تاریخی کتابیں ختم کر دی جائیں نیز تمام تحریکات کے تذکرے گم کر دیے جائیں اور صرف اردو لٹریچر باقی رہ جائے تو آپ ہندوستان کی عہد بہ عہد کی مسلسل تاریخی کڑیوں کو جوڑ سکتے ہیں اور آپ کو صرف اردو کے ذریعے ہندوستان کی مکمل تاریخ کی آگاہی ہو سکتی ہے۔‘‘
ایک اور اہم مضمون ’نظیر کو کس نے زندہ کیا‘ کے عنوان سے پروفیسر سید یوسف الدین احمد بلخی کا ہے۔ جنہوں نے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ:
’’حق تو یہ ہے کہ نظیر آج بھی بے نشان ہوتا اگر سرمہرا ضلع پٹنہ کے رہنے والے مولانا سید عبدالغفور شہباز زندگانیٔ بے نظیر اور کلیات نظیر اکبر آبادی لکھ کر اسے روشناس نہ کراتے۔‘‘
’اشارہ‘ کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں جمعیۃ علمائے ہند کے بائیسویں اجلاس پر ایک شمارہ شائع کیا گیا اور اشارے کے تحت ’بِہار میں بَہار آئی‘ عنوان کے تحت قیوم خضر نے اپنے اداریے میں لکھا تھا جس سے بہار کی تہذیبی ثقافتی اور روحانی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارا دیس وہی مقدس اور تاریخی دیس ہے جہاں آریہ بھٹ نے دنیا والوں کو نجوم و فلکیات کی دولت عطا کی۔ جہاں اشوک اعظم نے 273 قبل مسیح پاٹلی پترا میں ایسی بے مثال حکومت قائم کی تھی جس کی پیروی آج بھی ہم کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا چکر ہمارے قومی نشان کی زینت ہے اور جس کے شاہی لاٹ کے سرے کو ہم نے مہر شاہی کے لئے منتخب کیا ہے۔ اسی زمین کی گود سے راجہ جنک پیدا ہوئے۔ گوتم بدھ اور مہاویر جیسے بانیان مذاہب پیدا ہوئے۔ سیتا جی جیسی لافانی دیوی نے جنم لیا۔ یہیں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر حکیم بیدبا نے سنسکرت زبان میں ادب کے وہ پھول کھلائے جس کا ترجمہ کلیلہ دمنہ دنیا بھر میں موجود ہے۔ دھنوتری اسی دھرتی کا بیٹا تھا جس نے علم ویدک ایجاد کرکے دنیا والوں کو ایک طریقۂ علاج کی راہ پیش کی۔ سنسکرت زبان کے قواعد و صرف کو اسی بہار میں پائننی اور پتانجلی نے ترتیب دیا۔ اصول سیاست کے بانی چندر گپت کا وزیر پوٹلیا یہیں کا باشندہ تھا۔ منطق ہند کے موجد گوتم رشی کو یہیں کے ذروں نے آفتاب بنایا۔‘‘
ایک مضمون پروفیسر عبدالخلاق کا ’اختر اور اختر ایک تاثر‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے بہار کے گوتمی اور مہابیری مزاج اور کردار کے حوالہ سے بڑی اچھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ:
’’بہار یا تو مردم خیز خطہ رہا ہے یا مذہب بیز۔ اس نے ہر عہد میں جوہر قابل پیدا کئے ہیں۔ یہ اور بات کہ اُن میں سے کچھ نے ہی شہرت پائی ہے۔ زیادہ تر تو گمنامی اور کمنامی کے سائے میں زندگی گزار دی ہے۔ ویسے جنہیں طرۂ امتیاز بننا تھا وہ گرد راہ ہی بنے رہے۔ محض اپنی قناعت پسندی کے صدقہ دراصل یہاں کی فطرت میں گوتمی خاکساری اور مہابیری انکساری کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ لوگ قناعت پر تکیہ کناں اور شہرت سے گریزاں زندگی گزارنے کے عادی سے ہوگئے ہیں اور یوں بھی آج کتنے قطرہ ہیں جو طوفان نہ بنے اور کتنی چنگاری ہے جو شعلۂ جوالہ نہ بنے۔       (اشارہ:جون 1966)
اشارہ کے خصوصی شماروں میں عید نمبر اور خراج عقیدت نمبر بھی قابل ذکر ہیں۔ آنجہانی ڈاکٹر سری کرشن سنہا وزیراعلیٰ صوبہ بہار پر ایک شمارہ نکالا گیا تھا۔ جس میں قیوم خضر، ماہ منیر خان، موہن لال مہتو بیوگی، اوما ناتھ ایم اے، اکشے کمار سنہا کی تحریریں تھیں۔ یہ 1937سے 1961تک بہار کا وزیراعلیٰ رہنے والے کرشن سنہا کو بہت ہی عمدہ خراج عقیدت تھا۔ان کا تعلق ضلع مونگیر سے تھا۔
اشارہ کی ترتیب اور فہرست کے عنوانات پرکشش اور جاذب نظر ہوتے تھے۔ مقالات و مضامین تگ و دو کے تحت شائع کئے جاتے تھے۔ نظموں اور غزلوں کی اشاعت رزم و بزم کے عنوان سے ہوتی تھی۔ افسانے دھوپ چھاؤں کے تحت شائع کئے جاتے تھے اور تبصرے کا عنوان تھا کھرے کھوٹے۔ فہرست کے عنوانات کبھی کبھی تبدیل بھی کئے جاتے تھے۔ عرق ریزی کے تحت مقالات و مضامین شائع کئے گئے۔ تو نظموں اور غزلوں کو عطر بیزی کا عنوان دیا گیا۔ افسانے اور خاکہ عکس ریزی کے تحت شائع کئے گئے اور تبصرہ و تنقید کے لئے دیدہ ریزی منتخب کیا گیا۔ غرض کہ قیوم خضر نے ہر سطح پر کچھ اچھے تجربوں کی کوشش کی اور اُن کے تجربے کامیاب بھی رہے۔
ماہنامہ اشارہ تین ادوار پر محیط ہے۔ پہلے دور کا تعلق اگست 1950سے دسمبر 1950تک کا ہے۔ پانچ شماروں کے بعد رسالہ بند ہوگیا۔ دوسرے دور کا آغاز اسماعیل منزل محلہ گزری، پٹنہ سٹی سے ہوا۔ دسمبر 1953 سے اپریل1954تک یہ سلسلہ رہا۔ تیسرا دور محلہ صادق پور سرائے پٹنہ سٹی سے شروع ہوا۔ نومبر 1958تک وہاں سے رسالہ شائع ہوتا رہا اور پھر اگست 1967 میں اس کی اشاعت ملتوی ہوگئی اور اشارہ ہفتہ وار ہوگیا۔ تقریباً ماہنامہ اشارہ کے سو شمارے شائع ہوئے اور 23اپریل1975 کو قیوم خضر نے صحافت کو الوداعی سلام کہا۔
انہوں نے خود لکھا ہے کہ:
’’23؍اپریل 1975کو ہمیشہ کے لئے صحافت کے میدان سے کنارہ کش ہوگیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ادب و صحافت کا روگ ایسا ہے کہ کینسر کی مہلک بیماری اچھی ہو سکتی ہے مگر اس روگ سے نجات پانا ممکن نہیں۔ چنانچہ ہوا بھی یہی کہ ادبی روگ نے صحافت کے بجائے تصنیف و تالیف کا رخ اختیار کر لیا اور جب علم و ادب کی سرگرمیاں اس نئی راہ پر گامزن ہوئیں تو صحافت کی سعی نامشکور سے نجات مل گئی۔‘‘
(محاسبہ، ص۔137
ماہنامہ اشارہ ادبی صحافت میں بہت قدرو قیمت کا حامل ہے۔ اس کے اندر علوم و ادبیات کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ماہنامہ اشارہ کا ایک جامع انتخاب شائع کیا جائے۔

You may also like