Home نقدوتبصرہ کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر-محمد اکرام

کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر-محمد اکرام

by قندیل

اردو زبان و ادب میں کوثرمظہری کی شناخت کے کئی حوالے ہیں۔ بہ یک وقت وہ ناقد، شاعر، ناول نگار اور مترجم کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ نقادوں نے کوثرمظہری کی ادبی خدمات کا خاطر خواہ اعتراف بھی کیا ہے۔ مگر کوثرمظہری کی تنقیدی نگارشات میں مونوگراف کو یا تو سرے سے نظرانداز کردیا گیا ہے یا اگر کسی نے کچھ گفتگو کی بھی ہے تو وہ بھی سرسری۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی شخصیت کے ذریعے تیار کیے گئے مونوگراف پر ناقدین کی نظر نہیں پڑتی۔ کیا اسے ثانوی ادب سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے یا اسے محض نوٹ اور تلخیص سمجھ کر ناقدین سرسری نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں۔  اس مضمون میں کوثرمظہری کے صرف مونوگراف پر ہی گفتگو مقصود ہے۔

اس حقیقت سے اہل علم و دانش آشنا ہیں کہ ادب عالیہ ہی نہیں معاصر ادب کے مطالعہ کا ذوق و شوق بھی اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔آج کی مصروف ترین زندگی میں اب اتنی فرصت کہاں کہ کوئی آدمی  ضخیم کتابوں کی ورق گردانی کرتا پھرے۔  موجودہ ڈیجیٹل ایج نے بیشتر قارئین کو کتابوں سے دوری بنانے کا بہت سہل راستہ فراہم کردیا ہے۔ اب ایک کلک سے کئی کئی صفحات اسکرین پر موجود ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس ٹیکنالوجی سے نئی نسل بڑے پیمانے پر مستفید بھی ہورہی ہے، مگر دوسری طرف وہ کتابوں سے دن بہ دن دور ہوتی جارہی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اب عام قارئین کے ساتھ طلبا و طالبات بھی بھاری بھرکم اور ضخیم کتابوں سے بے اعتنائی برتتے نظر آتے ہیں۔ اگر انھیں کسی کتاب کی ورق گردانی کی ضرورت پیش آتی بھی ہے تو محض ریسرچ ورک تک۔ اسی وجہ ہے حالیہ دنوں میں مونوگراف کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔  عام قارئین کے ساتھ اساتذہ و طلبہ بھی اس سے بھرپور فائدہ حاصل کررہے ہیں۔

مونوگراف کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے سہل پسندی کا نام دے دیا گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے بیشتر سینئرز ناقدین نے سنجیدگی سے اس طرف کبھی غور نہیں کیا۔ مونوگراف لکھنا آسان یوں بھی نہیں ہے کہ ڈھیروں ایسی شخصیات ہیں جن کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ یہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کی اس شخصیت کے تمام پہلوؤں اور اس کے ادبی متون سے آشنائی ہو۔ کئی ہزار صفحات پر مشتمل ان کی کاوشوں کو اپنے مطالعے کا محور و مرکز بنا کر انھیں 100 سے 150 صفحات تک میں سمیٹنا آسان نہیں ہوتا۔ اختصار اور جامعیت مونوگراف کے اہم وصف ہیں۔ انگریزی کے ذریعے مونوگراف کا چلن اردو میں عام ہوا۔ اس لیے بلاجھجک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ ادبی روایت بہت قدیم ہے۔ ریسرچ  کے دوران کسی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر آشنائی کے لیے مونوگراف بہت کار آمد ہوتا ہے۔ کوثر صاحب کے مونوگراف کی تعداد نصف درجن ہے اور یہ سارے مونوگراف بہت اہم شعرا و ادبا پر ہیں۔

پہلا مونوگراف ’فائز دہلوی‘  پر ہے جسے دہلی اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔ اس مونوگراف کے اب تک دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا 2008 اور دوسرا 2013 میں۔فائز دہلوی (صدرالدین محمد خاں بہادر) کا شمار کلاسیکل شعرا میں ہوتا ہے۔فائز دہلوی کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ انھوں نے شاعری میں تقریباً تمام موضوعات کو برتا ہے مگر ان کی شناخت عشقیہ شاعر کے طور پر ہے۔ انھوں نے محبوب کے سراپے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ فائز نے ریختہ کی صورت گری اور اس کی روایت کی تعمیر میں اپنی پوری عمر صرف کردی۔  فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں انھوں نے شعر کہے ہیں۔   فائز زبان فارسی میں خود کو اہل زبان سمجھتے تھے۔ ان کے شعری نمونوں میں مثنویوں کی تعداد کثیر ہے۔ آبرو اور حاتم کے ساتھ فائزکو بھی شمالی ہند کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔ کوثر صاحب نے ان کی شاعری اور شخصیت کی تمام جہتوں کو بہت ہی عمدہ انداز میں مونوگراف کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ مونوگراف 120 صفحات پر مشتمل ہے جسے کوثر صاحب نے دو ابواب میں منقسم کیا ہے۔ پہلا شخصیت اور دوسرا شاعری۔ ان کے علاوہ انتخاب کلام بھی شامل ہے۔ ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤںکو اجاگر کرنے کے لیے کوثر صاحب نے فائز کے آبا و اجداد، مولد و مسکن، وجاہت اور شمائل فائز تذکروں میں، فائز، ولی، معاصرین اور تذکرے، مسئلہ مقدم زمانی کا، فائز کا مذہب، فائز کی ذاتی دلچسپی اور مالی حالت، فائز کی علمی لیاقت، فائز کی تصانیف جیسے ذیلی عنوانات قائم کیے ہیں۔ ان عنوانات پر کوثر صاحب نے مختصر مگر مدلل اور جامع گفتگو کی ہے۔  ’فائز کی تصانیف‘  پر نظر ڈالنے سے ان کے موضوعاتی تنوع اور مطالعاتی وسعت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔  فائز کی شخصیت کے تمام زاویوں کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس باب کا مطالعہ یوں بھی ضروری ہے کہ ان کی شخصیت کے تعلق سے قارئین کے ذہن میں جو دھندلے نقوش ہیں وہ بخوبی روشن ہوجائیں گے۔ دوسرا باب شاعری کا ہے جس میں غزلیں، قصیدے، مثنویاںہیں۔  ان کی شاعری میں تشبیہات و استعارات، مقامی رنگ، زبان، قوافی کے عیوب، فائز اور ولی کی غزلیں  جیسے ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں تاکہ قارئین فائز کی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں سے روشناس ہوسکیں۔  آخر میںفائز کے کلام کا انتخاب شامل ہے۔ 37 صفحات میں کوثر صاحب نے فائز کی غزلیں، مثنوی اور قصیدوں کو  جمع کیا ہے۔ اس مونوگراف میںشامل فائز کے معیاری اور اعلیٰ کلام کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

کوثر مظہری کے مونوگراف کے علاوہ بھی فائز کے کلام کے انتخاب شائع ہوچکے ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب نے ’دیوان فائز‘ کے نام سے ان کے کلام کو کتابی صورت میں ترتیب دیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن 1946 اور دوسرا 1968 میں شائع ہوچکا ہے۔ محمد حسن صاحب نے بھی ’انتخاب کلام فائز‘ کے نام  سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کی اشاعت بھی  2000میں دہلی اردو اکادمی سے ہی ہوئی ہے۔

فائز دہلوی کی وسیع العلمی اور ہمہ جہت شخصیت کا اعتراف اس طرح نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کے کئی مخفی جہات ایسے ہیں جن پر گفتگو اب بھی باقی ہے، مجھے امید ہے کہ ناقدین اس جانب توجہ دیں گے۔ پھر بھی فائز دہلوی پر جو علمی کام ہوئے ہیں ان پر اظہارِ اطمینان تو کیا ہی جاسکتا ہے۔

دوسرا مونوگراف ’وحید اختر‘ (ساہتیہ اکادمی، 2008) ہے۔ مونوگراف کی اشاعت ساہتیہ اکادمی کا اہم اور لائق ستائش کام ہے۔ ’ہندوستانی ادب کے معمار‘ کے تحت انھوں نے بے شمار مونوگراف شائع کیے ہیں۔  انہی میں ایک اہم مونوگراف ’وحید اختر‘ بھی ہے۔

وحید اختر کا تخلیقی کینوس بہت وسیع ہے۔ نظم و نثر دونوں پر وہ دسترس رکھتے تھے۔ فلسفہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ان کے پی ایچ ڈی کا موضوع’خواجہ میر درد اور ان کے نظریات تصوف ‘ ہے۔ وحید اختر اردو کے کلاسیکی اور جدید ادبی سرمائے پر گہری  نظر رکھتے تھے۔فارسی اور مغربی تنقیدی نظریات پر انھیں دسترس حاصل تھی۔ انھوں نے بہت کچھ لکھا مگر ان کی بہت سی تحریریں رسائل میں کھوسی گئیں اور بہت سی تحریریں ابھی تک غیر مطبوعہ بھی ہیں۔ کوثر صاحب نے ’پیش لفظ‘ کے تحت ان کی تحریروں کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا ’ہست‘ اور دوسرا ’بود‘۔ وہ لکھتے ہیں:

’’وحید اختر اردو شعر و ادب کا ایک ایسا نام ہے جو ’’ہست اور بود‘‘ کے ساتھ اپنی موجودگی ثابت کرچکا ہے۔ ’ہست‘ اس لیے کہ ان کی شاعری اور تنقیدی تحریروں کا اعتراف کیا جارہا ہے… ’بود‘ اس لیے کہ اب بھی اُن کی تمام چیزیں اشاعت پذیر ہونے کی منتظر ہیں۔ لیکن کسی بھی تخلیقی آگ کو بہت دنوں تک دبایا نہیں جاسکتا۔ میں اس تخلیقی آگ کو ’پانی‘ کی طرح سمجھتا ہوں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ یہ متضاد اشیاء کو باہم مترادف یا مشابہ قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ دراصل فزکس میں ایک کلّیہ پڑھا تھا Water seeks its own level یعنی پانی اپنی سطح خود تلاش کرلیتا ہے۔ لہٰذا تخلیق کے لیے جو قوت ہے وہ آگ یا آنچ ہے لیکن اس میں چوں کہ سیّالیت (Liquidness) ہے اس لیے اسے پانی کہنے کا جواز بھی مستحکم ہوجاتا ہے۔‘‘             (وحید اختر، ص 9(

وحید اختر کے بہت سے گمشدہ اور بکھرے مضامین کو پروفیسر سرورالہدیٰ نے یکجا کرکے کلیات کی شکل میں چھ جلدوں میں مرتب کیا ہے جنھیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کردیا ہے۔ ان کی شاعری کا ایک انتخاب بھی سرور صاحب نے ترتیب دیا ہے، یہ کتاب بھی قومی اردو کونسل کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے۔  مضامین پر مشتمل کلیات کے علاوہ ’فلسفہ اور ادبی تنقید‘ اور ’خواجہ میر درد: تصوف اور شاعری‘ (پی ایچ ڈی کا مقالہ) جیسی کتابیں بھی ان کی شائع ہوچکی ہیں۔

زیرنظر مونوگراف ’وحید اختر‘ کو کوثر صاحب نے دو ابواب میں منقسم کیا ہے۔ پہلا ’احوال و کوائف‘ اور دوسرا ’تخلیق و تنقید‘ ہے۔ ’احوال و کوائف‘ کے تحت وحید اختر کے آبائی وطن، خاندانی حالات، مذہب اور ذاکری سے رشتہ، میلان طبع، وحید اختر اور حیدرآباد، علی گڑھ آمد، ازدواجی زندگی، آخری ایام تحت کے مختصراً گفتگو کی گئی ہے۔ ’تخلیق و تنقید‘  میں انھوں نے نظم اور نثر دونوں کو شامل کیا ہے۔ شاعری کے حوالے سے نظم نگاری، غزل گوئی، مرثیہ نگاری جب کہ نثر کے تحت  وحید اختر کی تنقید: فلسفہ اور ادبی تنقید و خواجہ میر درد تصوف اور شاعری پر قلم بند کیا ہے۔ شخصیت سے زیادہ اس مونوگراف میں ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے جو کہ شاید مناسب بھی ہے۔ آخر میں ’انتخاب کلام‘ کے تحت وحید اختر کے تمام شعری مجموعوں سے کچھ چنندہ نظمیں  اور غزلیں شامل کی گئی ہیں۔  مرثیے کے ضمن میں صرف شہید عطش (در حال علی اصغر ابن الحسین)  کو اس مونوگراف کا حصہ بنایا گیا ہے۔  مختصر صفحات میں بھی کوثر صاحب نے ان کے مجموعی نگارشات کو اس عمدہ انداز میں پیش کیا ہے کہ ان کی شخصیت اور شاعری کی تمام جہتیں سامنے آجاتی ہیں۔

تیسرا مونوگراف ’شیخ محمد ابراہیم ذوق‘ ہے۔ یہ مونوگراف قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے زیراہتمام 2016میں شائع ہوا ہے۔ ذوق کی اصل شناخت ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے۔ انھیں موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ سے بھی شغف تھا۔  ذوق نے اپنے کمال ہنر کا ثبوت قصیدے کے ذریعے دیا ہے۔ غزلوں کی بہ نسبت انھوں نے بہت اعلیٰ اور معیاری قسم کے قصیدے لکھے ہیں۔  بعض لوگ سودا کے بعد انھیں سب سے اہم قصیدہ گو شاعر مانتے ہیں۔غزل پر بھی وہ مکمل دسترس رکھتے تھے۔ غزلوں میں انھوں نے کلاسیکی اسلوب کو برتا ہے۔

کوثر صاحب نے اس مونوگراف کو ابتدائیہ کے علاوہ چار ابواب :شخصی و سوانحی پس منظر، تنقیدی محاکمہ،دیگریات، انتخابِ کلام کے تحت تقسیم کیا ہے۔  تنقیدی محاکمہ بہت اہم باب ہے جس میں انھوں نے ان کی غزل گوئی پر مختصر مگر قصیدہ گوئی کے تعلق سے مفصل اور جامع گفتگو کی ہے۔ ’دیگریات‘ کے تحت رباعیات اورقطعات پر گفتگو شامل کتاب ہے۔  اس حوالے سے ذوق کو لوگ کم جانتے ہیں مگر کوثر صاحب نے اس مونوگراف میں اس حوالے سے ان کو متعارف کرانے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ آخری باب ذوق کے کلام کا انتخاب ہے جس میں 39 غزلیں، 4 قصائد  اور ایک سہرا شامل ہے۔ ذوق کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے یہ مونوگراف بہت کارآمد ہے۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ ذوق کی شاعری اور ان کی عظمت و مرتبت کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ ان پر تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے محاکمہ کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے ہم ان کی شاعری کی خوبیوں کو بہتر انداز میں نہیں سمجھتے  ہیں۔ اس بابت اسلم پرویز لکھتے ہیں:

’’ذوق کا اردو کے کلاسیکی شعرا میں جو مرتبہ ہے اس اعتبار سے ذوق پر ابھی کوئی بہت اعلیٰ پیمانے کا تحقیقی اور تنقیدی کام نہیں ہوا ہے۔ ذوق پر احمد حسین لاہوری کے بعد پہلی مرتبہ تنویرا حمد علوی نے ذوق کو اپنی ادبی کاوشوں کا موضوع بنایا اور ان کی شخصیت اور خدمات پر نہ صرف ایک باقاعدہ کتاب تصنیف کی بلکہ ان کے دیوان کو بھی ازسر نو ترتیب دیا۔ ذوق کے سوانح اور انتقاد پر اور کوئی باقاعدہ کام شاید یوں بھی نہ ہوسکا کیونکہ ہمارے محققین کی زیادہ تر توجہ محمد حسین آزاد کے بخیے ادھیڑنے پر ہی صرف ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک ذوق کے کلام کا کوئی ایسامستند ایڈیشن بھی ہمارے سامنے نہیں آیا جس کی تدوین متنی تنقید کے اصولوں کی بنیاد پر کی گئی ہو اور جب تک یہ کام نہ ہوجائے اس وقت تک ذوق کی شاعری پر کوئی بھی تنقیدی رائے بجائے خود مستند نہیں ہوسکتی۔‘‘

)شیخ محمد ابراہیم ذوق، مرتبہ: اسلم پرویز، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی، 1999، ص6(

اسلم پرویز کی باتوں سے مکمل طور پر اتفاق نہ سہی، مگر غور کرنے کی ضرورت بلاشبہ ہے۔ اپنے عہد کی بیشتر بڑی شخصیات پر ناقدین کی خاطرخواہ توجہ نہیں گئی ہے۔ ایسی شخصیات پر مونوگراف کے بجائے ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ پھر بھی کوثر مظہری نے مختصر اور محدود صفحات میں ذوق کی متنوع اور ہمہ جہت شخصیت اور معیاری شاعری  کے بارے میں بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔

چوتھا مونوگراف ’شکیل الرحمن‘ (ساہتیہ اکادمی 2019) ہے۔ شکیل الرحمن کثیر التصانیف ہیں۔ 60 سے زائد کتابیں ان کی شائع ہوچکی ہیں۔ شکیل الرحمن کا موضوعاتی دائرہ بہت وسیع ہے۔  انھوں نے صرف جمالیات ہی پر اپنے آپ کو مرکوز نہیں رکھا بلکہ دوسرے موضوعات بھی ان کی تنقید کے دائرے میں آئے ہیں۔یہ اور بات کہ وہ ’بابائے جمالیات‘سے مشہور ہیں۔ انھوں نے ادب اور فنون لطیفہ کی جمالیاتی جہتوں سے اردو قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ ان کی بہت سی تصنیفات جمالیات سے متعلق ہیں- کوثر صاحب کو شکیل الرحمن کی شخصیت اور ان کی تحریروں سے گہرا لگاؤ رہا ہے۔  مونوگراف سے پہلے ’منٹو شناسی اور شکیل الرحمن (2009)‘ جیسی کتاب کوثر مظہری تحریر کرچکے ہیں۔ زیرنظر مونوگراف کو کوثر صاحب نے 11 عناوین شکیل الرحمن: (1)سوانحی کوائف (2) نظامِ جمال اور شکیل الرحمن(3) شکیل الرحمن اور تصوف کی جمالیات (4)شکیل الرحمن کی تنقیدِ شاعری(5) شکیل الرحمن اور فارسی شعرا(6) شکیل الرحمن اور فکشن تنقید(7) شکیل الرحمن کے سفرنامے، خودنوشت، ناول، افسانے اور ڈرامے(8) چند دیگر تحریریں (9) شکیل الرحمن کا اسلوبِ نثر (10) شکیل الرحمن کی تصانیف (11) شکیل الرحمن کے حوالے سے کتابیں، کے تحت تقسیم کیا ہے۔

شکیل الرحمن کی شناخت ماہر جمالیات کے طور پر ہوتا ہے۔ انھوں نے تنقید میں ’جمالیات‘ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے پوری زندگی جمالیاتی تنقید کو اپنائے رکھا۔  ’ہندوستان کانظامِ جمال شکیل الرحمن‘  کی بہت اہم کتاب ہے جس میں نھوں نے قدیم ہندوستانی تہذیب کے پیرائے میں یہاں کے مندروں، غاروں، گپھاؤں، دیوی دیوتاؤں، موسیقی اور مجسموں، پہاڑوں، ندیوں، آبشاروں وغیرہ میں جمالیات کے پہلو تلاش کرلیے ہیں۔

تصوف کی جمالیات‘ بھی شکیل صاحب کی اہم کتاب ہے، جس جمال قلندری، ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف کا جمال، مغربی ادب اور تصوف کی جمالیات، ملا نصرالدین: تصوف کی رومانیت کا ایک منفرد استعارہ، چین میں تصوف، موسیقی رقص اور نغمہ، دو پرندوں کی رس کہانی، مثنوی مولانا روم کی زلیخا، کبیر: عشق، عاشق اور محبوب، کبیر: موت کی جمالیات، بابا گرونانک اور جپ جی صاحب، بابا بلھے شاہ، بیدل اور غالب، مرزا غالب اور تصوف کی جمالیات، محمد اقبال اور تصوف کی جمالیات جیسے مضامین کے تحت کوثرمظہری نے عمدہ گفتگو کی ہے۔  اس کتاب کے عناوین سے معلوم ہوتا ہے کہ شکیل الرحمن کا جمالیاتی کینوس کتنا وسیع ہے۔ انھوں نے اردو اور فارسی کے شاعروں کے یہاں بھی جمالیاتی پہلو تلاش کیے ہیں۔ کوثر مظہری شکیل الرحمن کی جمالیاتی وسعتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’جہاں کہیں بھی شکیل صاحب کو عشق اور پریم لیلا کی شعاعیں مل جاتی ہیں، اکتساب کے لیے اس جانب لپکتے ہیں۔ مولانا رومی، عطار، خسرو، سنائی، حافظ یا اقبال کا کلام ہو یا پھر کبیر، بلھے شاہ یا گرونانک کا،انھیں تو سچائی اور عشق کی تب و تاب کے لیے غذااور توانائی چاہیے۔ کبیر کے کلام کو جس شعور جمال اور کمال عشق کی میزان پر، شکیل الرحمن نے پرکھنے اور جذب کرکے اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وہ قابل رشک بھی ہے اور لائق تحسین بھی۔ ‘‘             (ایضاً، ص 33)

’شکیل الرحمن کی تنقید شاعری‘ کے تحت کوثر مظہری نے قلی قطب شاہ، میر تقی میر، نظیراکبرآبادی، مرزا غالب ، علامہ اقبال، فراق گورکھپوری، اخترالایمان، بارہ ماسہ، کلاسیکی مثنویوں میں ان کے جمالیاتی پہلوؤں سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔  ان سبھی پر شکیل الرحمن نے الگ سے کتاب لکھی ہے۔  ان کتابوں کے مطالعے سے قارئین کو ان کے کلام میں پائے جانے والے جمالیاتی حسن کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

’شکیل الرحمن ا ور فارسی شعرا‘ میں کوثرمظہری نے امیر خسرو، مولانا رومی، حافظ شیرازی کے کلام کے جمالیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح شکیل صاحب نے ان کے کلام میں جمالیاتی پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ ان تینوں شاعروں پر بھی شکیل صاحب نے پوری کتاب تحریر کی ہے۔

’شکیل الرحمن کی فکشن تنقید‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے فکشن نگاروں کے یہاں بھی جمالیاتی عناصر کی جستجو کی ہے۔ اس ضمن میں پریم چند، منٹو، احمد ندیم قاسمی کے یہاں جمالیاتی عناصر کو کوثر مظہری نے بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ مذکورہ افسانہ نگاروں پر بھی شکیل صاحب نے پوری کتاب تحریر کی ہے۔

’شکیل الرحمن کے سفرنامے، خودنوشت ناول، افسانے اور ڈرامے‘ بھی بہت اہم ہے۔ شکیل صاحب نے ان میں بھی جمالیاتی پہلو تلاش کرلیے ہیں۔ کوثرمظہری نے ان میں پائے جانے والے جمالیاتی عناصر کی عمدہ نشان دہی کی ہے۔

’چند دیگر تحریر‘ کے تحت‘ کوثر مظہری نے قرآن حکیم- جمالیات کا سرچشمہ (مقدمہ)، ابوالکلام آزاد، ایک علامت کا سفر (2012)، لوک فنون کی جمالیات (2014)، ادبی قدریں اور نفسیات،  ادب اور نفسیات، شعور اور تنقیدی شعور، راجیو گاندھی عقیدت کے چند پھول  (جولائی، 1991)، دربھنگے کا جو ذکر کیا، جیسی کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے۔  قرآن کریم ایک مقدس اور بابرکت کتاب ہے، کلام اللہ میں شکیل صاحب نے جو جمالیاتی پہلو تلاش کیے ہیں، ان کا بہت ہی خوبصورت انداز میں کوثر صاحب نے تعارف کرایا ہے۔ آخری باب ’شکیل الرحمن کا اسلوب نثر‘ ہے، اس تعلق سے کوثرمظہری لکھتے ہیں:

’’ہندوستانی فنکاروں کا جمالیاتی شعور بیدار  اور متحرک رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عہد میں فنون کی جمالیاتی سطح بلند رہی ہے، فنکار کا اپنا تجربہ بھی اہم رہا ہے اور اس کی وہ تخلیقی صلاحیت بھی اہم رہی ہے کہ جس سے عمدہ اور اعلیٰ جمالیاتی صورتوں کی تخلیق ہوئی ہے، ہر اچھی تخلیق کا ایک سماجی کردار موجود ہے جو سماج اور تہذیب کے تقاضوں کو نمایاں کرتا ہے، تخلیق محض موضوع کا جمالیاتی عکس نہیں بلکہ جمالیاتی موضوع بھی ہے، جمالیاتی صورت، سماجی تجربے کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچاتی رہی ہے، تخلیق کے رموز و اسرار کو سمجھنے اور جاننے کے لیے جہاں خارجی حالات پر نظر رہی ہے وہاں داخلی اقدار و عناصر کا بھی ایک گہرا شعور حاصل رہا ہے۔‘‘         (ایضاً، ص 99)

شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید کادائرہ بہت وسیع ہے چاہے وہ  ہندوستانی تناظر میں ہو یا عالمی ۔ انھوں نے اردو کے ساتھ فارسی کے شعرا کو بھی اپنی جمالیاتی حس سے تنقید کا پیراہن عطا کیا ہے۔ شکیل صاحب نے ہندوستانی تہذیب و تمدن اور اسلامی ثقافت کو بھی بہتر اور مؤثر انداز میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تنقید سے گفتگو کے اَن گنت زاویے اور دَر وا ہوتے ہیں، جن پر گفتگو کے لیے وقت اور مطالعہ دونوں بہت ضروری ہیں۔

پانچواں مونوگراف ’ جمیل مظہری‘ (اردو ڈائرکٹوریٹ حکومت بہار، 2022) ہے۔ جمیل مظہری کا تخلیقی کینوس وسیع سے وسیع تر ہے۔ جمیل مظہری بھی بنیادی طور پر شاعر ہیں، جنھو ں نے تمام اصناف شعری، نظم، غزل، مرثیہ، قصیدہ، قطعہ، رباعی میں طبع آزمائی کی۔ ان کے کچھ نثری نمونے بھی ملتے ہیں۔  مونوگراف سے پہلے کوثرمظہری نے ان کے کلام کا ایک انتخاب مرتب کیا ہے جو ’انتخاب کلام جمیل مظہری‘  کے نام سے ساہتیہ اکادمی سے2011  میں شائع ہوچکا ہے۔جمیل مظہری کی شخصیات اور ادبی خدمات کے تعلق سے مضامین پر مشتمل ان کی ایک کتاب ’مظہرجمیل‘ (2013) کے نام سے بھی شائع ہوچکی ہے۔ کوثر مظہری نے جمیل مظہری کے تعلق سے ایک سمینار منعقد کرایا تھا۔ ’مظہرجمیل‘  میں شامل مضامین اسی سمینار میں پڑھے گئے مقالے ہیں۔ البتہ چند دوسرے مضامین بھی انھوں نے اس کتاب میں شامل کرلیے تھے تاکہ اس کی افادیت بڑھ جائے۔

جمیل مظہری کے تعلق سے کوثر صاحب کی یہ تیسری کاوش ہے جسے انھو ں نے مونوگراف کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے چار ابواب: سوانحی کوائف، جمیل مظہری کے شعری کارنامے، جمیل مظہری کے نثری کارنامے، تخلیقی نگارشات کے تحت تقسیم کیا ہے۔

’جمیل مظہری کے شعری کارنامے‘  میں انھوں نے نظم نگاری، غزل گوئی، مرثیہ نگاری، قصیدہ نگاری،  مثنوی نگاری، رباعی گوئی کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ ’جمیل مظہری کے نثری کارنامے‘میں تنقید، افسانے اور طنزیات و فکاہات کے حوالے سے گفتگو ہے۔ ’تخلیقی نگارشات‘  میں 9 نظمیں ( شاعر کی تمنا، فسانۂ آدم، اپنا تعارف، فراق سی سالہ، رخصت، مریضِ محبت، مریضِ نفرت، اُسے بھول جا بھُلا دے، یہ کیا ہوا تم کو، ڈرو  خدا سے ڈرو)،  16  غزلیں، ایک مرثیہ (شامِ غریباں)،  2 مثنویاں(مثنوی آب و سراب، مثنوی ’از جہنم‘)، 1 قصیدہ (تضمین)  اور نثر کے حوالے سے (طوائف کی ضرورت متمدن دنیا میں:ایک زندہ دل فلسفی کے قلم سے) شامل ہے۔

پروفیسر کوثرمظہری نے ان کے تمام شعری اصناف پر ناقدانہ بحث کی ہے۔ انھوں نے ہر صنف پر مختصر مگر جامع انداز میں بات کی ہے۔ جمیل مظہری نے نظموں میں ویسے تو تقریباً ہر ضروری موضوع کو برتا ہے مگر انھوں نے فکر اور فلسفے کو خاص طور پر اہمیت دی ہے۔  بقول کوثرمظہری ’’وہ  ذرے ذرے میں اضطراب اور حرکت و عمل دیکھنا چاہتے ہیں یا ان کا نظریہ ہے کہ زندگی جمود میں نہیں بلکہ حرکت و عمل میں ہے۔ وہ نظام ہستی میں تکمیل کے بجائے تسلسل کے قائل ہیں۔ ‘‘ جمیل مظہری نے تقریباً ہر فارم میں نظمیں لکھی ہیں، کچھ نظمیں ان کی مختصر اور بہت سی نظمیں کافی طویل ہیں۔ ان کی کچھ نظموں کے ایک آدھ بند پیش کرکے ان کا مختصراً تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور جمیل مظہری کی فکریات سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔  جمیل مظہری گو کہ شاعری میں تمام اصناف کو برت چکے ہیں، مگر ان کا شعری میلان نظم ہی کی طرف رہا ہے۔ کوثرمظہری اس بابت رقمطراز ہیں:

’’اگر ہم جمیل مظہری کے تمام شعری سرمائے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ نظم کے شاعر ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ان کا شعری میلانِ طبع نظم ہی کی طرف رہا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ انھوں نے موضوعاتی نظمیں بہت کہیں اور طویل طویل مرثیے اور قصیدے بھی کہے۔ طویل مثنوی ’آب و سراب‘ بھی اس پر دال ہے کہ ان کی افتادطبع نظم کے عین مطابق تھی۔ ‘‘                               (ایضاً، ص 19)

جمیل مظہری کی شخصیت اور شاعری پر بہت سے نقادوں نے گفتگو کی ہے۔ زیادہ تر ناقدین نے ان کی شاعری کو اعلیٰ درجے کی شاعری تسلیم کیا ہے۔

شایدجمیل مظہری کے معیاری کلام کا ہی فیض ہے کہ ان کے بہت سے معاصرین جنھوں نے شہرت و بلندی میں ان سے زیادہ نام کمایا ہے، وہ بھی ان کی عظمت و رفعت کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ان کے معاصرین میں بہتوں سے ان کے اندازِ بیان کو اپنانے کی بھی کوشش کی، مگر جمیل مظہری کی عظمت کو وہ چھو بھی نہ سکے۔

چھٹا مونوگراف ’سردار جعفری‘ (مغربی بنگال اردو اکیڈمی،کولکاتا 2023) ہے۔  علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند تحریک کے عَلم برداروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر کام بھی کیا ہے۔اپنی شاعری کے ذریعے، وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی انقلابی اور حب الوطنی سے جڑی کئی ایسی نظمیں ہیں جس کے سبب وہ 1940 میں گرفتار بھی ہوئے تھے۔

سردار جعفری بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے  افسانے، ڈرامے اور فیچرز بھی لکھے ہیں۔ فلمی دنیا میں بھی ان کی خدمات ہیں۔ کئی فلموں میں لکھے ان کے گیت آج بھی گنگنائے جاتے ہیں۔ وہ ممبئی سے چھپنے والے سہ ماہی ’نیا ادب‘ کے مدیر بھی تھے۔ شیکسپیئر کی کچھ تحریروں کا اردو میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ انھیں ان کی خدمات کی وجہ سے 1967 میں پدم شری کا قومی اعزاز دیا گیا تھا۔

مونوگراف ’علی سردار جعفری‘ کو کوثر صاحب نے چار ابواب :سوانحی کوائف، شاعری، تنقید/دیگر نثری نگارشات اور انتخاب کلام میں منقسم کیا ہے۔  شاعری کے ضمن میں انھوں نے نظم نگاری اور غزل گوئی کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ نظم نگاری پر بحث ذرا طویل ہے کیونکہ انھوں نے اس باب میں ان کی شاعری کی ابتدا اور  شاعری کے موضوعات کا فکری و فنی جائزہ لیا ہے۔  سرداری جعفری نے اپنی شاعری میں سماج کے دبے کچلے اور حاشیائی طبقات کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ ’عورت‘ بھی ان کا خاص موضوع رہا ہے۔ جعفری صاحب کا ماننا ہے کہ عورتیں برسوں سے ظلم سہتی آرہی ہیں۔ انھیں طرح طرح کی بندشوں میں جکڑ کر گھر کی چہار دیواری میں مقید کردیا گیا ہے۔ انھیں وہ آزادی حاصل ہونی چاہیے جو مردوں کو حاصل ہے  تاکہ کسی بھی میدان میں وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ چل سکیں۔ کوثرمظہری ان کی نظموں کے موضوع اور مسائل کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’ سردار جعفری کی شاعری کے زیادہ تر موضوعات ہنگامی نوعیت کے ہیں مگر ان کا سیاسی وسماجی شعور نیز تہذیبی وثقافتی ویژن (vision) ہمیشہ بیدار نظرآتا ہے۔ انسانی زندگی اورتمدنی سروکار میں’عورت‘ کاکردا ربہت ہی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ سردار جعفری عورت کی پاکیزگی اور اس کے تقدس کا احتر ام کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں عورت مزدوروں کے بعد سب سے زیادہ مظلوم ومقہور رہی ہے۔ ترقی پسندوں نے بقول سردار، ان زنگ خوردہ زنجیروں کوتوڑا جو جھوٹی اخلاقی قدروں سے بنی تھیں۔ انھوں نے کرشن چندر کی کہانیوں گرجن کی ایک شام، شہتوت کا درخت، پورے چاند کی رات اور مجازکی نظموں نورا،عورت، پردہ اور عصمت، فیض کی نظموں ’رقیب سے‘ او ر’آج کی رات‘ کو دلکش اور پاکیزہ ادب قرار دیا۔اس کے برخلاف منٹو کی کہانی ’بو‘، راشد کی نظم ’انتقام‘ کوبیمار اور گھنونی چیزیں گردانتے ہوئے رجعت پرستی کاباعث بتایا۔(ایضاً، ص 14)

ایسا بھی نہیں ہے کہ عورت کے پیچیدہ مسائل اورموضوعات کو اردو ادب میں ان سے پہلے کسی نے برتا نہیں ہے۔ کم ہی تخلیق کار ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں اس حساس موضوع پر خاموشی اختیار کی ہوگی۔ خود علی سردارجعفری نے اپنی نظم ’ نئی دنیا کوسلام ‘ میں عورت کو مریم کے زمرے میں رکھا ہے۔ کوثر مظہری اس نظم میں مریم کے کردار کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’نئی دنیا کوسلام‘ ایک تمثیلی نظم ہے… شروع میں شاعر کو پوری کائنات اوراس کے تمام اجزا پر سیاہی کی چادر تنی معلوم ہوتی ہے… اسی سیاہی سے دو چہرے /کردار برآمدہوتے ہیں: جاوید اور مریم۔ یہ دونوں انقلاب کے خواہاں ہیں۔ دونوں میں عشق ہوتا ہے جو محض ہوس کاری کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کو روشن اورکامیاب کرنے کی غرض سے پروان چڑھتاہے…

سردا ر جعفر ی کے یہاں عورت کا وجود کئی جہتیں پیش کرتا ہے۔ ’نئی دنیا کوسلام‘میں ایک باغی اور انقلاب پسند’عورت‘ ابھر کر سامنے آ ئی ہے، کہیں کہیں سردار جعفری نے عورت کومحبوب بناکر پیش کیا ہے او رکہیں ’ماں‘کے روپ میں عورت نمودار ہوئی ہے…‘‘۔ (علی سردار جعفری، ص 14-15)

دوسرا ذیلی عنوان ہے’تنقید/ دیگر نثری نگارشات؟‘ اس ضمن میں ترقی پسند ادب، پیغمبرانِ سخن، اقبال شناسی، سرمایۂ سخن، لکھنؤ کی پانچ راتیں، افسانہ، ڈراما، مراسلہ وغیرہ پر مختصراً گفتگو کی گئی ہے۔  ’انتخابِ کلام‘ کے تحت: نومبر میرا گہوارہ، اودھ کی خاکِ حسیں، اردو، ایک خواب اور، تمھارا شہر، فریب، گفتگو، میرا سفر، ہاتھو ںکا ترانہ، پیاس کی آگ، جب بھی ترا نام لیا، جمہور کا اعلان نامہ، جنگ اور  انقلاب، سلام، چاند کو رخصت کردو، صبح فردا، رقص ابلیس، نئی نسل کے نام  اور آٹھ غزلیں شامل ہیں۔  نثری نمونے کے طور پر لکھنؤ کی پانچ راتیں سے ’دوسری رات‘ شامل ہے۔ اس مونوگراف میں بھی علی سردار جعفری کی شناخت کے جتنے بھی حوالے ہیں، سب پر مبسوط گفتگو کی گئی ہے۔ سردار جعفری کی شخصیت اور ادبی و سماجی خدمات کے حوالے سے یہ مونوگراف بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

کوثرمظہری کی تنقیدی نگارشات میں ان مونوگراف کو وہی عظمت حاصل ہے جو ان کی دیگر تنقیدی کتابوں کو ہے۔  ریسرچ اسکالرز کے لیے یہ مو نوگراف انمول تحفہ ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ ان سے قارئین، اساتذہ و طلبہ بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اوراس جانب اپنی توجہ بھی مبذول کریں گے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک مستند، معیاری اور بامعنی مونوگراف لکھنے میں دقت نظری کے ساتھ خون جگر بھی صرف کرنا پڑتا ہے۔

 

You may also like