’ربیع الاول‘ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ اس ماہ کو ربیع الاول اس لیے کہتے ہیں کہ ربیع کے ایک معنی بہار کے ہیں، اور چوں کہ اس مبارک مہینے میں خلاصۂ کائنات حضرت محمدﷺ کی ولادت وقوع پذیر ہوئی، اس لیے اسے موسمِ بہارکہا گیا۔ اس پر کسی کو یہ اشکال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ نام تو قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اور ولادتِ نبویﷺ سے پہلے بھی مہینوں کی یہی نام مشہور تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بھی تو اس مبارک گھڑی کے وقوع پذیر ہونے کا علم ازل سے تھا، اسی لیے یہ نام مشہور کردیے ۔
مومن کے لیے یہ ربیع کی خوشی ایک دن، تاریخ یا ایک مہینے کی خوشی نہیں، بلکہ ساری زندگی کی خوشی ہے، اس لیے کہ رحمۃ للعالمین نے پوری زندگی کو اپنے فیض کے نور سے منور فرما دیا ہے۔ آپ ﷺنے زندگی کے ہر ہر مرحلے میں سنت کی شکل میں وہ عطیہ امت کو عطا فرمایا ہے، جس کو زندگی میں رچا بسا لینے کے بعد مومن ہر وقت نبی کا قُرب محسوس کرتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جان جان کر سنتوں پر عمل کرے اور سننِِ نبویﷺ کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری کرے، اس کے بعد اس کے لیے زندگی کا ہر لمحہ ربیع اور بہار کا موسم ہے۔
جب وہ دن بھر کی تھکان سے چور ہو کر بستر پر آتا ہے اور سونے کی تیاری کرتا ہے، تو جس طرح رحمۃ للعالمین نے تعلیم دی ہے، لجاجت سے اپنے رب سے عرض کرتا ہے:اَللّٰھُمَّ قِنْیِ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ۔ (۳/مرتبہ)اور اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتَ وَاَحْییٰ- اے اللہ! جس دن آپ اپنے بندوں کو قبروں سے اٹھائیں گے، اس دن مجھے اپنے عذاب سے بچا لیجیے گا اوراے اللہ! میں آپ ہی کے نام کے ساتھ مرتا اور جیتا ہوں۔ [ابوداود]
جب صبح اس کی آنکھ کھلتی ہے تو چوں کہ وہ جانتا کہ نیند بھی گویا کہ آدھی موت ہے اور یہ اس ربِّ کریم کا کرم ہے کہ اس نے اس موت سے اٹھا کر پھر سے مجھے عمل کرنے کا ایک اور موقع عنایت فرمایا‘اس لیے وہ اللہ کا شکر کرنے لگتا ہے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْد مَآ اَمَا تَنَاوَ اِلَیْہِ النُّشُوْرُ- تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جس نے ہمیں موت کے بعد پھر زندہ کیا اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔[بخاری]
اس کے بعد جب اسے استنجا یا قضاےحاجت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ سر ڈھک کر سنت طریقے پر بیت الخلاکی طرف چلنے لگتا ہے تو بسم اللّٰہّٰ – شروع اللہ کے نام سے[عمل الیوم واللیلۃ]کہتا ہوا اپنے رب کو پکارتا اور جن خبیث شیاطین کے بیت الخلامیں ہونے کا رحمۃ للعالمین نے امکان ظاہر فرمایا ہے، ان سے اپنے رب کی اس طرح پناہ طلب کرتا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اِعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآءِث- اے اللہ! میں آپ کی پناہ لیتا ہوں شیاطین مرد اور شیاطین عورتوں سے۔[بخاری]
جب وہ قضاے حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلا سے باہر نکل آتا ہے تو پھر ایک شکر گزار بندے کی طرح زبانِ حال و قال سے دعا کرتا ہے: غُفْرَانَکَ- اے اللہ! میں آپ سے مغفرت کا طالب ہوں۔[ابن ماجہ] اَلْحَمْدَ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذیٰ وَعَافَانِیْ- تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جس نے تکلیف دہ چیز کو مجھ سے دور کردیا اور مجھے عافیت بخشی۔ [ابوداود] کیوں کہ وہ جانتا ہے، کہ مناسب وقت پر بغیر کسی تکلیف کے قضاےحاجت ہو جانا بھی اس ربِ کائنات کا عظیم احسان ہے، ورنہ اس کے لیے بھی بعض ڈاکٹروں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں کہ یا تو انھیں قضاےحاجت نہیں ہو تی یا وہ اس میں کچھ تکلیف محسوس کرتے ۔
سونے کے وقت لباس تبدیل کرکے سونابھی سنت ہے، مومن بندہ اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب صبح اٹھ نماز ادا کرنے کا موقع آتا ہے، تو اس کے لیے وہ مناسب لباس زیب تن کرتااور اپنے رب کو یاد کرتا ہوا کہتا ہے:اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہٖ وَخَیْرَمَا ھُوْلَہٗ، وَاَعُوْذُبِکَ مَنْ شَرِّہٖ وَشَرِّمَا ھُوَلَہٗ- اے اللہ! میں آپ سے اس کی خیر اور جس کے لیے یہ ہے، اس کی خیریت کا طالب ہوں اور میں آپ کی پناہ لیتا ہوں اس کے شر سے اور جس کے لیے یہ ہے، اس کے شر سے۔[بخاری]اگر اسے بالکل نیا لباس میسر آتا ہے تو اس نعمت پر ان الفاظ سے دعا کرتا ہے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ، اَسْئَلُکَ خَیْرَہٗ وَ خَیْرَ مَا صْنِعَ لَہٗ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہٖ وَ شَرِّمَا صُنِعَ لَہ- اے اللہ! تمام تعریفیں آپ ہی کے لیے ہیں، آپ نے ہی مجھے یہ پہنایا، میں آپ سے سوال کرتا ہوں‘ اس کی بھلائی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا اور آپ سے پناہ مانگتا ہوں اِس کے شر سے اور اُس کے شر سے ‘جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔[ترمذی]مومن بندہ لباس کی نعمت میسر آنے پر ہی اپنے رب کو یاد نہیں کرتا، بلکہ جب اسے ضرورت کے وقت لباس اتارنا ہوتا ہے، تب بھی اپنے رب کا نام لیتا اور اس کے معبودِ حقیقی ہونے کا یوں اقرار کرتا ہے: بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ- شروع اللہ کے نام سے جس کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں۔[الاذکار]
پھر جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کی تیاریوں میں لگتا ہے‘ جس کے لیے طہارتِ کاملہ اور وضو بھی شرط ہے، تو وہ وضو کی ابتدا میں اپنے رب کے حضور عرض کرتا ہے: بِسْمِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ للِّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ- شروع اللہ کے نام سے جو عظمت والا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اوپر دین اسلام کے۔[کشف الاسرار]چوں اللہ کے نیک بندے جانتے ہیں کہ نیکیاں کرنے سے انسان اپنے رب کے بہت قریب ہو جاتا ہے، اس لیے وہ وضو کرتا ہوا بھی آہستہ آہستہ اس طرح دعا گو رہتا ہے: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ، وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ، وَبَارِکْ لِیْ فِیْ رِزْقِیْ- اے اللہ! آپ میرے گناہوں کو معاف فرمادیجیے، میرے گھر میں وسعت دے دیجیے اور میری روزی میں برکت عطا فر ما ئیے ۔[الاذکار]اس کے بعد جب وہ حدثِ اکبر و اصغر سے طہارت حاصل کر چُکتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں اپنے ایمان واسلام کی گواہی دے کر ربِّ کریم سے یوں جود و کرم کا خواہاں ہوتا اور عرض کرتا ہے: اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ- میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کاشریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے اللہ!آپ مجھے خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک صاف رہنے والوں میں سے بنا دیجیے۔[ترمذی]
جب اذان کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں، تو وہ بھی اذان کا جواب دینے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جب مؤذن اذان سے فارغ ہو تا ہے، تو بندۂ مومن اس دعوتِ تامّہ کے بعد اپنے سگے باپ سے زیادہ شفیق نبی کے لیے یوں دعا گو ہوتا ہے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ، وَالصَّلٰوۃِ الْقَآئِمَۃِ، اٰتِ مُحَمَّدًا نِالْوَسِیْلَۃَ وَ الْفَضِیْلَۃَ، وَابْعَثْہٗ مَقَاماً مَّحُمَوْدَ نِ الَّذِیْ وَ عَدتَّہٗ،ِ انَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَاد- اے اللہ! اس دعوت تامہ اور قائم ہونے والی نماز کے رب، آپ حضرت محمد ﷺکو وسیلہ اور فضل عطا فرمایئے اور انھیں اس مقام تک پہنچا یئے‘ جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے اور بے شک آپ وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ [حصن حصین] پھر مومن بندہ سنتیں پڑھ کر گھرسے مسجد کی طرف جانے کے لیے نکلتا ہے، تو سب کچھ اس طرح اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے: بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، وَلاَ حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلّٰا بِاللّٰہِ- میں اللہ کے نام کے سہارے نکلتا ہوں، میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اور تمام طاقت و قوت اللہ ہی کے لیے ہے۔[ترمذی]
مومن بندہ جب کبھی گھر میں داخل ہوتا ہے، تو اپنے رب کا اس طرح نام لے کر ہی داخل ہوتا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللہِ خَرَجْنَا وَعَلَی اللہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا- اے اللہ میں آپ سے داخل ہونے کی بہتری اور نکلنے کی بہتری کا سوال کرتا ہوں، اللہ ہی کے نام سے میں داخل ہوا اور اللہ ہی کے نام سے نکلا، اور اللہ جو کہ ہمارے رب ہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا۔[ابوداود]
نیز جب وہ بارگاہِ رب العزت یعنی مسجد میں داخل ہوتا ہے، اس وقت بھی دربار کے تمام آداب بجا لاتا اور عاجزی کے ساتھ اپنے نبی پر درود پڑھتا اور یوں دعا کرتاہے: بِسْمِ اللہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ- اللہ کے نام کے ساتھ میں داخل ہوتا ہوں اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر۔[حصن المسلم]اَللّھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ- اے اللہ! آپ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجیے۔[مسلم] اور جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، دنیوی باتوں سے احتراز کرتا اور عبادات میں مشغول رہتا ہے اور پھر جب مسجد سے نکل کر دیگر ضروری کاموں میں مشغول ہوتا ہے، اس وقت بھی اللہ کا اس طرح فضل طلب کرتا ہے: بِسْمَ اللہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ- اللہ کے نام کے ساتھ میں نکلتا ہوں اور درودو سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر۔[حصن المسلم] اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ- اے اللہ! میں آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتا ہوں۔ [مسلم]
مومن بندہ صرف عبادات ہی میں نہیں بلکہ خورد و نوش تک میں اپنے رب سے دعائیں کرنا نہیں بھولتا، جب وہ کھانا شروع کرتا ہے تو کہتا ہے: بِسْمِ اللہِ وَعَلٰی بَرْکَۃِ اللہِ- شروع اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت پر۔[حصن المسلم]اگر کھانا شروع کرتے وقت کسی وجہ سے یہ دعا پڑھنا بھول جائے، تو یا یاد آنے پر فوراً یوں گویا ہوتا ہے : بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ- اللہ کے نام کے ساتھ (کھانا) شروع کرتا ہوں، (اسی کا نام ہے) اس کے شروع اور اس کے آخر میں۔ [ابوداود]جب کھانے سے سیر ہو جاتا ہے، اُس وقت بھی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنا نہیں بھولتا اور یوں دعائیں کرتا ہے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلْنَا مُسْلِمِیْنَ- تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور مسلمان بنایا۔[ابوداود] اور جب اس کے سامنے سے دسترخوان اٹھایا جانے لگتا ہے، تو وہ رزَّاق کا عاجز بندہ بن کر اس طرح اپنی بندگی و عاجزی کا اظہار کرتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً کَثِیْراً طَیِّبًا مُّبَارَکاً فِیْہِ، غَیْرَ مُوَدَّعٍ وَّلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبِّنَا- اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، بہت بہت اور بابرکت تعریفیں، اے ہمارے رب!نہ اس کھانے سے کفایت کی جاسکتی ہے اور نہ اس سے بے نیاز ہوا جاسکتا ہے۔[بخاری]
مومن پانی کا ایک گھونٹ بھی پیتا ہے، تو اس پر بھی اللہ کی تعریف کرنا نہیں بھولتا:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَطْعَمَنِیْ فَاَشْبَعْنِیْ وَسَقَانِیْ فَاَرْوَانِیْ- تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے مجھے کھلایا، میرا پیٹ بھرا، مجھے پلایا اور مجھے سیراب کیا۔[عمل الیوم واللیلۃ]اگر دودھ کی نعمت پینا نصیب ہو ، تو اس طرح دعا کرتا ہے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْہُ- اے اللہ! اس میں ہمارے لیے برکت عطا فرما اور ہمیں یہ نعمت مزید عطا فرما۔ [ابوداود]
اتنا ہی نہیں،مومن بندہ ہر غمی و خوشی میں اپنے رب کو اسی طرح یاد کرتا رہتا ہے، جس طرح اسے حبیبِ خدا نے تعلیم دی ہے، وہ کسی غمی یا خوشی میں اپنے رب سے اپنا تعلق کمزوں ہونے نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب کسی کو ہنستا دیکھتا ہے اسے بھی یوں دعا دیتا ہے: اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ- اللہ آپ کو خوش اور مسکراتا رکھے۔[حصن حصین] اگر کسی کو مصیبت میں مبتلا میں دیکھتا ہےتو خود پر اللہ کے احسانات کو یاد کرکے آہستہ سے کہتا ہے: اَ لْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّابْتَلَاکَ بِہٖ وَ فَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً- تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے اس (مصیبت سے) عافیت دی، جس میں تمھیں مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی۔ [ترمذی]
یہ روزمرہ کے چند مواقع کا ذکر ہوا، ورنہ حقیقی مومن تو وہی ہےجو زندگی کے ہر ہر لمحے میں اپنے رب کو یاد رکھتا اور اپنے نبیﷺ کی سنت پر عمل کرتا ہے،طوالت کا خوف مانع ہے، ورنہ تفصیل سے ذکر کیا جاتا۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ سے مومن کو عشق ہوتا ہے،اس لیے آپﷺ کی سنتوں کو وہ اپنی سانسوں میں بسائے رکھتا ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے نبی کی سنتوں کو اپنی پوری زندگی میں جاری کرتا ہے۔رحمۃ للعالمین تمام عالم کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے تھے، اسی لیے اُن کا نام لیوا بھی لوگوں کے لیے، انسانیت کے لیے، رحمت بن کر زندگی بسر کرتا ہے، ویسے بھی جو انسان، دوسروں کے لیے زحمت ہو، وہ کیوں کر رحمۃ للعالمین کا امتی کہلانے کا مستحق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس نکتے کو سمجھیں اور رحمۃ للعالمین کی سنتوں کو اپنائیں‘ نہ صرف عبادات میں، بلکہ معاملات، معاشرت اور اخلاقیات نیز زدگی کے ہر ہر شعبے میں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین