Home تجزیہ مولویوں کو فاضل کے زمرے سے نکالیں – محمد ہاشم خان

مولویوں کو فاضل کے زمرے سے نکالیں – محمد ہاشم خان

by قندیل

کل گوونڈی میں ایک مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑے ہوں گے۔دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مسجد میں امام ہیں، اذان بھی دیتے ہیں، خطبہ بھی دیتے ہیں، بچوں کو پڑھاتے ہیں اور مسجد کی صاف صفائی بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی میری دعوت لینا تو اتوار کو لینا کیوں کہ اس دن میری چھٹی ہوتی ہے۔ ہم نے کہا کہ اتوار کے دن پھر آپ کا کام کون کرتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ چھٹی کا مطلب یہ کہ اس دن بچوں کی پڑھائی نہیں ہوتی، باقی کام حسب معمول مجھے ہی کرنا ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ حضرت اتنے سارے کام کرنے کا مشاہرہ کیا ہے تو کہنے لگے کہ چودہ ہزار روپے۔انہوں نے بتایا کہ دو جگہ وہ ٹیوشن پڑھاتے ہیں جہاں سے ان کو چار ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ موصوف نے مزید بتایا کہ ان کے تین بچے زیر تعلیم ہیں۔ ایک بچہ کہیں باہر پڑھتا ہے اور اس کی فیس ساڑھے چار ہزار روپے ماہانہ ہے۔ دو بچے مدرسے میں پڑھتے ہیں اور ان کی فیس دو ہزار ہے۔ تعلیم کے علاوہ کے اخراجات اپنی جگہ۔ حضرت نے بتایا کہ ہاشم بھائی المیہ یہ ہے کہ ذمہ داران کو لگتا ہے کہ وہ زیادہ تنخواہ دے رہے ہیں۔میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ گزارہ کہاں ہوتا ہے، یہ مجبوری ہے اسے صبر بھی نہیں کہہ سکتے۔ لوگ اس سے بھی کم پیسے پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر میں نہیں کروں گا تو کوئی اور کرے گا اور مجھے ہر دم یہی خوف لاحق رہتا ہے۔ میں نے انہیں یہ سب چھوڑ کر کچھ اور کرنے کا مشورہ دیا تو کہنے لگے کہ اب آدھی سے زیادہ عمر تو صرف ہوگئی، اس کے علاوہ تو مجھے اور کوئی کام نہیں آتا، اب کسی اور شعبے میں ہم کو کون نوکری دے گا۔ رہی بات کچھ بزنس وغیرہ کرنے کی تو اس کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
یہ ایک کیس ہے اور پورے ہندوستان میں یقیناً ایسے ہزاروں معاملات ہوں گے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بازار جسے دنیا کہتے ہیں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول پر قائم ہے۔ ڈیمانڈ کم ہوگی اور سپلائی زیادہ ہوگی تو ظاہر سی بات ہے کہ چیز کی قدر بھی کم ہوگی۔ ہندوستان میں ہر سال مختلف اقامتی مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں بچے نکلتے ہیں۔ کوئی ٹھوس ڈیٹا تو میرے پاس نہیں ہے لیکن یہ ڈیٹا نکالنا کوئی مشکل امر بھی نہیں ہے بس چھ آٹھ دن کا تحقیق طلب کام ہے۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ آئیے ایک علاقہ لے لیتے ہیں۔ فرض کر لیں کہ پانچ ہزار آبادی والے علاقے میں آپ نے ایک مدرسہ اور تین مساجد قائم کئے۔ مدرسہ تو ایک ہی رہے گا اور مساجد کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوگا لیکن سات سال بعد اس مدرسے سے طلبا فارغ ہوکر میدان کارزار میں آنا شروع ہوجائیں گے۔ فارغین کی تعداد کم زیادہ تو ہوتی رہے گی لیکن بند نہیں ہوگی اِلا یہ کہ مدرسہ بند ہوجائے۔اب یہ جو تعداد ہے اس کی کھپت کہاں ہوگی؟ کیوں کہ مذکورہ علاقے میں تو ان کی ضرورت نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اب یہ پروڈکٹ بازار میں آئے گا اور بازار میں اور بھی علاقوں کے پروڈکٹ آئیں گے۔ چونکہ پیداوار استمراری ہے اور کھپت حسب تناسب نہیں ہے سو کھپت ایک حد تک ہوگی اس کے بعد بازار سیچوریشن پوائنٹ (نقطہ انجذاب) پر آ جائے گا۔ یعنی یہ کہ بازار اب اس سے زیادہ جذب نہیں کر سکتا اور چونکہ جذب نہیں کر سکتا اس لئے پیداوار لامحالہ یا بائی ڈیفالٹ فاضل کے زمرے میں چلی جائے گی۔ بازار میں مولویوں کی قدر و قیمت اس لئے نہیں ہے کہ وہ فاضل کے زمرے میں آگئے ہیں۔ اب اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ ان کی پیداوار بازار کے مروجہ اصول کے مطابق کم کی جائے یا پھر انہیں اس حساب سے تیار کیا جائے کہ مساجد و مدارس سنبھالنے والے ضرورت بھر افراد خود ہی چھٹ کر الگ ہوجائیں اور باقی فارغین دنیا و مافیہا میں مصروف کار ہوجائیں۔ ایسا کرنا بہت آسان ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوگا نہیں۔ کیوں کہ اس کے لیے مروجہ تعلیمی نصاب کا بوجھ کچھ ہلکا نیز عصر حاضر کے تقاضوں سے آہنگ کرنا ہوگا۔ فقہ، منطق، فلسفہ، اسماء الرجال سب کو پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ صرف انہیں بچوں کو ان تمام خصوصیات سے لیس کیا جائے جو مدارس و مساجد کے انصرام کے لیے لازمی ہیں، باقی بچوں کو بنیادی اسلامی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم سے مزین کرکے بازار کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر ایسا آپ نہیں کریں گے تو فارغین مدارس یا بہ الفاظ دیگر مولویوں کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ انبیا کے یہ وارث معاشرے کے لیے وبال جان بن جائیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like