Home تجزیہ محمد شمی کا لاجواب کھیل !۔شکیل رشید

محمد شمی کا لاجواب کھیل !۔شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں ’ محمد شمی ، محمد شمی ‘ کے نعروں کی گونج یقیناً اُن شرپسندوں کے کانوں کو بھلی نہ لگی ہوگی جنہوں نے چند سال قبل پاکستان کے خلاف ، ورلڈ کپ ٹی – ٹوینٹی کے مقابلے میں ، ہندوستان کی ہار کے بعد ، سر اٹھایا تھا ، اور ہمیشہ کی طرح ، ہار کا سارا ٹھیکرا محمد شامی کے سر پھوڑ دیا تھا ، کیونکہ وہ مسلمان ہیں ۔ ملک کو کئی کرکٹ مقابلےجتانے والے محمد شامی غدار کہے جا رہے تھے ، الزام لگ رہا تھا کہ انہوں نے پیسہ لے کر خراب گیند بازی کی ہے ، یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لیے پاکستان کو جتانے میں انہوں نے مدد دی ہے ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان کے خلا ف کھیلنے والی ہندوستانی ٹیم میں یہ واحد مسلم کھلاڑی تھے ، اگر ایک دو مسلم کھلاڑی اور ہوتے تو یہ کہا جاتا کہ میاں بھائیوں نے مل کر ہندوستان کو ہروا دیا ، یہ مسلمان غدار ہوتے ہی ہیں ۔ آج محمد شمی نے اپنی لاجواب اور مثالی گیندبازی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک اچھا کھلاڑی اپنی ٹیم کو جتانے کے لیے کھیلتا ہے ، اور کھیلتے ہوئے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا حریف اُس کا ہم مذہب ہے یا کوئی اور ۔ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں محمد شمی کی کارکردگی پر اگر نظر ڈالیں تو تحسین کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں گے ۔ ورلڈ کپ میں ہندوستانی ٹیم نے اب تک دس مقابلے کھیلے ہیں ، اور سب کے سب جیتے ہیں ، ان دس میں سے صرف چھ مقابلے محمد شمی کھیل سکے ہیں ، وہ بھی ہردِک پانڈیا کے زخمی ہونے کی بنا پر ، اور چھ مقابلوں میں انہوں نے ۲۳ وکٹیں لی ہیں ! اندازہ کریں کہ جو مقابلے وہ نہیں کھیل سکے ، اگر اُن میں ہوتے تو ان کے اعداد و شمار کس غضب کے ہوتے ! نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل کا مقابلہ یقیناً محمد شمی کی زندگی کا یادگار مقابلہ کہلائے گا ، انہوں نے ۷ وکٹیں صرف ۵۷ رن دے کر حاصل کیں ، لیکن اِن وکٹوں کا لینا نہیں ، ایسے وقت میں لینا جب دوسرے تمام گیندباز ناکام ثابت ہو رہے تھے ، اور یہ خدشہ تھا کہ ہندوستان کی ٹیم مقابلہ ہار جائے گی ، اور فائنل سے باہر ہو جائے گی ، اہم ہے ۔ ابتدا کی چاروں وکٹیں محمد شمی نے لیں ، اور کین ولیمسن اور ڈیرل مشل دونوں کو ایک ایسے وقت میں واپس پویلین لوٹایا جب اُن کا وکٹ پر رہنا ایک مسئٔلہ بن گیا تھا ۔ اور باقی کی تین وکٹیں بھی ایسے وقت لیں جب ہندوستانی ٹیم کو وکٹوں کی شدید ضرورت تھی ۔ کیا لاجواب گیندبازی تھی ، برسوں نہ بھلائی جا سکنے والی ۔ محمد شمی کے تعلق سے ایک بات یاد رہے کہ انہیں ایک ایسے موقع پر باہر بٹھائے رکھا گیا جب ان کا میدان میں موجود رہنا ملک کے لیے بھی ، اور خود ان کے لیے بھی ضروری تھا ۔ لیکن وہ ایک صابر کھلاڑی ہیں ، انہوں نے بغیر کسی چوں چرا کے ٹیم انتظامیہ کی مرضی کے آگے سر جھکایا ، حالانکہ ان کی جگہ جِن کھلاڑیوں کو مواقع دیے گیے تھے ، ان کی کارکردگی بُری رہی تھی ۔ وہ ایک ایسا موقعہ تھا کہ جب محمد شمی حوصلہ ہار سکتے تھے ، لیکن جیسے کہ انہوں نے نیوزی لینڈ پر جیت کے بعد کہا کہ ’ میں موقعے کا منتظر تھا ‘ ، اور جب موقع آیا تو انہوں نے اپنی قابلیت ثابت کر دی ۔ یہ ورلڈ کپ کئی لحاظ سے محمد شمی کے لیے یادگار رہا ہے ، ایک تو یہ کہ وہ ورلڈ کپ کرکٹ کے یک روزہ مقابلوں میں سب سے تیزی کے ساتھ ۵۰ وکٹ لینے والے پہلے کھلاڑی بن گیے ۔ صرف ۱۷ اننگ میں انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ۔ محمد شمی پر پاکستان کے خلاف کھیلے گیے جس مقابلے کے لیے زہریلی تنقید کی گئی تھی اس مقابلے پر نظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ ہندوستان کی ہار کا ایک بڑا سبب اس کی خراب بلے بازی اور پاکستانی گیند بازوں کی شاندار گیند بازی تھی ۔ سوائے اس وقت کے کپتان وراٹ کوہلی کے کسی بھی ہندوستانی بلے باز نے صبر و ضبط کے ساتھ بلے بازی نہیں کی تھی ۔ اس مقابلے میں آج کے کپتان روہت شرما صفر پر آؤٹ ہوئے تھے ۔ رشبھ پنت ۳۷ رن بنا کراچھا کھیل رہے تھے ، اچانک غیر ذمے داری سے اپنا وکٹ پھینک آئے ۔ ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی تھی ، کیوں ؟ وجہ چاہے جو رہی ہو ، لیکن سب جانتے ہیں کہ کھیل میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ بہترین بات یہ ہوئی کہ محمد شمی نے زہریلی باتوں کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیا ، اور محنت کرتے رہے ، جس کا نتیجہ اس شکل میں سامنے آیا کہ سارا اسٹیڈیم ’ محمد شمی ، محمد شمی ‘ کے نعروں سے گونجنے لگا ! ان کی پرفارمنس کو سلام ! اُس موقع پر بھی ملک کے کھلاڑیوں اور سیاست دانوں اور عام لوگوں نے محمد شامی کے حق میں آواز اٹھائی تھی ، اور آج بھی سب محمد شمی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ راہل گاندھی نے محمد شمی اور وراٹ کوہلی کو ان کی کارکردگی پر مبارک باد دی ہے ، مگر اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی وراٹ کوہلی کو مبارک باد دیتے ہوئے محمد شمی کو فراموش نہیں کیا !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like