Home تجزیہ محمد شمی کا نصف سجدہ !-شکیل رشید

محمد شمی کا نصف سجدہ !-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

پہلے یہ سطریں پڑھ لیں ؛
’’ آج کے کرکٹ میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے بعد جب ہندوستانی ٹیم کے مسلمان کھلاڑی محمد شامی سجدہ کرنے کے لیے جھکے تو جھکتے ہی کچھ سوچ کر مجبوری میں واپس کھڑے ہو گئے ۔ جی ہاں ، یہ وہ ڈر اور خوف کی کیفیت ہے جو ہندوستان کی ( کے ) مسلمانوں میں پائی جاتی ہے ۔ اس آٹھ سیکنڈ کی وڈیو نے ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار اور کیفیت کو ظاہر کر دیا ۔ ایک سجدہ چھوڑ کر غالباً شامی نے اپنا گھر مودی اور امیت شاہ کے بلڈوزر کی زد میں آنے سے بچا لیا ۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ بدترین حالات میں بھی کم از کم ہم پر اپنے دین اور مذہب پر چلنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی ۔ یہی دو قومی نظریہ تھا جو آج بھی ہر موقع پر درست ثابت ہوتا ہے ۔‘‘ یہ کسی پاکستانی فیس بُکی کی وہ پوسٹ ہے ، جو کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک مقابلے میں ، انڈیا کے ہاتھوں سری لنکا کی ٹیم کی ہار ، اور اُس ہار میں تیز گیند باز محمد شامی کی شاندار گیند بازی کے بعد وائرل ہوئی تھی ۔ چند پوسٹیں مزید تھیں جن میں یہی بات کہی گئی تھی ، بس کہنے کا انداز الگ الگ تھا ۔ میری نظر اس پوسٹ پر نہ پڑتی اگر اس پر فیس بُک کے ایک اچھے سے دوست مکرم نیاز کا ردعمل سامنے نہ آتا ۔ مکرم نیاز نے مذکورہ پوسٹ کا درست اور مثبت جواب دے دیا ہے ، لیکن اس پوسٹ پر چند باتیں مجھے بھی کہنی ہیں ، تاکہ یہ بتا سکوں کہ پوسٹ کی زبان اور سوچ کس قدر افسوس ناک ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ میدان پر مقابلے اللہ رب العزت کے لیے نہیں ہوتے ، ان کا تعلق کھلاڑیوں یا ملکوں کی ہار جیت سے ہوتا ہے ، اور مقصد ایک طرح کی تفریح ، لہذا ایسے مقابلوں میں مذہب کو درمیان میں لانے کا کوئی تُک نہیں ہے ! دوسری بات یہ کہ کون جانے سوائے اللہ کے کہ محمد شمی سجدہ کرنا چاہتے تھے ، یا نہیں چاہتے تھے ، یا انہوں نے نصف سجدہ کیا ! نہ پوسٹ لکھنے والے یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں ، اور نہ ہی محمد شمی کو آسمان کی جانب سَر اٹھا کر اپنے ہاتھوں کو آنکھوں پر لگاتے ، اور انہیں زمین پر بیٹھتے دیکھنے والے ۔ معاملہ محمد شمی اور اللہ کے بیچ کا ہے ، تو کیوں نہ اس معاملے کو اُن کے بیچ ہی رہنے دیا جائے ، کوئی ردعمل پیش کر کے کیوں تہمت کا خطرہ مول لیا جائے ۔ بہت ممکن ہے کہ پانچویں وکٹ لینے کے بعد محمد شمی جذبات سے کچھ ایسے مغلوب ہوئے ہوں کہ زمین پر بیٹھ گیے ہوں ! اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ محمد شمی نے ’ نصف سجدہ ‘ کیا ، تو کیا کوئی یہ وثوق سے کہہ سکے گا کہ اس نصف سجدے کو اللہ رب العزت نے قبول نہیں کیا ؟ یقیناً کوئی نہیں کہہ سکے گا ۔ اب رہی بات ہندوستان میں سجدے کی تو یاد رہے کہ ہندوستان میں سجدے بند نہیں ہوئے ہیں ، بھلے یہاں مودی کا راج ہو ، بھلے یوگی زہر بو رہے ہوں ، اور بھلے ماب لنچنگ کی جا رہی ہو ، نمازیں جاری ہیں ، اذانیں ہو رہی ہیں ، مسجدیں بھر رہی ہیں ۔ یقیناً بعض عوامی جگہوں پر ’ ہندتوادی ‘ عناصر عام لوگوں کو نمازوں کی ادائیگی سے روک رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود عبادتیں جاری ہیں ، ٹرینوں میں بھی اور اسٹیشنوں پر بھی ۔ عام لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ کون کس طرح سے اور کہاں عبادت کر رہا ہے ، سوائے ایک مخصوص نظریہ یا سوچ رکھنے والوں کے ، اور ان کا مقصد سیاسی ہے ۔ گویا یہ کہ مذہب کا درمیان میں لانے کا بنیادی مقصد سیاسی ہے تاکہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جا سکے ۔ اس کا کوئی تعلق ’ دو قومی نظریے ‘ سے نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایک قوم ہوکر بھی آپ ( پاکستانیوں ) نے کون سا تیر مار لیا ہے ! مسجدوں اور عبادت گاہوں میں دھماکے آپ کے یہاں ہوتے ہیں ، بچے اور عورتیں بم بلاسٹوں میں چیتھڑے آپ کے یہاں بنتی ہیں ، جوان لڑکیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیے آپ کے یہاں کیا نہیں کیا جاتا ! عصمتیں آپ کے یہاں محفوظ نہیں ہیں ، تو اگر آپ کے یہاں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مذہب ، مسلک اور ذات پات کی بنیاد پر قتل کر رہا ہے تو کہاں اللہ کو خوش کر رہا ہے ! محمد شمی نے اگر نصف سجدہ کیا ہے تو وہ آپ کے مکمل سجدے سے بہتر ہی ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like