چیتن بھگت
(انگریزی ناول نگار و صحافی)
[email protected]
تلخیص و ترجمہ: رئیس صِدّیقی
rais.siddiqui.ibs @gmail.com
بلا شبہ ہمارے سیاسی نیتاؤں کے چاروں طرف ہاں میں ہاں ملانے والے یس مین ہوتے ہیں اور وہ انہیں ہوشیار نہیں کرتے ہیں۔سچ کو چھپانے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں خوف یا نیتا کے وژن پر بھروسہ یا جوش کو کم نہ کرنے کا جذبہ وغیرہ شامل ہیں۔ہمارے ملک کی سیاسی قیادت بھی یس مین کلچرسے مبر ا نظر نہیں آتی۔موجودہ مودی حکومت کے چار اہم فیصلے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، آرٹیکل 370، اور اب شہریت ترمیمی قانون؛ یہ سبھی متنازعہ بنے ہوئے ہیں۔نوٹ بندی کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور اسکی وجہ سے ملک میں اقتصادی سُستی چھا گئی۔جی ایس ٹی کولاگو کرنا بھی ٹھیک نہیں رہا اور اس میں آج بھی پیچیدگیاں بنی ہوئی ہیں۔آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد،کشمیر میں انٹر نیٹ بند کرنا پڑا۔ (اب عدالت کے حکم کے بعد کشمیر کے کچھ علاقوں میں ٹوجی براڈ بینڈ شروع ہواہے) اس سے ایسا لگ رہا ہے کے وہاں حالات معمول پر نہیں ہیں۔
سب سے تازہ مسئلہ سی اے اے کا ہے،جس پر سرکار کے حساب سے غیر متوقع رد عمل ہو رہا ہے اور ملک بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔اس قانون کی مخالفت دو الگ الگ گروپ کر رہے ہیں۔ پہلے آسام کے باشندے ہیں، جو ایک بھی مہاجریا پناہ گزیں کو نہیں چاہتے ہیں،خواہ اسکا مذہب کچھ بھی ہو۔دوسرے وہ ہیں، جو نہیں چاہتے ہیں کہ سی اے اے میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز اور بھید بھاؤ ہو۔
ابھی اس قانون کا فائدہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیر مسلموں کو دیا گایا ہے۔ اس مضمون کا مقصد سی اے اے کی تشریح کرنا نہیں ہے۔ پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے کو مناسب وقت، اچھی عبارت اورعام رائے بنانے کے لئے باہمی رائے و مشورہ کی ضرورت تھی اور صا ف طورپر کہیں تو اچھے ارادے کی ضرورت تھی۔ حکومت اس قانون کو مذہب کے نام پر ستائے گئے مہاجرین و پناہ گزیں کے تئیں ہمدردی کا قدم بتا رہی ہے، حالانکہ اسے شمال مشرق کی آبادی، علاقائی سیاست کو سادھنے اور ووٹوں کو مینیج کرنے والی سیاست کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ان علاقوں میں بنگلہ دیشی مہاجرین کی بڑی آبادی ہے۔ ان میں ہندو-مسلمان دونوں ہیں۔ ہندو بھاجپا کو ووٹ دیتے ہیں اور مسلم نہیں دیتے ہیں، اسی لئے ہندو مہاجرین کو بسانے اور بھاجپا کے ووٹ بینک کومضبوط کرنے اور ووٹرس بڑھانے کا شاندار خیال ہے۔
بلا شبہ، آسام کے لوگ نہ تو بنگلہ دیشی ہندوؤں کو چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں کو۔ اور یہی اہم نقطہ اس پورے فسانے سے غائب ہے۔ طالب علموں (اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے عام شہریوں) کی جانب سے اس قانون کی مخالفت میں ہو رہے مظاہروں اور اسکودبانے کی تصویروں سے سرکار کی امیج مسخ ہو رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بھاجپا کے ہر بڑے قدم کی مخالفت سے صاف ظاہر ہے کہ فیصلوں پر عمل در آمد کے طریقہئ کار میں کہیں کچھ گڑ بڑ ہے اور ایک عرصہ کے بعد بھاجپا کے اس قدم پر ایسے مظاہرے ہو رہے ہیں۔در حقیقت ہندو مسلم سماجی تانے بانے کے ساتھ بار بار چھیڑ چھاڑ بھارت جیسے دیش میں کبھی بھی ایک اچھا آئڈیا یا عمل نہیں رہا ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ بھاجپا اپنے ووٹروں کو خوش رکھنے کے لئے ہندو نواز سرگرمیوں کو انجام دے رہی ہے، تو بھی وقت،عبارت اور اس میں شامل فائدے اور خطرے کے اعتبار سے سی اے اے مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔ وقت کے پس منظر میں دیکھیں تو ہندومسلم جیسے ایشوزکو کبھی کبھار ہی چھیڑنا چاہئے۔ آئیڈیل طور پر دو سال میں ایک بار۔ اسکے بر عکس یہاں ( ۹۱۰۲ کی دوسری ششماہی،جولائی میں طلاقِ ثلاثہ قانون اور) اگست میں جموں و کشمیرسے آرٹیکل 370 کو ختم کرنا، نومبر میں عدالت کی طرف سے رام مندر کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں آنا اور ا ب پھرسرکار کی طرف سے سی اے اے قانون کا نافذ ہونا!
یہی وجہ ہے کہ سی اے اے پر ایسا شدید رد عمل سامنے آیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو لگ رہا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے جلدی جلدی ایک کے بعد دوسرا فیصلہ لے کرانہیں کنارے لگایا جا رہا ہے۔کیا بھاجپا کو نہیں معلوم کہ ہماری معاشی ترقی کی شرح گذشتہ چھ برسوں میں سب سے کم ہے؟کیا بی جے پی نہیں جانتی کہ ہندو مسلم سماجی تانے بانے کو چھیڑنے سے سرمایہ کارو ں پرمنفی اثرپڑ رہا ہے اور اس سے ہماری ترقی متاثر ہو رہی ہے؟کیا بھاجپا کو نہیں معلوم کہ آج ہمیں ہماری اقتصادی صورت حال بہتر ہونے کی خبر پر مبنی ایک نمایاں سرخی، ہیڈ لائن کی سخت ضرورت ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)