ترجمہ:نایاب حسن
’’جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو 70 مسلم برادریوں کو او بی سی کے طور پر ریزرویشن ملتا تھا؛ لیکن میں نے کبھی اس کی تشہیر نہیں کی۔‘‘
یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے، جو انھوں نے 9 فروری 2022 کو نیوز ایجنسی اے این آئی کو اپنے انٹرویو میں دیا تھا۔ ’مسلم مخالف‘ ہونے کے الزام کے جواب میں انھوں نے مسلمانوں کی او بی سی ذاتوں کو ریزرویشن دینے کی پالیسی کا سہارا لیا تھا ؛لیکن جیسے ہی لوک سبھا انتخابات کا آخری دور قریب آیا ہے، پی ایم مودی نے پسماندہ مسلمانوں کو ملنے والے اس ریزرویشن کے خلاف گویا جنگ چھیڑ دی ہے، وہ اسے او بی سی کوٹے میں’ڈاکہ ڈالنے ‘سے تعبیرکر رہے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے کئی دوسرے لیڈر بھی اس ’مسلم ریزرویشن‘ کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
ایسا کرکے وزیر اعظم مودی اور ان کی ٹیم دراصل منڈل کمیشن کی مخالفت میں جاکھڑی ہوئی ہے۔ مجاہدآزادی اور بہار کے ساتویں وزیر اعلیٰ بی پی منڈل نے 1979 میں او بی سی ذاتوں کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی، ان میں مسلم پسماندہ ذاتوں کو بھی جگہ دی گئی تھی، نہ صرف بائیں بازو کے لوگ؛ بلکہ وویکانند جیسے عظیم ہندو مفکر بھی مانتے ہیں کہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کا ہندوستان میں تبدیلیِ مذہب میں بڑا کردار رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں میں ایک ہی پسماندہ ذات پائی جاتی ہے، مذہب تبدیل کرنے سے ان کی پسماندہ ذات کی شناخت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی پسماندگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے منڈل کمیشن نے مسلمانوں کی او بی سی ذاتوں کو بھی اپنی فہرست میں شامل کیا تھا۔
وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی انتخابی مہم براہ راست منڈل کمیشن کو چیلنج کر رہی ہے اور ان خدشات کو سچ ثابت کر رہی ہے، جن کا اظہار محمد علی جناح نے پاکستان کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کیا تھا۔ جناح نے کہا تھا کہ آزاد ہندوستان پر اکثریتی ہندوؤں کی حکومت ہوگی اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔’آئیڈیا آف انڈیا‘ جسے مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور مولانا آزاد نے جناح کے استدلال کو رد کرتے ہوئے پیش کیا تھا، اس میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔ آئین مرتب کرتے وقت ڈاکٹر امبیڈکر نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی بھی ذات یا مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کسی کے شہری حقوق زیادہ یا کم نہ ہوں، مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو بھی وہی شہری حقوق حاصل ہوں، جو اکثریت کو حاصل ہیں۔
او بی سی ریزرویشن میں مسلم پسماندہ ذاتوں کو شامل کرنا اب ایک آئینی شق ہے، یہ بندوبست آئین کے آرٹیکل 16 (4) کے تحت کیا گیا ہے، مرکز کی او بی سی فہرست میں مسلمانوں کی 36 ذاتوں کو زمرہ 1 اور 2A میں شامل کیا گیا ہے، جنھیں ریزرویشن کا فائدہ ملتا ہے۔ یہی نہیں، 1992 میں اندرا ساہنی کیس میں مرکزی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی سماجی طبقہ پسماندہ ہے، تو اسے پسماندہ طبقہ ہی سمجھا جائے گا، چاہے اس کی مذہبی شناخت کچھ بھی ہو۔
وزیر اعظم مودی کا’او بی سی مسلم ریزرویشن مخالف‘ موقف حیران کن ہے؛ کیونکہ مرکزی سطح پر منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر 36 مسلم ذاتوں کو ریزرویشن دیا جاتا ہے اور پی ایم مودی نے اپنے دس سال کے دور اقتدار میں کبھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ مخالفت کو تو چھوڑیں، اس پر نظر ثانی کا سوال بھی بی جے پی کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سماجی انصاف کے حوالے سے کانگریس کی طرف سے اعلان کردہ واضح پالیسیوں نے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے سیاسی اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ راہل گاندھی جس طرح سماجی و معاشی ذات پات کی مردم شماری کرانے اور ’جتنی آبادی اتنا حق ‘ کا نعرہ دے رہے ہیں، وہ دلتوں، قبائلیوں اور او بی سی ذاتوں کو کافی اپیل کر رہا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے انتخابی حکمتِ عملی بنانے والے او بی سی کے ذہنوں میں مسلمانوں کا خوف پیدا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور یہ بھرم پھیلا رہے ہیں کہ اگر کانگریس جیت جاتی ہے، تو ان کا کوٹہ کاٹ کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔ یہ مذہبی پولرائزیشن کے ذریعے سماجی انصاف کی لڑائی کو بے اثر کرنے کی حکمت عملی ہے، جس میں بی جے پی ماضی میں کئی بار کامیاب رہی ہے۔
بی جے پی جس طرح لوک سبھا انتخابات جیتنے کے لیے اقلیت ، خاص طور پر مسلم مخالف مہم چلا رہی ہے، اس نے آئینی اقدار اور جدوجہد آزادی کے دوران کے عہدوپیمان اور قراردادوں کو داغ دار کردیا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ مہم براہ راست وزیراعظم کے عہدے پر فائز شخص کی قیادت میں چلائی جارہی ہے اور پوری دنیا اس کا نوٹس لے رہی ہے۔
ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا مسلسل یہ ڈھول پیٹ رہا ہے کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان کی حیثیت ’وشو گرو‘ کی ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے کہنے پر روس اور یوکرین کی جنگ بند ہو یا نہ ہو یا اسرائیل غزہ کی پٹی پر بمباری بند کرے یا نہ کرے ؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے مسلسل پانچویں سال ہندوستان کو ’خاص تشویش ناک ملک (سی پی سی)‘ کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے، ’ جہاں منظم طریقے سے مذہبی آزادی کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں‘۔ یہ کمیشن بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (IRFA) کے مطابق قائم کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بہت سے بین الاقوامی گروپ امریکی حکومت سے اس سفارش کو قبول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؛ کیونکہ مودی کی قیادت میں اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے۔
اب انتخابات کا صرف ایک مرحلہ باقی ہے اور وزیر اعظم کی زبان’مغل، مچھلی، منگل سوتر‘ سے ہوتی ہوئی ’مجرے‘ تک پہنچ گئی ہے، یہ ان کی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں بے روزگاری، مہنگائی یا کسی اور محاذ پر نمایاں کامیابیوں کو شمار کروانے کی بجاے (جنھیں شمار کروانا واقعی مشکل ہے)، پی ایم مودی عوام کو اپوزیشن بالخصوص کانگریس سے ڈرانے میں مصروف ہیں، گویا کانگریس نے اس ملک پر کبھی حکومت نہیں کی یا کی، تو اس کا کام لوگوں سے منگل سوتر یا بھینس چھیننا تھا، مودی کے یہ بیانات عوام میں لطیفے کی طرح استعمال ہورہے ہیں ؛کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کانگریس نے اپنی انتھک کوششوں سے ملک کی آزادی کو ممکن بنایا اور ہندوستان میں’شرعی قانون‘(جیسا کہ یوگی آدتیہ ناتھ اور امیت شاہ کو خدشہ ہے) نہیں؛ بلکہ ڈاکٹر امبیڈکر کے مرتب کردہ آئین کو نافذ کیا ۔
سچ تو یہ ہے کہ آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے، او بی سی ریزرویشن کی سفارش کرتے ہوئے ذات نہیں؛ بلکہ سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہونے کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں او بی سی میں شامل ذاتوں کی فہرست مختلف ہے، کچھ جگہوں پر، کچھ برہمن ذاتوں کو بھی او بی سی سمجھا جاتا ہے اور بہار جیسی ریاست میں، ویشیا برادری کی تمام ذاتیں او بی سی کی فہرست میں شامل ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کانگریس، جس پر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے، اس نے 2007 میں دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو درج فہرست ذات(ایس سی) کا درجہ دینے کی جسٹس رنگناتھ مشرا کی سفارش کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، وہیں جس کرناٹک میں بی جے پی مسلم ریزرویشن کو ایشو بناتی ہے، اسے ایچ ڈی دیوے گوڑا نے اس وقت نافذ کیا تھا، جب وہ وہاں کے چیف منسٹر تھےاور اِس وقت بی جے پی کے حلیف ہیں۔ اسی طرح این ڈی اے اتحاد میں شامل تلگو دیشم پارٹی آندھرا میں کھلے عام پانچ فیصد ریزرویشن کا اعلان کر رہی ہے اور بی جے پی یا مودی جی خاموش ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ محروم شہریوں کو آگے بڑھانے کی کوششوں سے ملک مضبوط ہوتا ہے، اگر کوئی کمیونٹی پسماندہ ہے، تو اسے آگے بڑھانے میں ریزرویشن مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ آزادی کے بعد اب تک کا 77 سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ ریزرویشن ایک خاموش انقلاب ہے، جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں، اس کی وجہ سے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات میں مڈل کلاس ابھرا ہے، ان کمیونٹیز کی بڑھتی ہوئی قوتِ خرید نے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو تقویت پہنچائی ہے، اگر اقلیتی برادری کی پسماندہ ذاتوں کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس ’مثبت اقدام‘ کا فائدہ ملتا ہے، تو اس سے پورے ہندوستان کو فائدہ ہوگا۔ اسے سیاسی تنازع یا پولرائزیشن کا مسئلہ بنانے والے کچھ بھی ہوسکتے ہیں، ہندوستان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔