Home تجزیہ مودی ، میڈیا اور جو بائیڈن !-شکیل رشید

مودی ، میڈیا اور جو بائیڈن !-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

مودی حکومت نے جی 20 اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن کو جو بات نہیں کہنے دی ، وہی بات انہوں نے ویت نام میں کہہ دی ! جی ! امریکی صدر نے یہ کوشش کی تھی کہ وہ اپنی اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان دوطرفہ ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے گفتگو کریں ، اور اس میں مودی بھی شریک رہیں ، اور اگر مودی کی شرکت ممکن نہ ہو تو اکیلے ہی میڈیا سے گفتگو کریں ، نہ سہی ہندوستانی میڈیا سے امریکی میڈیا سے ہی سہی ، لیکن انہیں اکیلے بھی بات چیت نہیں کرنے دی گئی ۔ امریکی میڈیا تک سے بھی نہیں ، جو ان کے ساتھ امریکہ سے ہی آیا تھا ۔ لیکن جو بائیڈن جب ویت نام پہنچے تو وہاں انہوں نے میڈیا سے بات کی ، اور جس بات سے ڈر کر انہیں نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا تھا ، وہی بات وہاں کہہ دی ۔ کیا تھی وہ بات ؟ ہنوئی کی پریس کانفرنس کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوئی ہیں ، اور الیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا پر بھی آئی ہیں ۔ بات بظاہر سیدھی سادی لگتی ہے ؛ جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے احترام کا مسئلہ اٹھایا ۔ بائیڈن کے الفاظ تھے ، ’’ جیسا کہ میں ہمیشہ کرتا ہوں ، میں نے مودی کے ساتھ انسانی حقوق کے احترام کی اہمیت اور ایک مضبوط اور خوشحال ملک کی تعمیر میں سول سوسائٹی اور آزاد پریس کے کردار کو اٹھایا ۔‘‘ ان جملوں میں ایسی کیا بات ہے کہ مودی حکومت نے جو بائیڈن کو میڈیا سے گفتگو نہیں کرنے دی ! انسانی حقوق کے احترام ، پریس کی آزادی اور خوشحال ملک کی تعمیر میں سِول سوسائٹی کے کردار کی بات تو مودی کی یہ حکومت کہتی چلی آ رہی ہے ! اسی جی 20 کے اجلاس میں ہندوستان اور امریکہ نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا ، اس اعلامیہ میں بھی آزادی ، جمہوریت ، انسانی حقوق ، تکثیریت اور تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع کی بات کی گئی تھی ۔ پی ایم مودی نے خود اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ہمیں اپنی تمام ذمہ داریوں کو انسانوں پر مرکوز رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ پھر جو بائیڈن کو ہندوستان میں میڈیا سے بات کرنے سے کیوں روکا گیا ؟ امریکی صدر کو میڈیا سے بات کرنے سے روکے جانے کی خبر ساری دُنیا میں پھیلی ، اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے ہندوستان کی ساکھ ، جو پہلے ہی سے متاثر ہے ، مزید متاثر ہوئی ۔ یہ سوال کئی جگہ اٹھایا گیا کہ آخر پی ایم مودی کیوں میڈیا کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں ؟ اس بار تو یہ کہہ کر پی ایم مودی پر طنز بھی کیا گیا کہ ’ نہ پریس کانفرنس لوں گا نہ لینے دوں گا ‘ ! لوگوں کو خوب یاد ہے کہ امریکہ کے اپنے دورے میں پی ایم مودی مشکل سے میڈیا کا سامنا کرنے کو راضی ہوئے تھے ، بلکہ یہ شرط رکھی تھی کہ ان سے صرف دو سوال ہی کیے جائیں ۔ اور جب ’ وال اسٹریٹ جنرل ‘ کی وائٹ ہاؤس کَور کرنے والی خاتون صحافی سبرینا صدیقی نے اُن سے ہندوستانی جمہوریت اور اقلیتوں کے مسائل پر سوال کیا تھا ، تو پی ایم نے جواب دیا تو تھا ، مگر سیدھا جواب نہیں دیا تھا ۔ پی ایم مودی دراصل میڈیا کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ گزشتہ نو برسوں کے دوران انہوں نے کسی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ، ہاں اپنے کچھ منتخب صحافیوں اور نیوز چینلوں سے گفتگو کی ، اور جن سوالوں کے جواب دیے اُن میں سوال کیے گئے تھے کہ ’ آپ آم چوس کر کھاتے ہیں یا کاٹ کر ؟‘ یا یہ کہ ’ آپ تھکتے کیوں نہیں ہیں ؟ ‘ وغیرہ ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پی ایم مودی آزادیٔ صحافت کی ، انسانی حقوق کی اور تکثیریت کی باتیں کر تو سکتے ہیں لیکن ان موضوعات پر اخباری نمائندوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے ۔ جواب نہ دے سکنے کی وجوہ سامنے ہیں ، بھلے بات آزادیٔ صحافت کی کی جائے مگر سچ یہ ہے کہ یہاں صحافت کی آزادی کا دَم گھونٹ دیا گیا ہے ، بات انسانی حقوق کی کی جا سکتی ہے ، لیکن منی پور کی حیوانیت پر ، میوات کے تشدد پر ، کسانوں کے احتجاج پر ، پہلوان بیٹیوں کی بے عزتی پر ، سی این این کے خلاف شاہین باغ سمیت دہلی اور اترپردیش کے مظاہروں اور احتجاجات کو روکنے کے لیے استعمال کیے گئے غیرآئینی اقدامات پر ، بڑی تعداد میں حقوق انسانی کے کارکنان کی گرفتاریوں پر ، مسلم فرقے کے مذہبی اور تعلیمی معاملات میں دخل اندازی کرنے اور ان کے مذہبی مقامات کو عدالتوں میں لے جانے والوں کی حمایت کرنے پر ، فسادات پر ، دلتوں ، پچھڑوں اور آدی واسیوں کی حقوق کی پامالیوں پر اور ایسے ہی بے شمار غیر جمہوری اقدامات و سرگرمیوں پر وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ ان کے پاس جواب ہیں ہی نہیں ۔ جو بیڈن اگر ہندوستان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ، بھلے امریکی میڈیا ہی سے کرتے ، بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھی سوال کیے جاتے اور آزادیٔ صحافت پر بھی سوال کیے جاتے ۔ یقیناً پی ایم مودی جی 20 اجلاس کے موقع پر رنگ میں بھنگ پڑنے سے بچنا چاہتے ہوں گے ۔ لیکن کیا کوئی بات اس جدید ترین دور میں کسی سے چھپی رہ سکتی ہے ؟ پی ایم مودی نے جو کچھ کیا اور کر رہے ہیں ساری دنیا جانتی ہے ۔ چونکہ یہ سارے اقدامات جمہوری نہیں کہے جا سکتے ہیں ، اسی لیے وہ میڈیا کے سامنے آنے اور جواب دینے سے گھبراتے ہیں ۔ قصور کسی اور کا نہیں ، خود ان کا ہی ہے ۔ نہ ان کے راج میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوتیں ، نہ انہیں میڈیا سے منھ چھپانا پڑتا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like