Home تجزیہ مودی اپنے وزیر داخلہ کو تبدیل کردیں گے؟

مودی اپنے وزیر داخلہ کو تبدیل کردیں گے؟

by قندیل

 

عبدالعزیز / رام چندر گوہا
بھارتیہ جنتا پارٹی میں دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اور دہلی کے فساد میں سرکار کی ناکامی سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پولس کمشنر کے پر کترے گئے۔ دوسرے شخص کو اسپیشل پولس کمشنر کے عہدے پر بٹھایا گیا، پھر دہلی کا پورا چارج قومی دفاع کے صلاح کار اجیت ڈوبھال کو دے دیا گیا۔ یہ دونوں کام وزیر اعظم نے ہی کیا ہوگا۔ اس میں وزیر داخلہ کا کتنا دخل ہے کہنا مشکل ہے۔ ممتاز صحافی آسو توش کا کہنا ہے کہ امیت شاہ سے کویا تو حاشیہ پر لاکھڑا کر دیا گیا یا دہلی کے نظم و نسق کو پٹری پر لانے کی ایسی کوشش کی گئی ہے۔
آج (29فروری) مشہورکے تاریخ داں رام چندر گوہا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا ہے۔ "The home minister must be replaced, but that is unlikely to happen.” (وزیر داخلہ کو بدلنا ضروری ہے مگر ایسا شاید ہی ہو- نظریاتی تعلق مانع ہوگا)۔
مسٹر رام چندر لکھتے ہیں کہ ”جیسے ہی نریندر مودی 2019ء کے انتخاب میں کامیاب ہوئے میں نے اپنے ایک کاروباری دوست سے جو اپنی تجارت کو ٹیکنیکل جدت کاری سے ترقی دی اور جو غیر متعصب ہے اور سیاست دانوں سے احتراز کرتا ہے، بات چیت کی جس کا میں معترف ہوں، حلف وفاداری سے پہلے میرے کاروباری دوست کو بڑی بے چینی تھی کہ کابینہ میں کن لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ دوسری بار کے الیکشن میں بھی کامیابی کا سہرا امیت شاہ کے سر باندھا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر کے بجائے حکومت میں کوئی بڑا عہدہ سنبھالیں گے، مگر کون سا عہدہ ان کو دیا جائے گا اس پر قیاس آرائی زوروں پر تھی۔ عام طور پر یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ انھیں وزیر خزانہ کا عہدہ سونپا جائے گا۔ اس سے میرے کاروباری دوست کو بیحد اضطراب اور بے چینی تھی کیونکہ امیت شاہ کے اندر جارحیت اور لا ابالی پن ہے۔ وہ کب کیا کریں گے کہنا اور سمجھنا مشکل ہے۔ ملک کی معاشی حالت بدتر ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ایسے وقت میں امیت شاہ جیسے شخص کو وزیر خزانہ بنانے کی بات سے میرے دوست اور دیگر کاروباری لوگ بیحد پریشان تھے۔
آخر کار امیت شاہ کو وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ اس سے کاروباری دنیا کے لوگوں کو راحت ملی۔ ناتجربہ کاری کے باوجود نرملا سیتا رمن کے بارے میں ان لوگوں نے سوچا کہ وہ کم خراب ثابت ہوں گی“۔
تاریخ داں رقمطراز ہیں کہ ”مجھے امیت شاہ کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پہلے سے ہی ہیں۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت ہے۔ الیکشن لڑانے کی بھی قابلیت ہے مگر الیکشن میں کامیابی اور ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کے حق کی ادائیگی اور ذمہ داری بالکل دوسری چیز ہے۔ ایک ایسا متعصب شخص جو اقلیت کا کھلا دشمن ہو اس پر لوگ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟میرے اندر یہ احساس تھا۔ امیت شاہ ایک اچھے یا خراب وزیر خزانہ ہوسکتے تھے، یہ ایک قیاس آرائی تھی مگر اس وقت وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا وزیر داخلہ ہونا تباہ کن ثابت ہوچکا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو ہٹانا اور شہریت کیلئے سیاہ قانون سازی سے ہندستان کی سوسائٹی کو دو حصوں میں بانٹ دینا تباہی کو دعوت دینا ہے۔
یہ کہنا کہ دفعہ 370 کے ہٹانے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی یہ ایک خواب و خیال کی بات تھی۔ جو لوگ بھاجپا کی تاریخ اور پالیسی سے واقف ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر جیسا مسلم اکثریتی علاقہ ان کی نظر میں کھٹکتا تھا جسے وہ کمزور و کمتر کرنا چاہتے ہیں۔ ’سی اے اے‘ کو انھوں نے ہندو/مسلم کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے بنایا ہے۔ باہر کے تین ملکوں سے مذہبی ایذا رسانیوں سے عاجز غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات ایک بہانہ ہے۔ اصل میں مسلمان ان کا نشانہ ہے کہ ان کو کیسے ستایا اور پریشان کیا جائے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے بار بار ’این آر سی‘ کے نفاذ کی باتیں ہوئیں اور بعد میں سی اے اے کے نفاذ کے متعلق تکرار سے باتیں دہرائی گئیں جن سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس شدت کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلمانوں نے کالے قانون کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔ خاص طور پر مسلم خواتین مردِمیدان بنیں اور ملک بھر میں یہ تحریک زوروں سے چل پڑی اور مقبول عام ہوگئی۔ اس تحریک میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی قابل لحاظ حدتک شریک ہونے لگے ہیں۔ یہ تحریک اتنے زوروں پر ہوگی اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اتنی زبردست ہوجائے گی مودی اور شاہ کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ میں مگن تھے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے بیرون ملک ہندستان اور سرکار کی زبردست بدنامی ہورہی ہے۔ سی اے اے سے بھی بیرونی ممالک ناخوش ہیں اور مذمت و مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ ملک بھر میں اس احتجاج کی مقبولیت ہورہی ہے اور دھرنا تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وزیر اعظم کی ضد ہے کہ وہ ایک انچ بھی ’سی اے اے‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر وہ فرماتے رہتے ہیں کہ ان کا ’این آر سی‘ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے برعکس ان کے وزیر داخلہ کا رخ کچھ اور ہے۔ وہ سی اے اے پر بضد ہیں اور این آر سی سے بھی سی اے اے کا تعلق ہے اس پر اپنی رایوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
دسمبر 2019ء کے آخری ہفتہ میں یہ بالکل عیاں ہوگیا تھا کہ CAA (شہریت ترمیمی قانون) hot potato (شکل اور پیچیدہ) ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہوتا گیا“۔
مسٹر رام چندر گوہا آگے لکھتے ہیں کہ ”میں نے ایک دانشور سے جو سرکاری افسر رہ چکا ہے جو ہندستان کی تاریخ جدید پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ایک لمبی گفتگو کی جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی شخصیت اور دونوں کے تعلق پر ایک اچھا خاکہ پیش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے تعلقات کچھ ایسے ہیں جیسے ماضی میں جواہر لعل نہرو اور کرشنا مینن کے تھے۔ دونوں میں ایک نظریاتی تعلق تھا اور ذاتی لگاؤ بھی تھا۔ دونوں سماج وادی جمہوریت پسند (Democratic Socialist) تھے۔ دونوں فطری طور پر امریکہ کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کرشنا مینن نہرو کی نازک حالات میں ایک ادبی ایجنٹ کی حیثیت سے کتاب وغیرہ فراہم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ 1930ء میں ان کی کتابوں کی اشاعت کیلئے یورپ کا دورہ بھی کیا تھا۔
آزادی کے بعد کرشنا مینن نے امریکہ میں سفیر ہند کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد بیرون ملک خاص طورسے اقوام متحدہ میں ہندستان کے مفادات کی نمائندگی کی۔ بعد میں جواہر لعل نہرو نے انھیں اپنی کابینہ کے اہم عہدہ پر فائز کیا۔ 1959ء میں فوج کے سربراہ کے ایس تھیمیا سے کھلے عام لڑ پڑے۔ اسی سال چین نے ہماری سرحدوں پر حملے کردیئے۔ اس وقت یہ بالکل عیاں تھا کہ کرشنا مینن کی دوسری چیزوں کے علاوہ ان کی تلون مزاجی اور جارحیت مغرب سے ہتھیاروں کی سپلائی مشکل میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے جواہر لعل نہرو کیلئے کرشنا مینن قرضہ جات (Liabality) بن گئے تھے۔ انھیں 1959ء میں ہٹا دینا چاہئے تھا مگر نہرو ان کی ہر غلطی اور خامی کو نظر انداز کرتے رہے۔ 1962ء تک کام سے لگائے رہے لیکن چین کے ہاتھوں ہندستان کی شرمناک شکست کی وجہ سے کرشنا مینن کو از خود گدی چھوڑنی پڑی۔
ہمارے اور سول سرونٹ دانشور کے مکالمہ کے دوران اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا امیت شاہ نریندر مودی کیلئے اس وقت وہی ثابت نہیں ہورہے ہیں،جو جواہر لعل نہرو کے آخری دور میں کرشنا مینن ان کیلئے ثابت ہوئے تھے۔ میں نے کہاکہ ان دونوں کے تعلقات ان دونوں کے مقابلے میں گہرے ہیں لیکن کچھ دنوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ایسا لگا کہ وزیر اعظم اپنے وزیر داخلہ کو بدل دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ نہرو اور مینن کی طرح دونوں ذاتی طور پر گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ایک ہی نظریہ اور مسلک سے منسلک ہیں۔
مکالمہ کے دو مہینے بعد امیت شاہ نے زبردست طریقے سے دہلی الیکشن میں پولرائزیشن کیا۔ پولس کی رپورٹ کے مطابق جب بی جے پی کے سیاستدانوں نے نفرت انگیز اور زہر آلود تقریریں کیں تو وہ خاموش رہے جس کی وجہ سے دہلی جلنا شروع ہوگئی، جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان کے دورے پر تھے۔
امیت شاہ کو وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ایک سال سے کم ہواہے لیکن اس مدت میں ہمارے سماج کا تانا بانا، ان کی گفتار و کردار کی وجہ سے انتہائی بگڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ آواز مسلسل اٹھ رہی ہے کہ ایک نئے وزیر داخلہ کا تقرر کیا جائے۔ وزیر اعظم کو یہ گونج ضرور سنائی دے رہی ہوگی۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس پر لوگوں کو شک و شبہ ہے کہ اس وقت جو انصاف اور قومی مفاد کا تقاضہ ہے کیا وہ پورا کرسکیں گے؟“

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment