Home نظم مبارک

مبارک

by قندیل

صالحہ صدیقی

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ

گھر کا چشم و چراغ
ماں باپ کا سہارا
بہنوں کا راج دلارا
سب کی امیدوں کا چراغ
بجھا دیا گیا نفرت کی آندھی میں
نام تھا جس کا مبارک
سیاست کے اس کھیل کا
شکار ہو گیا وہ معصوم بھی
دہشت گردی کے اس تماشے میں
نہ جانے کتنے مبارک رتن شہید ہوۓ
اپنے مفاد کے لیے
اپنی کرسی کی حفاظت کے لیے
شر پسندوں نے
انسانیت کی بلی چڑھا دی
میں کیسے لکھوں اس درد کو؟
جو مبارک اور رتن جیسے ہزاروں گھر والے سہہ رہے ہیں
میں کیسے لکھوں اس رنگ کو؟
جس کی سرخی سے انسانیت کا قتل کیاگیا.
میں کیسے لکھوں اس تباہی کو؟
جو اب تاریخ بن چکا ہے
میں کیسے لکھوں اس بربادی کو؟
جو چند گھنٹوں میں صدیوں کا غم دے گیا
میں کیسے لکھوں اس درد و خوف کو؟
جو اس وقت دہلی کا گھر گھر محسوس کر رہا ہے
اب تو ہر طرف بس آہ و فغاں کا عالم ہے
ہر طرف چنگاری ہے۔۔۔
جس کی آگ میں سارا شہر سلگ رہا ہے
ہر باغ اجاڑ دیا گیا
ہر شجر بکھیر دیا گیا
اب تو بس۔۔۔۔۔
اجڑے ہوئے چمن میں
خاموش چینخیں ہیں
رتن اور مبارک کی یادیں ہیں۔۔۔

صالحہ صدیقی
ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ

You may also like

Leave a Comment