Home نقدوتبصرہ مولانا محمد عثمان غنیؒ کی اہم تصنیف’’بشریٰ‘‘ -مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا محمد عثمان غنیؒ کی اہم تصنیف’’بشریٰ‘‘ -مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

by قندیل
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مولانا محمد عثمان غنی ؒ بڑے مفتی نامور قائد اچھے منتظم اور مشہور مجاہد آزادی تھے،انہوں نے امارت شرعیہ میں فتویٰ نویسی کا بھی کام کیا ،نظامت بھی سنبھالی ،اپنی دھاردار تحریروں کی وجہ سے جیل بھی گئے ،امارت اور جمعیت کے پلیٹ فارم سے جد و جہد آزادی میں حصہ لیا،ان کے اداریئے،مضامین اور مقالات جو جریدۂ امارت ’’نقیب‘‘ المجیب اور دوسرے رسائل میں چھپے وہ ان کے قلم کی جولانی اسلوب کی پختگی، دلائل کی منطقیت اور اثر آفرینی کی واضح دلیل ہے ۔انہوں نے لکھا اور بھرپور لکھا ،خطابت کا ملکہ ان کے اندر نہیں تھا،مجلسی گفتگو کے آدمی تھے لیکن لکھتے تو لکھتے چلے جاتے ،اور قارئین مسحور ہوجاتے ۔
مولانا نے بہت لکھا ،ان کے مقالات اور اداریئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فکری طور پر اسلامی افکار و اقدار کے امین اور سچے وارث تھے ،ان کے تعلقات کامریڈ تقی رحیم وغیرہ سے ضرور تھے،اور سیاسی طور پر آزادی کے بعد وہ کمیونسٹ آڈیالوجی کو پسند کرتے تھے ،لیکن اس کا مطلب دین و ملت سے بے زاری نہیں تھی جیسے بہت سارے علماء سیاسی طور پر کمیونسٹ کو پسند کرتے تھے،ویسے ہی آخری دور میں مولانا کی یہ سوچ تھی کہ جوڑی بیل کے بجائے ہنسوا بالی مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے،یہ بات میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے بیان کر رہا ہوں جو خواہ مخواہ ان کے بارے میں وقتاًفوقتاً پھیلائی جاتی رہی ہے ،شاہد رام نگری نے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ؛
’’کانگریس نے اپنی اعلان شدہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے پس روی ختیار کی تو آپ نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور تحریروں کے ذریعہ حکومت کو اپنی اصلاح کرنے کا مشورہ دیا ،جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو آپ کھل کے میدان میں آ گئے اور کانگریس حکومت کی غلط بیانیوں کی بھرپور مخالفت کی اور سیاست میں بائیں بازو کے رجحان کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔مولانا کی مضبوط رائے تھی کی فرقہ واریت سے لوہا لینے کے لئے بائیں بازو کی قوت کا استحکام ضروری ہے ،چنانچہ اس وقت جب مسلمان کمیونسٹ پارٹی سے جھجھک محسوس کرتے تھے آپ نے سیاسی بنیادوں پر کمیونسٹ کی حمایت کی اپیل کی ۔‘‘
مولانا نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ایک اہم کتاب ’’بشریٰ ‘‘ہے جس کا موضوع سیرت پاک ہے ،یہ ایک مختصرمگر جامع کتاب ہے،جس کی زبان آسان ہے اورجو طلبہ نیز کم پڑھے لکھے لوگوں تک معنی کی ترسیل کے لئے انتہائی مفید ہے۔
بشریٰ کے اب تک تین ایڈیشن نکل چکے ہیں ،پہلا ایڈیشن ۱۳۵۰ھ میں شائع ہوا تھا،اس ایڈیشن تک میری رسائی نہیں ہو سکی،البتہ دوسرا ایڈیشن ڈاکٹر ریحان غنی صاحب کی کرم فرمائی سے میرے مطالعہ میں آیا ،اس ایڈیشن کے سر ورق پر بشریٰ از مولانا سید شاہ محمد عثمان غنی صاحب اور نیچے ناشر میں غنی بک ڈپو درج ہے،اندرونی ٹائٹل دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ان دنوں ناظم امارت شرعیہ صوبہ بہار تھے ،اس پر عرض ناشر یکم صفر ۱۳۷۴؁ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ پہلا ایڈیشن چند مہینے میں ختم ہو گیاتھا اور لوگوں کے مطالبے جاری تھے۔
دوسرے ایڈیشن کے پریس جانے کے پہلے مصنف ؒ نے اس پر نظر ثانی فرمائی اور طباعت سے پہلے معمولی سی لفظی ترمیم بھی کی،اس کی طباعت آزاد پریس سبزی باغ سے ہوئی تھی۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۹۸۳ میں سامنے آیا اسے مسلم اسٹوڈینٹس ایسوسی ایسوشن آف انڈیا دارالغنی شاہ گنج پٹنہ نے چھپوایا تھا،عظیم آباد پبلی کیشنز لمٹید بھکنا پہاڑی پٹنہ ۶ سے طبع شدہ اس ایڈیشن کی قیمت چار روپے تھی ،اس پر سنہ اشاعت نومبر ۱۹۸۳ درج ہے ،لیکن یہ صحیح نہیں ہے ،اس لئے کہ عرض ناشر کے طور پر ڈاکٹر ریحان غنی کی جو تحریر اس کتاب میں شامل ہے اس پر تاریخ یکم دسمبر۱۹۸۳ء مطابق ۲۵ ؍صفر ۱۴۰۴ھ دج ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ نومبر میں یہ کتاب نہیں چھپی تھی دسمبر اور اس کے بعد ہی اس کی طباعت ہو سکی ہوگی،ڈاکٹر ریحان غنی صاحب نے عرض ناشر میں لکھا ہے کہ ’’مولانامفتی سید شاہ محمد عثمان غنی ؒ نے آسان اور عام فہم زبان میں یہ کتاب لکھ کر وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔‘‘(ص: ۳)
بشریٰ کے بارے میں شروع میں دو تأثرات اور آرا بھی درج کی گئی ہیں ان میں ایک اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ہند بہار کے ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ کے تأثرات ہیں جنہیں ان کی رائے سے تعبیر کیا گیا ہے ،ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ ’’بچوں کے لئے اتنا جامع رسالہ سیرت طیبہ پر میں نے نہیں دیکھا ہے ،انداز بیان بھی سیدھا سادہ ہے اور واقعات کو مختصر پیرا گرافوں میں اور آسان زبان میں بیان کر کے بچوں کے لئے بہت مفید بنا دیا گیا ہے ۔
پھر بیش تر واقعات کے بعد ہلکا پھلکا سبق آموز جملہ استعمال کر کے بچوں کی توجہ ادھر مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کریں جو  فطری طور پر کسی واقعہ کو پڑھنے کے بعد بچوں میں خود بھی پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘(ص: ۴)
مولانا سید شاہ عون احمد قادری ؒ اس وقت کے جمعیۃ علماء بہار کے صدر کی رائے مختصر سی درج ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’سیرت نبوی میں مختصر کتاب کی تصنیف کاچلن مولانا موصوف کی کتاب بشریٰ کے بعد شروع ہوا۔‘‘(ص:۵)
ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ صاحب نے اس کتاب کے مندرجات میں ایک کمی اور تشنگی کا بھی ذکر کیا ہے ،لکھتے ہیں : ’’البتہ ایک تشنگی مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ بچیوں یا بالفاظ دیگر صنف اناث کے لئے مواد برائے نام ہی ہے ،ظاہر ہے ان کے لئے جو مخصوص نمونے ہو سکتے ہیں وہ صحابیات ہی کے اندر پائے جا سکتے ہیں ،جس کا ذکر سیرت نبوی ؐکے ضمن میں آنا چاہئے ،مثلاً غزوۂ احد میں ایک صحابیہ ام عمارہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جا سکتا تھا ،جنہوں نے آنحضور ؐ کو بچانے کے لئے ستر تیر کھائے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جس طرف بھی دیکھتا تھا، ام عمارہؓ نظر آتی تھیں۔ ‘‘(ص:۴)
کتاب کا آغاز مصنف علیہ الرحمہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد مختصر سے خطبہ الحمدللہ و سلام علی عبادہ الذین الصطفیٰ سے کیا ہے ،تمہید بھی مختصر سی تین سطر کی ہے ،جس میں اللہ کی بڑی رحمت اور نعمت میں سے ایک انسان کامل کی ولادت با سعادت کو قرار دیاہے۔اس کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ولادت با سعادت ،بچپن ،جوانی ،کسب معاش ،نکاح ،ایفائے وعدہ ،اصلاحی کام ،دیانت پر اعتماد ،گوشہ نشینی ،نبوت اور نزول وحی ،تبلیغ اسلام ،اعلانیہ تبلیغ اسلام ،عزم و استقامت ،صحابہ کا صبر و ثبات ،حبشہ کی ہجرت ،لالچ اور دھمکی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقاطعہ ،صدمہ اور ظلم،مکہ سے باہر تبلیغ،معراج،نماز کا حکم ،مدینہ میں اسلام ،نقابت، رسول اللہ کی ہجرت ،مسجد نبوی کی تعمیر ،بھائی چارہ ،امن و اتحاد کی کوشش، مدینہ کے دشمن ،جہاد ،غزوۂ بدر ،اذان کی ابتداء ،غزوۂ احد ،صحابہ کی محبت،یہودیوں کی شرارتیں ،شراب کی حرمت ،غزوۂ خندق ،عہد شکنی کی سزا ،صلح حدیبیہ ،معاہدہ کی پابندی ،غزوۂ خیبر ،عمرہ کی ادائیگی،بادشاہوں کو دعوت اسلام ،فتح مکہ، دشمنوں سے سلوک ،غزوۂ حنین ،غزوۂ تبوک ،حج کی ادائیگی ،حجۃ الوداع ،مرض وفات ، آخری وصیت ،معجزہ ،اخلاق ، سادگی ،صفائی ،گھر کا کام ،سبق حاصل کرو جیسے اہم موضوعات پر مولانا محمد عثمان غنی ؒ نے انتہائی سادہ اور سہل انداز میں طلبہ و طالبات کی استعداد و صلاحیت کو سامنے رکھ کر لکھا ہے، واقعات وہی ہیں جو سیرت کی عام کتابوں میں بھی مذکور ہیں ،لیکن مولانا نے جگہ جگہ بچوں کو جو نصیحتیں کی ہیں اور جو نتائج اخذ کئے وہ ان کے اخاذ دہن کی پیداوار ہیں ،عموماً ان کی طرف نگاہ کم جاتی ہے ۔صحابہ کے صبر و ثبات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ ذ کر کیا ہے وہ آج کے موجودہ حالت میں ہمارے لئے نصیحت بھی ہے اور حوصلہ افزا پیغام بھی ،لکھتے ہیں :’’جب ظالموں اور جابروں کا غلبہ اور تسلط ہو اور مسلمانوں کے لئے کوئی خاص جائے پناہ نہ ہو اور حق کو ظلم و جور سے پامال کرنے کی کوشش کی جاتی ہو تو ان حالات میں ان ظالموں کے مقابلہ میں اعلان حق کرنا اور صداقت و حقانیت پر قائم رہتے ہوئے ہر قسم کے مصائب برداشت کرنا ،یہاں تک کہ اس راہ میں جان عزیز تک قربان کر دینا عین دین ہے ،اور اسی کو قر آن و حدیث میں صبر جمیل اور استقامت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔‘‘(ص:۲۲)
مولانا امارت شرعیہ کے ناظم بھی تھے اور سیاسی قائد بھی ،اس لئے مختلف جگہوں پر سیرت کے واقعات کی روشنی میں ایک امیر کے ماتحت زندگی گزارنے اور بھائی بھائی بن کر رہنے پر زور دیا ہے ،یہ سیرت نبی کا پیغام بھی ہے اور اسلام کو مطلوب بھی ،لکھتے ہیں :’’حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے سے پہلے وہاں کے مسلمانوں کا جماعتی نظم قائم کر دیا اور ہر قبیلہ کے لوگوں کو ایک سردار کے ماتحت کر دیا ،تا کہ تمام اسلامی و جماعتی کام خوش اسلوبی سے انجام پائے۔‘‘
مولانا کا اسلوب اس کتاب میں یہ ہے کہ وہ واقعات ذکر کر کے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں ،اور طلبہ کو اس طرف سبق کے انداز میں متوجہ کرتے ہیں اور اس پر عمل کی تلقین کرتے ہیں ۔

You may also like

Leave a Comment