( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
بالآخر ۱۸ مہینےپندرہ دنوں کی طویل اسیری کے بعد ، مولانا کلیم صدیقی کو ، جنہیں مبلغِ اسلام کہا جاتا ہے ، ضمانت دے دی گئی ہے ۔ حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت دی ہے ، لیکن اس مشروط ضمانت کا ملنا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ، کیونکہ ضمانت کی درخواست پرسماعت متواتر ملتوی ہورہی تھی ۔ اس بار بھی اے ٹی ایس نے یہ کوشش کی تھی کہ مولانا کلیم صدیقی سلاخوں سے باہر نہ نکلنے پائیں ، اس کے لیے اس نے شد و مد کے ساتھ مولانا محترم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی تھی ، لیکن عدالت عالیہ نے اس دفعہ اے ٹی ایس کی ایک نہیں سنی ۔ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری ستمبر 2021 میں عمل میں آئی تھی ۔ یو پی کی اے ٹی ایس نے انہیں اور عمر گوتم اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بڑے پیمانے پر ، جبراً تبدیلیٔ مذہب کرانے والے ایک ’ ریکیٹ ‘ کا پردہ فاش کیا ہے ۔ اے ٹی ایس کا دعویٰ تھا کہ ایک ہزار سے زائد افراد کو ، نفسیاتی دباؤ ڈال کر ، مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور اس کام کے لیے غیرممالک سے باقاعدہ فنڈ حاصل کیا گیاہے ۔ ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھی ، غیر مسلموں کو تبدیلیٔ مذہب پر اکسا کر ، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دشمنی اور منافرت کو فروغ دیتے اور ملک کی خود مختاری اورسالمیت کو متاثرکر رہے ہیں ۔ گرفتاری کے بعد یو پی کے اے ڈی جی ( لاء اینڈ آرڈر ) پرشانت کشور نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس لے کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ صدیقی غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب کا ایک بہت بڑا ’ ریکیٹ ‘ چلا رہے تھے ، اور اس کام کے لیے وہ خود بھی غیر ممالک سے فنڈ لیتے تھے بلکہ مدارس کو بھی اس کام کے لیے فنڈ دیتے تھے ۔ مطلب یہ کہ مدارس پر بھی نشانہ سادھ لیا گیا تھا ۔ وہ جو مولانا کلیم صدیقی کے کام سے واقف ہیں ، انھوں نے مذکورہ الزامات کو نہ ہی کَل کو تسلیم کیا تھا اور نہ ہی آج وہ ان الزامات کو صحیح مانتے ہیں ۔ لوگ خوب جانتے ہیں کہ مولانا کلیم صدیقی ایک مبلغ ہیں ، اور چونکہ تبلیغ اس ملک میں ’ جرم ‘ نہیں ہے ، اس لیے وہ اپنے مذہب کی اسی طرح تبلیغ کرتے ہیں ، جس طرح کہ دیگر مذاہب کے مبلغ اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ یہ آزادی اس ملک کے آئین نے دی ہے ۔ لیکن اس ملک میں 2014 کے بعد ’ اسلاموفوبیا ‘ پر مبنی ایک ایسا بیانیہ تیار کیا گیا ہے جس کے تحت مساجد سے لے کر مدارس تک کو ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے تو باقاعدہ ’ کپڑے دیکھ کر ‘ پہچاننے کی ترکیب بتائی ہے !
ایک سنگین بیانیہ ’ لو جہاد ‘ کا ہے ، اس بیانیہ کی بنیاد پر سنگھی ٹولے ملک بھر میں زہر پھیلانے کے لیے آزاد ہیں ۔ اس جھوٹ کو زور شور سے پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلم لڑکے فریب سے ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنساتے ہیں ، ان کا دھرم تبدیل کرواتے ہیں اور پھر شادی کرنے کے بعد اپنی ہوس پوری کرکے یا تو انہیں طلاق دے دیتے ہیں یا انہیں جان سے مار دیتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اس جھوٹ کو پھیلانے میں بی جے پی کے وزراء تک ملوث ہیں ۔ ابھی کچھ پہلے ہی مہاراشٹر کے ایک بھاجپائی وزیر منگل پربھات لوڈھا نے اسمبلی میں یہ ’ انکشاف ‘ کیا تھا کہ مہاراشٹر میں ’ لو جہاد ‘ کے ایک لاکھ سے زائد معاملات ہوئے ہیں ۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے ، اس لیے اس ’ انکشاف ‘ کے بعد ظاہر ہے کہ ریاست میں بے چینی پھیلنی ہی تھی ، سو پھیلی ۔ اور مرے پر سو درے کا کام ’ ہندو جن آکروش ‘ کے جلوسوں نے کیا ، جو ’ لو جہاد ‘ ’ لینڈ جہاد ‘ اور ’ تبدیلیٔ مذہب ‘ کے خلاف نکالے گیے اور مزید نکالے جا رہے ہیں ۔ نفرت پھیل رہی ہے ، رام نومی پر مہاراشٹر میں تشدد ہوا ہے اور جالنہ میں ایک امام کو بری طرح سے پیٹ کر اس کی داڑھی کاٹ دی گئی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لوڈھا نے اسمبلی میں جو ’ انکشاف ‘ کیا ہے اسے اب تک ثابت نہیں کر پائے ہیں ، ’ لو جہاد ‘ کا ایک معاملہ بھی سامنے نہیں آیا ہے ۔ لیکن جھوٹ کی ایک فضا عرصے سے تیار کی جا رہی تھی ، بلکہ تیار کر لی گئی ہے ، اور اس کی لپیٹ میں مولانا کلیم صدیقی کو گھسیٹ لیا گیا ہے ۔ ادھر ملک کی کئی ریاستوں میں ایسے قوانین بنائے گیے ہیں ، جو تبدیلیٔ مذہب کے آئینی طور پر جائز عمل پر ’ قدغن ‘ لگانے کے لیے ، استعمال کیے جاتے ہیں ۔ مختلف حلقوں سےیہ الزام لگایا گیا ہے کہ ، اِن قوانین کا ستعمال جابرانہ اور ظالمانہ انداز میں کیا جارہا ہے ۔ بعض حالات میں تو تبدیلیٔ مذہب کے معاملات میں ’ ملک دشمنی ‘ یا ’ ملک سے بغاوت ‘ تک کے الزامات ملزمین پر لگائے گیے ہیں ۔ یہ بھی الزام ہے کہ ، زور زبردستی کرکے ، تبدیلیٔ مذہب کرنے والوں کو ، ان افراد کے خلاف ، جو ان کے تبدیلیٔ مذہب کے عمل میں معاون تھے ، بیانات دینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مولانا کلیم صدیقی نے کبھی بھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ، ان کی تبلیغ سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام مذہب قبول نہیں کیا ہے ، لیکن وہ اس بات کو کہ ، انھوں نے لوگوں کو جبراً یا دھمکا کر دھرم تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے ، جھوٹ کا پلندہ بتاتے ہیں ۔ اور آج کے ماحول میں یہ جھوٹ کا پلندہ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلا دیا گیا ہے ، جس کے سبب مختلف جگہوں پر عبادتیں متاثر ہونے لگی ہیں ، یا عبادتوں کو متاثر کیا جانے لگا ہے ۔ عدالت عالیہ نے مولانا کلیم صدیقی کو ضمانت دے کر اپنا فرض ادا کیا ہے ، یقیناً اسے یہ خوب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ اس ملک میں نفرت کے بیانیے کو پھلنے پھولنے سے روکے اور مولانا کلیم صدیقی جیسے ہی جو دوسرے بےقصور افراد ’ لوجہاد ‘ اور ’ جبراً تبدیلیٔ مذہب ‘ کے معاملات میں گرفتار کیے گیے ہیں ، انھیں بھی سلاخوں کے پیچھے سے باہر نکالے اور نکلوائے ۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے۔