( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
تین دِنوں سے ، جمعیتہ علماء ہند کے صدر ، حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی کے ایک ویڈیو بیان پر ہنگامہ مچا ہوا ہے ۔ بیان اُتراکھنڈ کے اُن مسلمانوں کے تعلق سے ہے ، جو اُترکاشی میں رہتے ہیں ، اور اِن دنوں مسلسل فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں ۔ ’ لو جہاد ‘ کے ایک فرضی معاملہ میں انہیں یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ، وہ اُتر کاشی سے ، اپنے گھروں اور اپنی دوکانوں پر تالے لگا کر ، نکل جائیں ورنہ ’ مہاپنچایت ‘ میں اس بارے میں فیصلہ لیا جائے گا ۔ حالانکہ ’ مہاپنچایت ‘ کی دھمکی پر عمل نہیں کیا جا سکا ، کیونکہ ’ اسوسی ایشن فور دی پروٹیکشن آف سِول رائٹس ‘ ( اے پی سی آر ) نامی ایک تنظیم کی درخواست پر ، اُتراکھنڈ ہائی کورٹ نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے ، اِس معاملے کا نوٹس لیا تھا ، اور حکومت کو یہ ہدایت دی تھی کہ ، کسی کی بھی جان و مال کا نقصان نہ ہونے دیا جائے ۔ عدالت کے اعلان کے بعد ’ مہاپنچایت ‘ رد کر دی گئی تھی ۔ ’ مہاپنچایت ‘ رد کیے جانے کے بعد وہاں کے مسلمانوں نے قدرے سکون کی سانس لی تو ہے ، مگر حالات ہنوز کشیدہ بنے ہوئے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق اُترکاشی سے ۳۵ مسلم خاندان مستقل طور پر ہجرت کر گئے ہیں ، جبکہ ۶ مسلم خاندانوں نے عارضی طور پر ہجرت کی ہے ، اگر حالات بہتر ہوئے تو وہ واپس آئیں گے ۔ لیکن یہ جو خوف و دہشت کا ایک ماحول بنا ہوا ہے ، کیا حالات کو پُرامن ہونے دے گا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ اگر حالات پُرسکون نہیں ہوئے ، تو ممکن ہے یہ عارضی ہجرت کرنے کا فیصلہ مستقل ہجرت میں بدل جائے ۔ اُترکاشی کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ۳۰ سے ۳۵ سال سے ، اور کئی تو ۴۰ سال سے یہاں رہتے اور کاروبار کرتے چلے آئے ہیں ، ان کا کاروبار یہاں پھلا اور پھُولا ہے ، اور ان کے علاقے کے ہندؤؤں کے ساتھ برادارانہ تعلقات رہے ہیں ، لیکن بی جے پی ، وشوا ہندو پریشد ( وی ایچ پی ) اور بجرنگ دل نے عارضی سیاسی فائدے کے لیے فرقہ پرستی اور نفرت کا زہر پھیلانا شروع کیا اور اِس پُر امن خطے کو آتش فشاں کے دہانے پر لا کر کھڑا کردیا ۔ اِن حالات میں اُترکاشی کے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ، یہ حوصلہ افزائی برادرانِ وطن کی جانب سے بھی ہونی چاہیے ، اور خود مسلم عوام ، بالخصوص مسلم قیادت کی جانب سے بھی ۔ لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ، مسلم قیادت نے اِس معاملہ سے جیسے آنکھیں پھیر لی ہیں ، اے پی سی آر کے استثنیٰ کے ساتھ ، جو جماعت اسلامی ہند کے تحت آتی ہے ۔ مولانا سیّد محمود مدنی نے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کو اُترکاشی سے مسلمانوں کی ہجرت کے تعلق سے ایک مکتوب بھیجا تھا ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دونوں ’ ترجمان ‘ منھ سیئے رہے ، لیکن بعد میں ، جب عدالت نے اُتراکھنڈ حکومت کو ہدایات دیں ، تو بورڈ نے ایک ’ اظہارِ تشویش ‘ کا بیان جاری کر دیا ۔ ایم آئی ایم کا بیان آیا ضرور ، مگر بیان اُترکاشی کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے سے زیادہ ’ سیاسی ‘ تھا ۔ جب اُترکاشی کے پریشان حال مسلمانوں کو حوصلے کی ضرورت تھی ، ان کے ساتھ جنہیں کھڑا ہونا تھا ، وہ اُن سے دور کھڑے نظر آ رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اس سے حوصلے پست ہی ہوئے ہوں گے ، اور حوصلے پست ہونے کے سبب ہی وہاں کے مسلمانوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا ہوگا ۔ یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال تھی ، اور ایسا نہیں کہ اس کا کوئی مداوا ہوا ہے ، ہنوز یہی صورتِ حال ہے ۔ ایسے میں مولانا سیّد ارشد مدنی کا ایک ویڈیو اُترکاشی کے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ مولانا محترم نے کہا ہے کہ ’’ وہ سب مسلمان وہاں کے رہنے والے ہی نہیں ہیں ، وہ سب یہاں کے میدانی علاقوں کے رہنے واالے ہیں ، کچھ بجنور کے ہیں تو کچھ سہارنپور کے ،جو لوگ وہاں کے رہنے والے نہیں ہیں ، اور یہ سب وہی ہیں ۔ اور انہوں نے دہرہ دون میں اور دوسرے علاقوں میں اپنے مکانات بنا رکھے ہیں ، اب اگر حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ انہیں وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو وہ چھوڑ کر یہاں آ جائیں ۔‘‘ کیا یہ بیان حوصلہ پست کرنے والا نہیں ہے ؟ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مولانا محترم کا مذکورہ مشورہ اس لیے درست ہے کہ وہ مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں ، تب بھی کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ اس مشورے سے مولانا محترم ’ ہجرت ‘ جیسے ایک مجرمانہ عمل کو ’ ہری جھنڈی ‘ دکھا کر ، نادانستہ ہی سہی ، جائز کر رہے ہیں ؟ کسی بھی جمہوری ملک میں ، بالخصوص آج کی جمہوریت میں ، کسی بھی شہری کو ، اِس بنا پر کہ وہ کسی مخصوص علاقہ میں اقلیت میں ہے ، ’ہجرت ‘ پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، یہ قابلِ مذمت عمل ہے ، اور ساری دنیا بشمول اقوام متحدہ اس کی مخالف ہے ۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ ’ ہجرت ‘ پر کوئی مجبور نہ ہو ۔ جمعیتہ علماء ہند کی تو ’ ہجرت مخالف ‘ پالیسی رہی ہے ، اس کے اکابر علماء نے ہمیشہ ’ ہجرت ‘ کی مخالفت کی ہے ، صرف زبانی ہی نہیں عملاً بھی ۔ کون اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جب ملک لاشوں پر ہوئے بٹوارے کا عذاب جھیل رہا تھا ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؓ ، مولانا الیاس احمد کاندھلوی ؓ اور حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؓ نے متفقہ طور پر ’ ہجرت ‘ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کے اس فیصلے کے سبب اس ملک میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ’ ہجرت ‘ کرنے سے خود کو روکا تھا ۔ وہ جگہیں جو ’ ہجرت ‘ کا مرکز تھیں ، اکابر علماء اور مسلم قائدین کی محنتوں سے ’ ہجرت ‘ کے عمل سےمحفوظ ہو گئی تھیں ۔ یہ جمعیتہ علماء کا عمل رہا ہے ، اس لیے مولانا محترم کے مذکورہ بیان پر یہ سوال زبان پر آتا ہے کہ’ مولانا سیّد ارشد مدنی کا یہ کیسا بیان ہے ‘! لیکن اس بیان کا ایک پہلو مزید ہے ، اس کو جن افراد نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے انہوں نے اسے اس طرح سے ’ ایڈٹ ‘ کیا ہے کہ مولانا کے بیان کا ایک اہم حصہ حذف ہو گیا ہے ۔ ایک ویڈیو مزید گردش میں ہے جس میں حضرت مولانا کو ، حکومت اورہندو فرقہ پرستوں کی مسلم مخالف پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے ، اور یہ کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں وہاں رہنے نہیں دیا جائے گا ، ان کے لیے راستے ہموار کیے جائیں تاکہ وہ وہاں رہیں ، ورنہ یہ جو مسلم مخالف تصویر ہے بی جے پی کے لیے ، نہ مرکز میں نہ ریاست میں مفید ہو سکتی ہے ۔ اس ویڈیو میں انہوں نے وزیراعلیٰ سے چھ مسلم ممبران اسمبلی کی ملاقات کی بات بھی کی ہے ۔ آخر مولانا محترم کے بیان کے اس حصے کو حذف کیوں کیا گیا ، کیا یہ حقیت کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی کوشش نہیں ہے ؟ ہے ، لیکن اس کے باوجود حضرت مولانا کا ’ ہجرت ‘ کا مشورہ ناقابلِ قبول ہے ، انہیں اپنے بیان کے ا حصے پر اڑے رہنا چاہیے تھا کہ ’’ ان کے لیے جو ہجرت پر مجبور کیے جا رہے ہیں راستے ہموار کیے جائیں ‘‘ اور خود آگے بڑھ کر انہیں چاہیے تھا کہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو ’ ہجرت ‘ سے روکتے ۔ خیر ہنوز ان کے پاس وقت ہے ، وہ ابھی بھی اُترکاشی کے اُن مسلمانوں کو جو ’ ہجرت ‘ کر گئے ہیں ، واپس لانے کا قدم اٹھا سکتے ہیں ، اور وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کے حوصلے بڑھا سکتے ہیں ۔