( ایڈیٹر ،ممبئی اردونیوز)
طالب علمی کے دور میں سُنا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہروکی بہن وجئے لکشمی پنڈت کسی مسلمان ’ باورچی ‘ سے محبت کر بیٹھی تھیں اور شادی کرنا چاہتی تھیں ، لیکن مہاتما گاندھی نے یہ شادی نہیں ہونے دی ۔اب ، اتنے دنوں بعد، اسعد فیصل فاروقی کی کتاب ’ سیّد حسین (۱۸۸۸ء-۱۹۴۹ء) ہندوستان کا ایک دانشور مجاہدِ آزادی ‘ کے مطالعہ سے پتہ چلا ، کہ وجئے لکشمی پنڈت نے جس سے محبت کی تھی ، وہ کوئی ’ باورچی ‘ نہیں ، ایک دانشور ، ایک مجاہدِ آزادی تھا ، اور یہ محبت بھی یکطرفہ نہیں تھی ’ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی ‘ اور یہ معاملہ نکاح تک پہنچا اور علیحدگی پر ختم ہوا تھا ۔ لیکن اِس پر بات آگے ، ابھی تو یہ جان لیتے ہیں کہ، یہ سیّد حسین ، جنہیں دانشور اور مجاہدِ آزادی کہا جا رہا ہے ، کون تھے ؟ اور کیوں ایک ایسے مجاہدِ آزادی پر ، جنہیں کم لوگ جانتے ہیں ، کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئی ؟اِن دونوں سوالوں کے تفصیلی جواب ، اسعد فیصل فاروقی کی ، اس کتاب میں شامل تحریر ’ حرفے چند ‘ سے مِل جاتے ہیں ۔اسعد فیصل فاروقی کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ( اے ایم یو ) سے ہے ، اورسیّد حسین بھی اسی یونیورسٹی کے مایہ ناز سپوت تھے ، اور چونکہ اسعد فیصل فاروقی اے ایم یو اور اس کی تحریک سے دلچسپی رکھتے ہیں ، وہاںکی شخصیات اور تاریخ کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں ، اس لیے سیّد حسین کا نام ان کے لیے نہ گمنام تھا اور نہ ہی غیر اہم ۔ انھوں نے سیّد حسین کی صحافتی خدمات پر ، لاک ڈاؤن سے قبل ایک تفصیلی مقالہ لکھا تھا ، اس مقالہ سے متعلق سیّد حسین کے امریکہ مقیم بھتیجے سیّد اقبال احمد سے رابطہ ہوا اور گفتگو کے دوران طے ہوا کہ فاروقی ، سیّد حسین پر اردو اور انگریزی میں ایک کتاب تیار کریں گے ۔ یہ کتاب اسی رابطہ اور گفتگو کا نتیجہ ہے ۔ کتاب کے مصنف کی سیّد حسین کی شخصیت میں دلچسپی ، ان کے کارناموں سے واقفیت کے سبب ہوئی ۔ ڈھاکہ کے اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ سیّد حسین کوئی معمولی آدمی نہیں تھے ، انگریزی کے بہت بڑے صحافی تھے ، بہت اعلیٰ دماغ کے مدبر ، دانشور تھے ، قومی و بین الاقوامی حالات سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور ایک سیکولر مزاج سیاست داں تھے ، ہندو – مسلم اتحاد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ، لیکن مسلم اقلیت کے مفادات کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالا ۔ اسعد فیصل فاروقی یہاں وہاں بکھری چند تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اِن چند تحریروں کے علاوہ سیّد حسین پر اب تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا تھا ، اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس عظیم علیگ مجاہدِ آزادی کے کارناموں کو تفصیل سے پیش کر کے اس کے ملک و قوم کے لیے کیے گیے کاموں کا علی گڑھ پر سے قرض اتارا جائے ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کی اشاعت کا خاص مقصد ہندوستانی جدوجہد آزادی کی تحریک کے اس عظیم سپوت اور علی گڑھ کے مایۂ ناز فرزند کی زندگی کی ایسی تمام سرگرمیوں ، کارناموں اور خدمات کو منظر عام پر لانا ہے جن کے بارے میں لوگوں کی رائے نہ کے برابر ہے اور جن گوشوں اور پہلوؤں پر دھند کی گہری پرت مستولی ہے ، تاکہ ہماری نسل اس عظیم شخصیت کے کارناموں سے واقف ہو سکے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے نیز متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے کی گئی اس کی کوششوں کے بارے میں دنیا کو معلوم ہو سکے ۔‘‘
کتاب کے سات ابواب میں سیّد حسین کی حیات و خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے ، اور کچھ اس طرح سے کہ پڑھنے والا پڑھتا چلا جاتا ہے ۔ کتاب کے ابواب پر بات کرنے سے پہلے ، کتاب میں شامل ، دو معروف پروفیسر صاحبان ، پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر محمد سجاد کی ، دو اہم تحریروں کا ذکر ضروری ہے ۔ پروفیسر شافع قدوائی کا ’ پیش لفظ ‘ ہے ، جس میں وہ لکھتے ہیں ، ’’ جدید ہندوستان کی صورت گری کرنے والوں میں سیاسی قائدین ، مذہبی عالموں اور سماجی مصلحوں کا ذکر بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر فنون لطیفہ ، ادب اور صحافت سے وابستہ حضرات کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے ، علی الخصوص صحافیوں کے کاموں کو نظر کم سے دیکھنے کی روش عام ہے ۔ اگر صحافی نے ایک اہم سیاسی اور قومی مدبر کے طور پر اپنی منفر دشناخت قائم کرلی ہے تو پھر اس کی پذیرائی عام بات ہے ۔ بال گنگا دھر تلک ، گاندھی جی ، مولا نا محمدعلی جوہر ، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ کی مثال سامنے کی ہے ۔ مگر صحافت کو اپنی تخلیقی تگ و تاز کی اولین ترجیح بنائے رکھنے والوں اور ضمنی طور پر سیاست اور اعلیٰ انتظامی عہدوں سے خود کو منسلک کرنے والے شہرت اور عوامی مقبولیت سے عموما محروم ہی رہتے ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل کے طور پر ’ انڈپنڈنٹ ‘ (الہ آباد ) ،’ انڈیا ‘ (لندن) ، ’ دی نیو اورینٹ ‘ (نیویارک) اور ’ یاد وطن ‘ (نیویارک) کے مدیر ، لندن کے معروف اخبارات و رسائل ’ نیوایج ‘، ’ ایشیاٹک ریویو جرنل ‘،’ پال مال گزٹ ‘،’ نیو اسٹیٹس مین ‘، وغیرہ کے کالم نگار اور قومی تحریک آزادی کے معروف و مقبول اخبار ’ بامبے کرونیکل ‘ (بمبئی) سے وابستہ مشہور صحافی ، مجاہدِ آزادی اور سفارت کار سید حسین کی شخصیت کو پیش کیا جاتا ہے ۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ، علی گڑھ سے وابستگی ، ہوم رول لیگ ، انڈین نیشنل کانگریس اور تحریکِ خلافت کی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال شرکت اور ایک بیدار مغز عوامی دانشور کے طور پر ان کی سرگرم موجودگی بھی ان کی ہمہ گیر قومی خدمات کے اعتراف کا وسیلہ نہ بن سکی ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ، ’’ مقام مسرت ہے کہ جواں سالہ اور حوصلہ مند محقق ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے اس اہم علمی خلا کو پر کرنے کی با معنی کوشش کی ہے اور سید حسین سے متعلق ایک مستند اور دستاویزی نوعیت کی کتاب تحریر کی ہے ، اس کتاب کا امتیازی وصف بنیادی ماخذات سے براہ راست استنباط اور مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استخراج میں بڑی حد تک حقیقی معروضیت کی پاسداری ہے گوکہ مشمولات پر کہیں کہیں تعارف اور تحسین کے سائے لرزاں نظر آتے ہیں ۔‘‘
پروفیسر محمد سجاد نے کتاب کا وقیع ’ مقدمہ ‘ تحریر کیا ہے ، جس میں اس دور کے سیاسی و سماجی اور تہذیبی حالات کے پس منظر میں اس کتاب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ پروفیسر محمد سجاد لکھتے ہیں ، ’’ اس کتاب میں محقق اسعد فیصل فاروقی نے ایک غیر معمولی شخصیت کی بایوگرافی لکھتے ہوئے اس غیر معمولی عہد کی عکاسی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔‘‘ پروفیسر محمد سجاد نے مصنف اور کتاب کی تین خوبیوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ، یہ کہ ’’ تمام تر بنیادی ماخذات کے چھوٹے بڑے اقتباسات کے حوالے سے اس تحقیق کی معرفت انہوں نے ان اہم دستاویزات کو نہ صرف محفوظ کر دیا ہے ، بلکہ اردو حلقے کو ان انگریزی دستاویزات سے متعارف بھی کرا دیا ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سید حسین کی پیلک (عوامی) سرگرمیوں اور تحریک آزادی کے لیے جدو جہد سے متعلق درجنوں رہنماؤں اور دانشوروں کا ذکر آیا ہے ۔ قارئین کی معلومات میں اضافہ اور سید حسین کی بائیوگرافی اور ان کے عبد کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ، ان سبھی کرداروں کا مختصر خا کہ بھی وہ حوالوں میں دیتے چلے گئے ہیں ۔ ‘‘پروفیسر صاحب نے ایک خوبی یہ بتائی ہے کہ مذہب اور ذات ( جات ) پات پر مبنی شناخت کی سیاست کے خطرناک پس منظر میں ’’ سید حسین کے سیاسی و تہذیبی خیالات کا جائزہ مزید اہم ہوجاتا ہے ،‘‘ یعنی یہ ایک ایسی راہ دکھاتا ہے جس پر چلنے میں ، ملک اور سماج کی بھلائی ہے ۔ کتاب سات ابواب میں منقسم ہے ، یہ ابواب تقریباً ۳۸۶ صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ کتاب کی مجموعی ضخامت ۵۶۸ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی کے ۱۸۲ صفحات میں حواشی و حوالے ، ضمیمہ ، کتابیات اور اشاریے شامل ہیں ۔ ’ حیات سیّد حسین ایک نظر میں ‘ کے عنوان سے ۶ صفحات میں سیّدصاحب کے کوائف دیے گیے ہیں ۔ گویا یہ کہ کتاب میں شامل ہر بات حوالے کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ، تاکہ پڑھنے والے کہہ سکیں ’ مستند ہے مصنف کا فرمایا ہوا ۔‘
سرسری طور پر ابواب کے موضوعات دیکھ لیتے ہیں ۔ پہلے باب میں ، جس کا عنوان ہے ’ ابتدائی حالاتِ زندگی ‘ پیدائش ، خاندانی حالات ، خانگی زندگی ، بھائی بہن ، تعلیم ، اے ایم یو کی زندگی اور کولکتہ واپسی و علمی مشغولیات کا ذکر ہے ۔ اس باب میں سیّد حسین کی انگریزی زبان پر مہارت اور تقریری و تحریری صلاحیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ،اور اے ایم یو کی سیاسی فضا کا خاص ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرا باب ’ انگلستان میں سات سال ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں سیّد حسین کی انگلستان میں تعلیمی اور سیاسی مشغولیت پر تفصیل سے بات کی گئی ہے ۔ لندن میں انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی لیکن بنے صحافی ۔ وہ انگلستان کے کئی بڑے اخباروں سے وابستہ رہے ، ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے ۔ سات سال بعد وہ ممبئی آئے اور فیروز شاہ مہتا کے اخبار ’ بامبے کرونیکل ‘ کے معاون مدیر بنے ، اس اخبار کے مدیر محبِ ہند آئرش بی جی ہارنی مین تھے ۔ اس دوران سیّد حسین کی سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہیں ۔ اس باب میں کئی اہم باتیں ہیں ، جیسے کہ کامگریس مسلم لیگ اتحاد ، ہوم رول تحریک میں سیّد حسین کا حصہ ، تلک کے یوم پیدائش پر جلسہ سے خطاب ، مسلمانوں میں سیاسی اور سماجی بیداری لانے کی کوشش ، سرسید کے نظریات پر اظہارِ خیال اور وجئے لکشمی پنڈت سے پیار ، نکاح ، علیحدگی اورخلافت تحریک میں شمولیت و امریکہ میں جلا وطنی ۔ جلا وطنی ایک دو دن کی نہیں پورے ۲۵ سال کی تھی ، لیکن اس دوران بھی سیّد حسین کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں ، آزادی کی تحریک میں حصہ بھی لیتے رہے ،اور انگریزی اخباروں سے بھی وابستہ رہے ۔ کئی ملکوں کا سفر کیا ، سترہ سال بعد ہندوستان آئے ، ممبئی ،کولکتہ گیے، علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ پہنچے ، کئی جگہ لیکچر دیے ، اور واپس امریکہ چلے گیے ۔ فلسطین اور ایشیا کے مستقبل پر سوالات اٹھاتے رہے ، چرچل اور روزویلیٹ کو خط لکھے ۔ سان فرانسسکو میں آزادی کی تحریک کو تیز کرنے کے لیے سیّد حسین کی صدارت میں ایک جلسہ ہوا ، اس جلسے میں وجئے لکشمی پنڈت شریک ہوئیں ،اور تقریر بھی کی ۔ اس کتاب میں وجئے لکشمی پنڈت اور سیّد حسین کی شادی کا باب بڑا دلچسپ ہے ، اس معاملہ میں گاندھی جی کا چہرہ ایک دم کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ وہ اس شادی کے شدید مخالف تھے ، ان کا یہ ماننا تھا کہ اس شاادی سے آزادی کی تحریک بھی متاثر ہوگی اور ہندو مسلم تعلقات بھی ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ ہندو اور مسلمان میں شادی نہیں ہو سکتی ہے ، یہ آپس میں بھائی بہن ہو سکتے ہیں ۔ کتاب میں ایک جگہ وجئے لکشمی پنڈت نے ، اپنی دوست پدمجا کو جو خط لکھا تھا اس کا ایک اقتباس دیا گیا ہے ، ملاحظہ کریں ،’’ انھوں ( گاندھی جی ) نے مجھ سے کہا ، اس واقعہ نے مسلمانوں پر سے ہمارے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے ۔ انھوْن نے مجھ سے کہا سیّد کو صرف بھائی کی نْطر سے دیکھو ۔ یہ تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ تم ایک مسلمان سے محبت کرو ۔ ۲۰ کروڑ ہندوؤں می سے تمہیں ایک ہندو بھی اپنے خیالات کے مطابق نظر نہیں آیا جو اس بے چارے مسلمان کے پاس چلی گئی ۔ ان کے نزدیک یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مسلمان اور ہندو شادی کر کے خوشی سے زندگی گزاریں ۔‘‘ ایک بار گاندھی جی نے یہ کہا تھاکہ ’’ ہندو مسلمان بھائی بہن ہیں شادی کیسا ہو سکتا ہے ۔‘‘
کتاب میں آگے کے ابواب میں سیّد حسین کی ہندوستان واپسی اور الیکشن لڑنے کی خواہش کا ذکر ہے ، لیکن الیکٹرل رجسٹر میں نام نہ ہونے کے سبب وہ الیکشن نہیں لڑ سکے ۔ آگےدوقومی نظریہ کی مخالفت ، جناح کے خلاف محاذ ،اور تقسیم ملک کا ذکر کیا گیا ہے ۔تقسیم پر سیّد حسین سخت غمگین تھے ، خون خرابے نے انھیں مزید دکھ دیے ۔ آخری باب میں ، مصر میں سفیر کی حیثیت سے ان کی خدمات اور وہیں انتقال کا ذکر ہے ۔ ان کی وصیت تھی کہ انہیں نہ ہندوستان میں دفن کیا جائے نہ پاکستان میں ، انہیں قاہرہ میں دفن کیا جائے ، اور وہیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تجہیز وتکفین ہوئی ۔ یہ ایک دلچسپ ،معلومات سےبھری ہوئی اور جس دور کا ذکر ہے اس دور کے سیاسی و سماجی حالات سے مکمل طور پر واقف کراتی کتاب ہے ۔ اسعد فیصل فاروقی نے تحقیق پر جو محنت کی ہے اس کے لیے وہ ہم سب کے شکریے کے حق دار ہیں ۔ یہ کتاب اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ بہت ساری اہم شخصیات کی حیات اور خدمات کو ، حواشی کی شکل میں سامنے لاتی ہے ۔ کتاب براؤن بُک ،علی گڑھ نے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے ، ہاں کہیں کہیں پروف کی غلطیاں کھلتی ہیں ۔کتاب کا نتساب ’ ہندوستانی تحریکِ آزادی کے گمنام مسلم مجاہدین اور ابیّ مرحوم عرفان احمد فاروقی اور امّی مرحومہ عطیہ فاروقی کے نام ‘ ہے ۔ ۷۰۰ روپیہ کی ہے ،اسے موبائل نمبر 9818897975 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔