Home خواتین واطفال میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کریں!- قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کریں!- قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

by قندیل

 

8080697348

میاں بیوی  میں کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے۔خوش اسلوبی سے پیش آئے۔ نکاح کے مقاصد میں سے جس طرح جسمانی سکون وراحت حاصل کرناہے، اسی طرح ذہنی اورقلبی  سکون کی فراہمی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان پیارومحبت اور رحمت کو رکھا۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئےنشانیاں ہیں۔ (سورہ روم:٢١)دوسری ارشاد ہے: اوربیویوں کے لیے بھی دستور کے موافق حقوق ہیں جس طرح ان پر ان کے شوہروں کے لیے ہیں۔(بقرہ: ۲۲۸)تیسر جگہ ارشادہے: اوربیویوں کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی گزارو۔(نساء: ۱۹)

علامہ ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان عاشروھن بالمعروف کاحکم مردوں کو دیاگیاہے۔ معاشرت بالمعروف کامفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ معروف طریقے  پربودباش اختیارکرے، اورمعروف  طریقہ یہ ہے کہ اس  کاحق مہر،نان ونفقہ اورباری صحیح طورپر اداکرے،سخت گفتگوکے ذریعہ تکلیف دیناچھوڑدے،اس کی طرف سے بے توجہی اوردوسرے کی طرف مائل ہوکراسے تکلیف نہ دے۔اور نہ ہی بیوی  کے کسی گناہ یا قصورکے بغیراس کے ساتھ ترش روئی اوراظہار ناگواری کے ساتھ پیش آئے۔(احکام القرآن۳/۴۷)علامہ آلوسی ؒ فرماتےہیں: معروف کے سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ بیوی کو نہ مارے اورنہ اس کے ساتھ بد کلامی کرے؛ بلکہ اس کے ساتھ ہنس مکھ رہے۔(روح المعانی:۲/٤۵۱)

بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ خوش  اسلوبی سے پیش آنا:

بیوی پربھی  لازم  ہے کہ  وہ  اپنے شوہرکے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے، اچھے سلوک سے پیش  آئے، ان کی عزت وتکریم کرے، ان کو برابھلانہ کہے۔ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، ترش روئی اختیار نہ کرے،اپنے شوہرکی استطاعت سے زیادہ خرچہ کامطالبہ نہ کرے۔قناعت اورصبر سے کام لے۔

اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق  ہیں جیسے ان پر مردوں کے لئے ہیں۔ (البقرۃ ( 228 ) ۔

امام قرطبی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورتوں کےلئے مردوں پر جس طرح کے حقوق ہیں اسی طرح مردوں  کے لئے بھی عورتوں پر حقوق ہیں۔چنانچہحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہروہ حق جو میرابیوی پرہے وہ بیوی کے لئے میرے اوپربھی ہے۔ (تفسیرقرطبی:١/١٢٣)

اورحضرت ابن زید رحمہ اللہ  کہتے ہيں :تم اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہواوربیویوں پر بھی ہے کہ اپنے شوہروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ (تفسیرقرطبی:١/١٢٤)۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعبؓ کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔اس لئے مردوعورت دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے حقوق کوبحسن وخوبی اداکیاکریں۔

ایک دوسرے پر ظلم وستم کرنا:

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب سے نقل کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپراوراپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیاہے، پس بندوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر ظلم وستم نہ کرے۔(صحیح مسلم نمبر:٢۵۷۷)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک ایک ظلم قیامت کے دن بہت سارے ظلم کے برابر ہوجائیں گے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:٢۵۷۹)

پس میاں بیوی میں ہر ایک کادوسرے کے ساتھ کسی بھی طرح کاظلم وستم کرناجائز نہیں ہے۔ ظلم وستم کرنے کی بہت ساری  شکلیں ہیں، مثلا جھگڑاکرنا،گالم گلوچ  کرنا، مارپیٹ کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر  لعن طعن کرنا،شک کرنا،بیوی کاخرچہ نہ دینا،یاپوراخرچہ  نہیں  دینا، یاجہیز کامطالبہ کرنا، کسی بھی طرح کا بے بنیاد الزام لگانا ، اس کو اپنےمیکہ میں یاقریبی  رشتہ داروں کےیہاں  نہ جانے دینا،اس کو دینی احکام بجالانےسے روکنا ،فیشن پرستی کاحکم دینا، یہ سب ظلم میں داخل ہے۔

بیوی کےساتھ  لعن طعن اورگالم گلوج کرنا:

کسی مسلمان خاص طور پر بیوی کے ساتھ گالم گلوچ کرنااوراسے ذہنی اذیت دیناحرام ہے۔ جیساکہ نبی کریم ﷺ کاارشادہے:کسی مسلمان کو گالی دیناگناہ ہے اوراس سے جنگ  کرناکفر ہے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۶۱)آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:تم میں وہ آدمی سب سے اچھاہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو۔ گویا کہ نبی کریم ﷺ نے اچھاہونے کامعیار بیوی کے ساتھ حسن سلو ک کو قرار دیا۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۳۸۹۵)

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے پوچھااے اللہ کے رسول!  بیوی کاکیاحق ہے؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیاکہ جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنوتو اسے بھی پہناؤ،اس کے چہرہ پر نہ مارو،اس کوبرانہ جانو،اوراسےصرف گھر ہی میں چھوڑو۔(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:٢١٤٢)

نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیارکرنے کی مردوں کووصیت کی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: تم مجھ سےعورت سے متعلق  وصیت حاصل کرو، کیوں کہ عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے، اورپسلیوں میں اوپروالی پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے،اگر تم کو اس  سے فائدہ اٹھاناہے تو اٹھالو،اور اگر تم اس کو سیدھاکرناچاہوگے تو توڑدوگے،اوراگر اس  کے حال پر چھوڑدوگے تو ٹیڑھی  ہی رہے گی، اس  لئے تم  عورتوں سے متعلق میری اس نصیحت کوقبول کرو۔(صحیح بخاری:٣٣٣١، مسندحمیدی:١٢۰٢)

دوسری جگہ نبی کریم ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو بہترین آدمی قراردیا، آپ نے کہاکہ تم سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو،کیوں کہ ان کی ذہنی اورجسمانی  کمزوری اورنزاکت کے باعث ان کے ساتھ نہایت ہی شفقت والامعاملہ کرناچاہئے۔ ‏ ‏‏‏(سنن ترمذي:١١۶٢،تحفۃ الاحوذی:٤/٢۷٣)

بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرنا:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاکہ اگرتمہاری بیویاں نافرمانی کریں تو پہلے تو ان کو سمجھاؤبجھاؤ، نہ  مانیں تو بستر میں ان سے لاتعلقی برتو، پھربھی نہ سمجھیں تو انھیں ہلکی سی مارمارسکتے ہیں۔ (سورۃ النساء:٣٤)

اس آیت کریمہ میں چوں کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی بیویوں کومارنے کی اجازت دی ہے،اس لیے لوگ اس پرخوب عمل  کرتے ہیں، مگر جس مارکی اجازت دی گئی ہے، اس کی وضاحت حدیث میں ضرب غیرمبرح سے کی گئی ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے امان میں حاصل کیاہےاور اللہ کے ایک کلمہ(ایجاب وقبول) کے ساتھ   ان کی شرمگاہیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، تمہارے لیے ان پر یہ حق ہے کہ تمہارے بستروں پروہ کسی کو آنے نہ دیں، پس اگر وہ اس طرح نازیبا حرکت کریں تو انھیں اس طرح ہلکی مار ماروکہ نہ سخت ہو اور نہ نشان پڑے، اور ان کا نان ونفقہ اور بودو رہائش کابہتر طریقہ پر انتظام کر نا تم پر لازم ہے۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر١٢١۸)۔

اس حدیث کے تحت علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ یعنی ایسی مار مارناجائز ہے جو سخت نہ ہو  اور تکلیف دہ بھی نہ ہو۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۸/١۸٤، بیروت)

دوسری روایت اس طرح ہے: حضرت عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں کوسختی سے منع فرمایاکہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کوغلام کی طرح  کوڑے نہ مارے پھر اس کے ساتھ رات میں صحبت  کرے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٥٢٠٤)یعنیاس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو غیرت دلائی کہ اگر تمہار ی بیوی سے تھوڑی بہت کوتاہی ہوجاتی ہے تو تم اسے مارنے لگتے ہو، اور پھرعجیب بات ہے کہ تم اس کے ساتھ جنسی خواہش پوری کرکے سکون حاصل کرتے ہو!! لہذا تم کوشرم آنی چاہئے اور اس حرکت سے باز آجانا چاہیے۔ان احادیث سے معلوم ہواکہ بیوی کے ساتھ سخت مارپیٹ کرناجائز نہیں ہے ۔

پٹائی کی حداوراس کاطریقہ:

پٹائی  کی کیفیت اورحدبیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا: جب بیوی اپنے گھرکسی اجنبی کوبلائے تب ہی ان کو مارو۔(صحیح مسلم:١٢١۸) غیرمبرح کی تشریح کے بارے امام احمدسے پوچھاگیاکہ غیرمبرح کیاہے؟ آپ نے جواب دیا کہ سخت نہ ہو،اورچہرہ پرنہ مارے، کیوں کہ مقصودتادیب ہے،نہ کہ ہلاک کرنا۔ ( المغنی:۷/٣١۹) علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ ضرب مبرح سخت تکلیف دہ مارپیٹ کوکہتے ہیں۔ (شرح مسلم للنووی:۸/١۸٤)امام فخرالدین رازی ؒاس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کاکہناہے کہ رومال لپیٹ کرمارے ،یاہاتھ سے مارے، ڈنڈے یاکوڑے سے نہ مارے۔ بعض لوگوں نے کہاہے کہ مسواک سے مارے۔آپ مزیدفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اخف سے اشق کاحکم دیاہے، لہذااگراخف کے ذریعہ مقصودحاصل ہوجائےتواشق پرعمل کرناجائزنہیں۔(تفسیررازی:١٠/۷٢)

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺنےفرمایاکہ جب تم میں  سے کوئی  لڑائی  کرے تو  چہرے پرمارنے سے بچے،دوسری روایت میں ہے کہ چہرے پر طمانچہ  نہ  مارے۔(مسلم:٢۶١٢) حضرت امام نووی ؒ  اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس ممانعت میں بیوی، خادم ، اور  اولاد وغیرہ شامل ہیں۔(نووی شرح مسلم:١۶/١۶٥)عورت تو اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت میں عورت کےچہرہ پرمارنا جائزنہیں ہے؛بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔

خلاصہ یہ ہےکہ اگربیوی کسی اجنبی کوگھرمیں بلائے،یااجنبی سےبات چیت کرےیابہت زیادہ نافرمانی کرے تواولاًاسے سمجھایاجائے، نہ مانے تو بسترمیں لاتعلقی برتی جائے،یابسترہی الگ کرلیاجائے پھر بھی نہ مانےتوسرزنش کے طورپر ہلکی مارمارنے کی گنجائش ہے۔یادرہے کہ بیوی کو   مارنانہ فرض ہے، نہ واجب اورنہ مستحب  ہے، بلکہ نہ مارناافضل  ہے۔چنانچہ حضرت امام نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے۔(شرح النووی علی  مسلم:١٥/۸٤،ش) ملا علی قاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ بیوی اور خادم کو مارنے کی  گنجائش ہے، مگرنہ  مارنابہتر ہے ،اوران کے ساتھ عفوودرگزرکامعاملہ کرناہی بہتر  ہے۔(مرقات المفاتیح:۹/٣۷١۶)

رسول اللہ ﷺ کااپنی  بیویوں اورخادموں کے ساتھ معاملہ:

نبی کریمﷺ نے اپنی کسی بھی بیوی  یا خادم کوان کی کسی بھی غلطی پرنہ کبھی لعن طعن کیانہ ڈانٹا، اورنہ ماراہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ  عنہاسے روایت کے رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی  کسی بیوی یا خادم کو ہاتھ سے بھی نہیں مارا،۔(صحیح مسلم)اس لیے صبرکرنااولیٰ اورمستحسن ہے۔صبراوربرداشت کرنے پر بھی ثواب حاصل ہوتاہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو صبر اورنماز کے  ذریعہ مدد حاصل کرنے کاحکم دیاہے، اورصبرکرنے والے کی مدد اورمعیت  کاوعدہ کیاہے۔(سورۃ البقرۃ)

You may also like

Leave a Comment