شاہنوازبدرقاسمی
برادرِمحترم مولاناڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی کی وفات مجھ جیسوں کیلئے کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں ہے،ان کی رحلت کے بعد عوامی سطح پر انہیں جس طرح خراج عقیدت پیش کیاجارہاہے یہ ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی دلیل ہے۔شمس بھائی نہ صرف ایک اچھے صحافی تھے بلکہ صحافت سے زیادہ انہیں سماجی وفلاحی کاموں میں دلچسپی تھی،جب بھی ان سے گفتگو ہوتی سیمانچل کی ترقی خوشحالی اور بہارمیں مسلم قیادت پر بہت فکر مندی کے ساتھ اپنی بات کہنے کی کوشش کرتے اور کہتے تھے کہ اپنے علاقہ کیلئے ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔
ملی وسیاسی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر تھی اور ملک کے کئی معتبر ملی وسیاسی رہنماؤں سے ان کاخصوصی تعلق تھا۔وہ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک تھے انہیں صرف ایک صحافی کی حیثیت سے دیکھناسراسرنا انصافی ہوگی وہ سیمانچل کے مظلوموں کی آواز اور ملت کے بیباک ترجمان تھے۔صرف 48سالہ زندگی میں انہوں نے کئی ایسے نمایاں کا رنامے انجام دیے جن کیلئے وہ ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے،نئی نسل کے اردو صحافیوں کے لیے وہ آئیڈیل تھے انہوں نے کئی باصلاحیت نوجوانوں کو صحافی بنانے میں اہم کردار اداکیا۔
عبدالقادر شمس قاسمی ارریہ کے ڈوبا گاؤں میں پیداہوئے اور دارالعلوم دیوبند سے فضیلت اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے ایک بامقصد میدان کاانتخاب کرکے انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد مین اسٹریم میڈیا میں اپنی نمایاں شناخت قائم کی،وہ ایک بافیض شخصیت کے مالک تھے،شمس بھائی کے یہاں لفظِ ’’نہیں‘‘ کاتصور نہیں تھا،وہ ہر کام کیلئے ہاں کہہ دیتے تھے تعلقات نبھانے میں مہارت تھی،ان کے ذاتی تعلقات کن کن سے تھے اس بات کااندازہ لگانامشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔عبدالقادرشمس صرف بولتے اور لکھتے نہیں تھے بلکہ اسے عملی سطح پر کرنے کاجذبہ بھی رکھتے تھے دہلی میں رہتے ہوئے انہیں علاقائی پسماندگی نے بے چین کررکھاتھا،انہوں نے اپنے آبائی وطن میں ایک مشہور دینی ادارہ جامعہ دعوۃالقرآن،ایک ہاسپٹل، کئی مساجد ومکاتب بھی قائم کئے،مصیبت کی گھڑی میں ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد کرنے میں کبھی بخالت سے کام نہیں لیتے تھے،شمس صاحب کسی پریشان حال کو دیکھ کر بہت بے چین ہوجاتے تھے اور اسی بے چینی نے انہیں دہلی میں رہ کر اپنے علاقائی عوام کیلے یہ سب کرنے پر مجبور کررکھاتھا،بلاتفریق وہ خاموشی کے ساتھ مدد کرنے کے عادی تھے۔
ان کی تدفین میں شرکت کے بعد یہ محسوس ہواکہ وہ جتنے مشہور باہر تھے اس سے کہیں زیادہ مقبول اپنے علاقے میں تھے،کوروناکے قہراور خوف کے باوجود نماز جنازہ میں ہزاروں کامجمع جس میں سیمانچل سے تعلق رکھنے والے تمام نمایاں چہرے شامل تھے۔ شمس بھائی کی وفات پر ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی اورپورا گاؤں صدمہ میں تھا،سیمانچل کی پسماندگی اور علاقائی مسائل کو ملکی سطح پر جس طرح سے انہوں نے پیش کیااس کے لیے سیمانچل کاہر شہری ان کااحسان مندرہے گا ۔ انھوں نے کئی علاقائی لیڈران کو متعارف کرانے اور انہیں ملکی سطح کاچہرہ بنانے میں بھی کلید ی کرداراداکیا۔ وہ بھلے ہی خود سیاسی لیڈر نہیں تھے لیکن سیاسی حکمت عملی بنانے میں ماہر تھے،سیمانچل سے متعلق کسی بھی مسئلے پر گفتگو کرتے وقت جذباتی ہوجاتے وہ اس خطہ کی بدحالی سے بہت مایوس تھے۔اسی لئے وہ اب صحافتی زندگی کے بجائے سیاسی زندگی کی شروعات کرناچاہتے تھے، اس کیلئے انہوں نے مجھ سے ذاتی طورپربھی کئی مرتبہ تبادلۂ خیال کیا اور حکمت عملی طے کی اور کہاکہ علاقائی حالات کو بہتر بنانے کیلئے سیاست میں آنااب بہت ضروری ہوگیاہے۔وہ مناسب وقت کاانتظار کررہے تھے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظورتھا۔
ڈاکٹر عبدالقادر شمس کا تعلق ارریہ کے ایک غریب گھرانے سے تھالیکن انہوں نے اپنی جدوجہد،مستقل مزاجی اور اپنی خدمات کی وجہ سے اس گاؤں کو ایک نئی شناخت دی،وہ صرف جسمانی طورپر دہلی میں رہتے تھے لیکن ان کادل دماغ ہمیشہ اپنے علاقائی مسائل کے حل کیلے بے چین رہتاتھا۔
حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ اور حضرت مولانااسرارالحق قاسمیؒ کی رفاقت میں رہ کرانہوں نے بہت کچھ سیکھااور کیا،ان بزرگوں کی تربیت اور دعاوں کااثر تھاکہ وہ ملت کے ایک بیباک ترجمان کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ان کے ہم عصروں میں تھے۔پروفیسر اخترالواسع،ممبرپارلیمنٹ احمد اشفاق کریم،حضرت مولاناغلام محمد وستانوی کے چہیتوں میں شامل تھے۔
شمس بھائی سے ہماراتعلق بہت دیرینہ تھاان کے ساتھ کئی سفر بھی کئے اور ان کے ساتھ کام کرنے کابھی موقع ملا، وہ ہمیشہ ہم جیسوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے بھائی اب جو کچھ کرناہے آپ ہی لوگوں کوکرناہے ،اس لئے ہمت اور حوصلے سے کام کیجئے، مجھے جب روزنامہ راشٹر یہ سہارا میں ایک سال کام کرنے کاموقع ملاتو شمس بھائی کاخصوصی تعاون رہا،ہفت روزہ عالمی سہارا کیلئے بھی کئی مضامین اور خصوصی رپورٹ لکھوائی،وہ ایک مخلص دوست کی طرح ہمیشہ کام آنے والے انسان تھے،مولاناعبدالقادر شمس اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کئی کتابیں بھی تصنیف کیں،کئی ملی تنظیموں، مدارس اور اہم اداروں کے لیے بھی کام کرتے تھے،ان کی خدمات کادائرہ بہت وسیع تھا، ایسا محسوس ہوتا تھاکہ وہ کبھی تھکتے نہیں ہیں،ان کے اندر ایک جنون تھااور اسی انفرادیت نے انہیں اپنے ہم عصروں کے درمیان ممتاز ومنفرد بنایا۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کیامعلوم تھاکہ شمس بھائی اتنی جلد ی ہم سب کو چھوڑ کرہمیشہ کیلے چلے جائیں گے ابھی بھی یقین نہیں ہوتاکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں،شمس صاحب غیر متنازعہ شخصیت کے مالک تھے جس کام کو کرتے پوری ایمانداری اور دلچسپی کے ساتھ اسے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ۔ وہ ہر حلقہ اور ہر طبقہ میں یکساں مقبول تھے،وفاداری اورخودداری ان کے خون میں شامل تھی ۔ کم عمری کے باوجود انہوں نے اپنے کئی مثالی کام سے جو معتبریت حاصل کی وہ تاریخی ہے،اللہ پاک شمس بھائی کی تمام مخلصانہ خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے بھائی روزنامہ عوامی نیوز پٹنہ کے ایدیٹر عبدالواجد رحمانی اور اکلوتے بیٹے عمار جامی ندوی قاسمی سمیت تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے،آمین۔