Home مقبول ترین میں تیرا نام نہ لوں گا، تجھے صدا دوں گا

میں تیرا نام نہ لوں گا، تجھے صدا دوں گا

by قندیل

صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
دنیا یہ جانتی ہے کہ ہندستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی بولنے کا فن جانتے ہیں۔ چار جملوں کی جگہ پہ چالیس جملے خرچ کر دیتے ہیں۔ ان کے ناقدین اسی لیے انھیں گفتار کا غازی کہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ کردار کا غازی بنیں تو کس طرح بنیں۔ گذشتہ چھے برسوں میں انھوں نے کمالِ ہوش مندی کے ساتھ اپنا ایک اسلوبِ سیاست وضع کیا ہے۔ انھیں جو کرنا ہے ، وہ بولتے نہیں اور جو بولتے ہیں، اس سے ان کے کام کا کوئی تعلّق نہیں۔ فارسی کہاوت مشہور ہے ’سوال از آسماں، جواب از ریسماں۔‘ آپ ہندستان کی غریبی پر اُن سے سوال کریں گے اور وہ پاکستان کی دہشت گردی کی مثال سے جواب دے دیں گے۔ گذشتہ تین مہینوں میں لاک ڈائون اور اَن لاک کے دوران اس کا نقطۂ عروج دیکھا گیا جب ہندستانی عوام کے مسائل اور ملک کے حالات دوسرے تھے مگر نریندر مودی نے اپنی تقریروں سے بار بار یہ بتایا کہ پوری دنیا میں حکومتِ ہندکی تعریف ہو رہی ہے اورکورونا سے مقابلے کے لیے سب سے بہتر کام ہندستان میں ہو رہا ہے۔مارچ مہینے سے نریندر مودی کا یہ لائیو ٹیپ رکارڈر بجتا ہی جا رہا ہے۔
مئی مہینے سے اخبارات اور مختلف چینلوں پر ہندستان اور چین کے سرحدی تنازعات اوراختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ایک مہینے سے زیادہ مُدّت تک تو حکومتِ ہند ساکت اور خاموش بنی رہی۔ جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں۔ جب بیس فوجی مارے گئے تب ایک محدود پیمانے پر آنکھ کھُلی مگر طرح طرح کے جھوٹ سچ کا سلسلہ چلتا رہا۔ باضابطہ کُل جماعتی نشست منعقد کرنی پڑی اور وزیرِ اعظم کا لوگوںکے سوالوں کے جواب میں بیان آیا۔وزیرِ اعظمِ ہند نے اپنا مشہور جھوٹ پیش کیا کہ ہمارے ملک کی ایک انچ زمین میں کوئی داخل نہیں ہوا ہے۔ پھر بڑے بڑے بول کہ ہندستان کی طاقت کچھ ایسی ہے کہ دشمن کی آنکھ نکال لیں گے۔ لوگ مذاق اُڑانے لگے کہ آخر جب ہماری ایک انچ زمین پہ کوئی پڑوسی داخل نہیں ہوا ، تب بیس فوجی کیسے مارے گئے۔ اس وقت یہ بھی خبریں موصول ہو گئی تھیں کہ ہمارے کچھ فوجیوں کو چین نے بندھک بنا رکھا ہے اور باہمی تبادلۂ خیالات کے بعد انھیں زخمی حالت میں رِہا کیا ۔ بات واجب تھی کہ یہ سب حادثات کیسے ہو گئے اور آخر کون سی انوکھی بات ہوئی کہ وزیرِ اعظم کو ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں سے گفتگو اور صلاح ومشورے کے لیے کُل جماعتی نشست بُلانی پڑی۔
تازہ اور ہنگامی خبر جمعہ کے روز یہ آئی کہ نریندر مودی بغیر کسی اعلان شدہ پروگرام کے لدّاخ پہنچ گئے اور پاکستان اور چین کی سرحدوں سے ۱۰۰ کیلو میٹر دوٗر ہندستان کے فوجیوں سے اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں خطاب کرنے کے لیے پہنچ گئے۔ وہ اسپتال میں بیمار فوجیوںکو دیکھنے کیا گئے، وہاں بھی آدھے گھنٹے کی تقریر ہو گئی۔ مجھے حبیب جالب کا شعر یا دآیا
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں
دونوں جگہوں پر وزیرِ اعظم کی کُل ملا کردو گھنٹے کی تقریر ہوئی۔ یہ کوئی عام بات نہیں تھی کہ ملک کا وزیرِ اعظم اچانک سارے پروگرام چھوڑ کر سرحد پر فوجیوں کے جوش و جذبے کو نئے آسمان فراہم کرنے کے لیے پہنچ جاتاہے۔ ملک کی طاقت، عظمت اور قربانیوں کی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ کتنی سیاسی ، سفارتی، مقابلہ جاتی اور جوش و جذبے کی باتیں ہوتی ہیں۔ پھر وزیرِ اعظم اپنا یہ پیغام دے کر دلّی واپس چلے آتے ہیں۔
ہماری زبان اردو کی شاعری کی سب سے بڑی تاریخ عشق و عاشقی کے قصّے کہانیوں سے عبارت ہے۔ میرؔ ہوں یا غالبؔ، کون ہے جو اِس میں مُبتلا نہیں رہا مگر سب کا محبوب پردے میں رہا۔مذہبِ عشق کی یہ خاص تہذیب بھی مانی گئی کہ عاشق کی جان لُٹ جائے مگر معشوق کا کوئی نام نہ لے۔ پوری زندگی انتظار میں گزار دیں گے مگر کس کا انتظار ہے ، اس کی وضاحت نہ کی جائے گی۔ ہمارے وزیرِ اعظم جیسے ہی ۲۰۱۴ء میں اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھے، انھوں نے چین کے سربراہ کو اپنے وطن میں بُلایا۔ دونوںایک جھوٗلے پر پینگیں بڑھاتے ہوئے دنیا کی نظروں میں مستحکم ہوئے ۔ وزیرِ اعظم نے دکن کے دوسرے علاقوں میں ان کی خاطر مدارات کی اور گذشتہ چھے برسوں میں چین ہندستان کے لے سب سے محبوب ملک کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔عشق کی انتہایہ ہے کہ سردار پٹیل کی عظیم مورتی چین سے تیّار ہو کر ہندستان آئی۔ پچھلے چھے برسوں میں باضابطہ طَور پر چین سے در آمدات کا یہ سلسلہ کچھ اس زور اور توجّہ سے آگے بڑھا کہ چین کی ہر بڑی کمپنی کا گھر اور دروازہ ہندستان ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہندستان کے بازار پر چین کا قبضہ ہو گیا اور اتنا ہی نہیں ہندستانی مِڈِ ل کلاس کے خوابوں کی ساری تعبیریں چینی مصنوعات کے سہارے سامنے آنے لگیں۔ بات واضح تھی کہ وزیرِ اعظم کی محبت کی داد پورا ملک اور پوری معیشت کی طرف سے دے جا رہی تھی۔ حکومت کے ہر بڑے پروجکٹ میں چین شامل ہو تا گیا۔ یہ بھی اسی پہلی محبت کا اثر تھا۔
غالب نے مشہورمقطعے میں کیا خوب کہاتھا
مقطعے میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
منظوٗر اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
شاعر کے لیے یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ غزل مکمّل کرتے ہوئے مقطع کہے اور اپنے نام کا اعلان کرے۔ مقطعے کے کچھ آداب تھے۔ غالب نے ذوق کے لیے تازیانہ بہم پہنچایا تھا۔ شاعری میں علامات اور ایمائیت کے راستے ہوتے ہیں جن سے پردے کی گنجایشیں نکل آتی ہیں مگر نثر نگار کو ناکوں چنے چبا لینے پڑیں گے۔ نریندر مودی کی یہی حالت ہے۔ وزیرِ اعظم بڑے دبنگ انداز میں اپنے تیور دکھا رہے ہیں مگر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کس کی آنکھ نکالیں گے؟ کسے آپ نصیحتیں دے رہے ہیں ؟ اور کس کے خلاف پورے ملک اور فوج کو تیّار رہنے کی ہدایتیں دے رہے ہیں؟مُقرّر کی دورانِ تقریر احتیاط ایسی ہے کہ ان کی زبان ایک لمحے کے لیے پھسلی نہیں اور وہ کہاں پر نشانہ سادھ رہے ہیں، اس کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ جب کہ حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور تاریخی صداقتوں سے پرے جا کر تقریر کرنے میں انھیں لُطف آتا ہے اور اس معاملے میں اُن کی زبان بار بار پھسلتی رہتی ہے مگر غلطی سے بھی ان کی زبان سے ہمارا ہم سایہ اور ہمالیہ کے اُس پار کا ساتھی چین کبھی تذکرے میں نہیں آتا۔
بات سامنے کی ہے کیا نریندر مودی یا حکومتِ ہند کو چین کی طاقت سے خوف آتا ہے؟ کیا وزیرِ اعظم اپنی پہلی محبت کے طلسم یا فریب میں کچھ ایسے مدہوش ہیں کہ ’من تو شُدم، تو من شُدی ‘کا ہیجان ہے اور چین کا نام لیتے ہی ہندستان پہ کوئی مصیبت نازل ہو جائے گی۔ دنیا کے سامنے یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندستان کا سب سے بڑا دوست امریکا ہے۔امریکا کی طرف داری کے بعد ہندستان کا وزیرِ اعظم خود کو اتنا کمزور کیوں سمجھتا ہے کہ چین کا نام لینے میں اُسے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں، واقعتا چین کے پاس اتنی طاقت ہو گئی ہے کہ ہندستان کو بچ کر ہی رہنے میں بھلائی ہے۔ اس لیے وزیرِ اعظم محتاط رویّہ اپنائے ہوئے چین سے براہِ راست دو دو ہاتھ کرنے کا اعلان نہیں کرتے اور اپنی نِرگُن کہے جا رہے ہیںجس میں شکایتیں بھی ہیں اور غم و غصّہ بھی ہے۔ مگر بیان میں ایسی رازداری اور تہہ داری ہے ، عاشقانہ بھرم اور شایستگی ہے کہ اپنی حکومت کے پہلے محبوب چین کا کسی بھی صورت میں نام نہیں آناہے۔
عوام میں بے چینی اور غم و غصّہ ہے۔ چھوٹے بڑے وزرا اور اس کے نیچے کے افسران چین کے خلاف آوازیں لگا تے ہیں ۔ چین کے ایپ حکومت نے ممنوع قرار دے دیے مگر بڑی بڑی چینی کمپنیوں کو حکومت اسی طرح پال پوس رہی ہے۔پے۔ٹی۔ایم کے اشتہارات میں ایک زمانے تک وزیرِ اعظم ہی ماڈل کے طَور پر نظر آتے تھے۔ اس کا کوئی بال بانکا نہیں کر سکتا۔ پورا گجرات چین کی بڑی بڑی کمپنیوں سے پٹا ہوا ہے مگر اس سے دست برداری کا اعلان کون کرنے والا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو ملک کی خارجہ پالیسی چلانے کا کوئی سنجیدہ شعور نہیں ہے ۔ شگوٗفے بازی کی عادت سے کب تک کام چلے گا۔ چین پاکستان نہیں ہے، یہ بھی حکومتِ ہند کو معلوم ہے۔ چین کی پُشت پناہی پر نیپال ہیکڑی دکھا رہا ہے مگر اس سے بھی ہندستان آج کے ماحول میں تری بہ ترکی کرنے کا اہل نہیں ۔ رام جنم بھوٗمی، گئو رکشا اور دنگا فساد کرکے حکومت تو قایم ہو گئی مگر مُلک کے وقار کو بحال رکھنے کے لیے اور بہت کچھ چاہیے۔ ہندستان کی سیاسی قیادت پورے طَور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔بہ قولِ شاعر
لُو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا

You may also like

Leave a Comment