مری جستجو بھی کیا تھی، میں یہی نہ ڈھونڈ پائی
"نہ سراغ فہم روشن، نہ چراغ آشنائی”
یہی وصل کی حقیقت، وہی ہجر کی حکایت
یہی چار دن کی سنگت، وہی دائمی جدائی
مجھے کیا غرض چمن سے کہ میں دشت کی مسافر
مگر ایک تیری آہٹ کہ یہاں بھی کھینچ لائی
جہاں شہسوار ڈر کے سر راہ لوٹ آئے
مجھے لے گئی وہاں بھی یہ مری برہنہ پائی
مری چشم پر حزیں سے سر شام اس نے پوچھا
غم دہر کی حقیقت تجھے کس نے لا دکھائی
یہ کشاکش ازل تھی پئے مہر و ماہ و انجم
اسے کیا ہوا نجانے، مرے جی میں آ سمائی
وہ تبسم فروزاں کہ ہو جس سے دل منور
مگر آنکھ بھر کے دیکھا تو نظر بھی لوٹ آئی
مری ایک بزم خلوت کہ بجھی نہ ہجرتوں میں
وہی شمع کر کے روشن وہی انجمن سجائی
ترا حسن ناز یکتا کہ جب آنکھ بھر کے دیکھا
نہ خیال رفتگاں تھا نہ حساب دلربائی
مری جستجو بھی کیا تھی، میں یہی نہ ڈھونڈ پائی – نمرہ شکیل
previous post