شعبۂ تعلیم، جامعہ ملّیہ اسلامیہ
"ارے بھئی ابھی کل جو حادثے میں مرا ہے اس کے ساتھ وہی تو سفر کر رہی تھی وہی جو ابھی میرے اور تمہارے پہلو میں بھی بیٹھی اس وقت کا انتظار کر رہی ہے”
وہ میرے پاس بیٹھی ہے بالکل میرے قریب، میری دھڑکن کو سن رہی ہے میری سانسوں سے لپٹ رہی ہے، کانوں کی لو سے ڈھلکتا ہوا پسینہ کا تیز رفتار قطرہ دل کے پہلو سے گزرتا ہوا پاؤں کی ایڑی سے جالپٹا ہے –
اونہہہہ!! ایسا کیوں کر رہی ہو؟ اور آج یہ پہلی دفعہ نہیں ہے تمہارا اس طرح مجھے پریشان اور بےچین کرجانا، میری سانسوں میں مدوجزر پیدا کرنا، میرے رونگٹے کھڑے کردینا اور اتنا ستانا کہ خوف سے مجھ پر لرزہ طاری ہو جاۓ، دل پسیجنے لگے، ہاتھ یخ ، پیر سُن ، زبان ساکن اور آنکھوں سے سہمے ہوئے آنسو گرم گالوں سے گزر کر کپکپاتے زرد ہونٹوں پر مچل جائیں، ہر شئے کے دھند میں کھو جانے تک تم یونہی میرے سینے سے لپٹی میری نبض ٹٹولتی رہتی ہو – میں جانتی ہوں میرے سب سے قریب اور اصل معنی میں میری ساتھی تم ہی ہو میری پیدائش سے اب تک ہر جگہ تم میرے پہلو سے لپٹی رہی ہو –
اوہ! تم ایسے کیوں میری نبض ٹٹول رہی ہو؟ میں تمہاری وفاداری کا اعتراف کر رہی ہوں نا، ہاں ہاں میں بتا رہی ہوں کہ تم میرے ساتھ اس وقت بھی تھی جب مجھے دودھ کا پہلا بوند ، پانی کا پہلا قطرہ پلایا گیا تھا، اناج کو پہلی دفعہ کھلایا گیا تھا، جب میں نے پہلی مرتبہ ماں، بابا، نانا نانی، دادا دادی کہا، جب میں نے بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا سیکھا تھا اس وقت بھی تم میرے ساتھ تھی لیکن اس وقت میں تمہیں نا تو جانتی تھی اور نہ ہی سمجھتی تھی لیکن اب میں تمہیں جانتی ہوں اور سمجھتی بھی ہوں کیونکہ تم میرے ساتھ اس وقت بھی تھی جب میں سب سے دور ماں کی باہوں میں سمٹنے کے بجائے نئے لوگوں کے مابین آہ و بُکا کر رہی تھی لیکن اس وقت تم نے مجھے اپنے گلے سے نہیں لگایا تھا، تم نے مجھے اس وقت بھی گلے سے نہیں لگایا جب میرے گھٹنے کا زخم رِس رہا تھا میں درد سے کراہ رہی تھی، سات سال کی عمر اور رات کا وہ دوسرا پہر تھا جب میں نے اپنے سرہانے درانتی کو دیکھا تو خون کا دوران بڑھ گیا تھا آنکھوں سے آنسو اتنے بہے کہ تکیہ کا زیادہ تر حصّہ بھیگ چکا تھا لیکن تم نے اس وقت بھی مجھے گلے سے نہیں لگایا تھا، میں مہینوں تیز بخار میں تپتی رہی اور تقریباً تیرہ سال کی عمر میں دادی کی وفات کی خبر سن کر آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا، سینہ غم سے پھٹا جا رہا تھا اس وقت بھی تم نے مجھے گلے سے نہیں لگایا -اس رات کو جب میرے سر کا اوپری حصّہ کھول دیا گیا اور سانسیں حصّوں میں تقسیم ہو رہی تھیں اس وقت بھی تم نے مجھے گلے نہیں لگایا اور کل جب سرعت سے آتی گاڑی نے مجھے تیز سے ٹکّر ماری تو ایسا محسوس ہوا گویا تم میرے بالکل قریب سے ہوکر گزر گئی لیکن مجھے پھر سے گلے نہیں لگایا لیکن چند دنوں پہلے وہ شخص جس نے بس ایک ہچکی ہی لی تھی کہ تم نے اسے گلے سے لگا لیا، وہ نوجوان جس کو کچھ سالوں پہلے ہشّاش بشاش، خوش و خرّم دیکھا تھا تم نے اسے بھی گلے سے لگا لیا اور وہ شوخ، چنچل ہنستی کھیلتی بچّی جو اپنے آنگن میں خوشیوں کے بیج بو رہی تھی اس کو بھی گلے سے لگا لیا، سفر پر روانگی کے وقت دعائیں دینے والی سر پر کمزور ہاتھوں کر پھیرنے والی کو بھی تم نے گلے سے لگا لیا لیکن تم نے میری کسی بھی تڑپ پر مجھے گلے سے نہیں لگایا حالانکہ تم میرے اتنی قریب ہو کہ ہر آنے والی سانس کے بعد تم ہی موجود ہو بلکہ ہر سانس میں لیکن کبھی گلے سے نہیں لگایا اور ابھی بھی تم میرے سرہانے بیٹھی ہو -لیکن اب میں نے تمہیں بہت قریب سے دیکھ لیا اور سمجھ لیا ہے کہ تم ہر وقت سب کے ساتھ رہتی ہو لیکن وقتِ مقررہ پہ تم نے کسی کو گلے لگا لیا وہ دنیا میں کسی کا نہیں رہتا ہمیشہ کے لئے تمہارا بن جاتا ہے (جس دن موت ہمیں گلے لگاتی ہے پھر کوئی لاکھ کوششوں اور چاہتوں کے باوجود گلے نہیں لگا سکتا) اس لئے میں نے مان لیا کہ موت، زیست کی اصل حقیقت اور دائمی ہمسفر ہے۔
1 comment
Heart touching