ترجمہ:نایاب حسن
میں کتابوں سے بھرے گھر میں پلی بڑھی،جہاں ہر کمرے میں کتابیں ہی کتابیں تھیں، کتابیں ہی ہماری شناخت اور تعارف کا وسیلہ تھیں، میری والدہ ماہر تعلیم تھیں اور والد سول سروینٹ اور ایک ابھرتے ہوئے ادیب و ناقد تھے۔ وہ اپنی مصروف زندگی سے جتنا وقت نکال پاتے، اسے پڑھنے لکھنے میں صرف کرتے؛البتہ ان کے مطالعے یا ادبی مصروفیات کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی؛ کیونکہ ہمارا گھر اتنا بڑا نہیں تھا۔
ایک چھوٹی بچی کے طور پر میری سب سے پیاری یادیں والد کے ساتھ کتابوں کی بڑی سی دکان’ یونیورسل بک کمپنی‘ جانے اور وہاں بچوں کے حصے میں گھنٹوں گزارنے کی ہیں، اس دوران والد ادبی تخلیقات سے معمور بک شیلف کھنگالتے رہتے اور بالآخر وہ وہاں سے کتابوں کا ایک بنڈل خریدتے اور ہمیشہ میرے لیے بھی کچھ کتابیں لیتے۔
1964 میں ’شب خون‘ کے اجرا کے بعد ہمارے گھر میں اردو جرائد کثیر تعداد میں آنے لگے۔ان میں کچھ ادبی مجلات تھے جیسے ’نقوش‘، ’فنون‘، ’سیپ‘، ’شاعر‘، ’تحریک‘،’ کتاب‘ اورکچھ ’ بیسویں صدی ‘اور’ شمع‘ جیسے رسائل تھے۔ ان میں سے بہت سے لاہور اور کراچی سے آتے تھے؛ لیکن زیادہ تعداد ممبئی، پٹنہ، لکھنؤ اور حیدرآباد سے آنے والے رسائل کی تھی۔ میں اردو جریدے ’کھلونا‘ کی آمد کا بطور خاص انتظار کیاکرتی، جسے میں لطف لے کر پڑھتی تھی۔
جب والد کا ٹرانسفر الہ آباد سے لکھنؤ ہوا، تو ان کے سامان میں زیادہ تر کتابیں ہی تھیں (وہ کالی داس مارگ پر ایک فرنشڈ سرکاری گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے)۔ آخر میں وہ ریور بینک کالونی کے ایک مکان میں منتقل ہوگئے تھے اور وہاں ان کی کتابوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہونے لگا۔
لکھنؤ میں کتابوں کی دکانیں الہ آباد سے کہیں زیادہ تھیں، پرانے شہر میں اردو کتابوں کی دکانیں تھیں، مجھے یاد ہے کہ اردومکتبوں میں ایک قسم کی سنجیدگی ہوا کرتی تھی، میرے جیسے نوعمروں کے لیے وہاں کا ماحول دلچسپ نہیں تھا۔ اردو کے نوعمر قارئین کے لیے شاید ہی وہاں کتابیں ہوں گی۔ (والد نے مجھے وہیں سے پریم چند کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ’ پریم پچیسی‘ خریدکر دیا تھا)۔
لکھنؤ میں مستعمل کتابوں کی بھی بہت سی دکانیں اور کتابیں مستعار دینے والی لائبریریاں بھی تھیں۔ حضرت گنج، لکھنؤ کے کی ایلیٹ مارکیٹ میں، ایک پسندیدہ مقام ’ہابی کارنر‘ تھا، وہاں’کوچۂ محبت ‘ نامی دلچسپ گلی کے عین بیچ میں مستعمل کتابوں کی ایک دکان تھی۔ ’کوچۂ محبت‘ ایک تنگ سی گلی تھی، یہ ایک مسقف بازار ، گڑبڑ جھالا کا ایک اعلیٰ ورژن تھا، جو خریداروں سے بھرا ہوتا تھا،وہاں کی فضا بازار میں بکنے والی عطریات سے معطر رہتی تھی۔
کندن جیولری چمکتے ہوئے شیشے کے کیسوں میں نظر آتی، چکن کری کے کرتے ہینگروں میں لٹکتے رہتے اور ایک غیر متوقع مقام پر ملبوسات کے سامانِ آرایش کی دکان کے علاوہ ایک لکڑی کی سیڑھی بھی ٹکی ہوتی ۔ ایک شخص کمزور سے جنگلے پر لٹکی اس سیڑھی پر چڑھتا اور کتابوں کے عجائبستان میں پہنچ جاتا۔ وہاں سے آپ اپنی پسند کے مطابق کتابیں دیکھ سکتے، خرید اور ادھار لے سکتے تھے۔
ہر اتوار کو پرانے شہر کے نخاس میں مستعمل کتابوں کا بازار لگتا تھا، ہم وہاں جاتے،وہاں کتابیں پرانی چادروں، کبھی جوٹ کے تھیلوں اور ترپالوں پر رکھی ہوتی تھیں۔ اگر کسی کو بہت سی کتابیں خریدنی ہوتیں ،تو انھیں دیکھنے، منتخب کرنے اور مول بھاؤ کے لیے وہیں کسی کتاب فروش کے بیٹھنے کی جگہ پر ٹکنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار کسی کو کوئی قیمتی چیز مل جاتی، جیسے کسی کتاب کا پہلا ایڈیشن یا کوئی پرانی کتاب جو اب نہیں چھپتی ۔
ریور بینک کالونی والے گھر میں کتابیں بڑے بڑے ڈھیرکی شکل میں جمع ہونے لگیں؛ کیونکہ کتابوں کے لیے مناسب تعداد میں الماریاں نہیں تھیں۔ یہ کراے کا مکان، جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے، پوری طرح تیار بھی نہیں تھا۔ اس بار جب والد کا تبادلہ ہوا، تو کتابیں پیک کرنے میں ہفتوں لگ گئے۔
دیو نگر ، دہلی والا گھر کافی بڑا تھا۔ میری والدہ نے پنچکوئیاں روڈ سے دیگر فرنیچر کے ساتھ کتابوں کی الماریاں بھی خریدیں،مگریہ الماریاں بہت جلد کتابوں کے لیے کم پڑنے لگیں۔ والد کا ذخیرۂ کتب وسیع و عریض تھا ،ان میں ادبی تنقید، شعری اور افسانوی مجموعے (اردو اور انگریزی)، ناول، جاسوسی کہانیاں، کلاسیکی ادبی سیریز، انسائیکلوپیڈیا، نادر ونایاب لغات ہر قسم کی کتابیں تھیں۔
انھیں جاسوسی(اور کچھ عرصے تک خوفناک ) کہانیاں پڑھنا پسند تھا ۔ دوسرے سنجیدہ شائقینِ کتب کی طرح انھوں نے بھی ہر قسم کی کتابیں جمع کیں۔ پھر فاضل کتابیں الہ آباد والے گھر بھیجی جانے لگیں اور وہاں کی الماریاں بھی ان کتابوں سے بھر گئیں۔
یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ والد صاحب کے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا۔اس کے بعد وہ سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہتے تھے کہ ان کی ذاتی لائبریری ہو؛چنانچہ الہ آبادوالے گھر کی پہلی منزل پراس کی تعمیر شروع ہوئی،ان کامنصوبہ یہ تھا کہ یہ لائبریری دو کمروں اور ایک ہال پر مشتمل ہوگی۔ پہلا کمرہ دارالمطالعہ ہوگا، دوسرا مہمانوں کے لیے ہوگا اور ہال میں صف بستہ کتابوں کے ریک ہوں گے۔
کتابوں کو اوپر پہنچانا ایک مشقت بھرا کام تھا؛ لیکن یہ بھی ہو گیا۔ دفتر کو منظم انداز میں تیار کیا گیا اور الہ آباد کی شدید گرمیوں سے نمٹنے کے لیے اے سی لگایا گیا۔ لائبریری کے باب الداخلہ پر خوب صورت اردو میں لکھا ہوا والدصاحب کا نیم پلیٹ چسپاں کیا گیا۔
گفتگو کے اصل نقطے پر پہنچنے کے لیے میں یہاں کچھ تفصیلات سے گریز کرتی ہوں۔ والد اگرچہ اس وقت 58 سال کے تھے، مگر دل کی بیماری میں مبتلا تھے، وہ دن میں کئی بار سیڑھیاں چڑھنے سے تھک جاتے، اے سی کے باوجود گرمیوں میں کمرہ کافی گرم ہو جاتا ، ہال ناقابل برداشت حد تک گرم ہوجاتا، گوکہ پنکھا چلتا رہتا۔ گرمیوں میں دھول دھکڑ کے ساتھ چلنے والی ’لو‘ کھڑکیوں سے زور آزمائی کرتی اور ہر چیز پر دھول کی تہیں جم جاتیں،غسل خانے میں پانی کا مسئلہ بھی تھا۔
بالآخر والدہ جو والد کی صحت کے تئیں فکرمند رہا کرتی تھیں،انھوں نے اصرار کیا کہ وہ نیچےآ جائیں اور ڈرائنگ روم(جو ڈائننگ ہال بھی تھا) کو اپنی لائبریری بنالیں۔ ایک بار پھر کتابوں کو منتقل کیا گیا ،البتہ اس اقدام سے والد صاحب کو ایک موقع ملا کہ وہ کتابوں کے بہت بڑے ذخیرے میں سے کچھ منتخب کرلیں؛چنانچہ فکشن، جاسوسی ناول اور دیگر کم ادبی اہمیت کی چیزیں اوپر والے ہال میں رہنے دی گئیں۔ کتب خانوں اور اُن افراد کو اچھی خاصی تعداد میں کتابیں عطیہ کی گئیں، جو ان کے خواہش مند تھے اور انھیں پاکر خوش ہوئے۔
والد کی میز سابقہ ڈرائنگ روم میں لگادی گئی ، مضامین کے مطابق احتیاط سے کتابیں مرتب کی گئیں، ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے معاونین کا انتظام ہمیشہ والدہ نے کیا۔ والد بہت جلد کمپیوٹر استعمال کرنے لگے تھے، ان کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے ساتھ ایک علیحدہ ڈیسک نصب تھا۔ اب ان کے پاس ایک ایسی جگہ تھی ،جہاں وہ اپنی محبوب کتابوں سے گھرے رہتے اور یہ ان کے لیے موزوں تھی، ایک بڑی دیواری الماری میں لغات کا ڈھیر لگا ہوا تھا، کم از کم 50 کتابیں تو ہوں گی، کچھ بہت پرانی اور نایاب اردو و فارسی زبانوں کی لغات بھی تھیں۔ ایک اور بڑا حصہ غالب کے لیے وقف تھا، ایک اقبال کے لیے،ایک بڑا شیلف میر کے لیے اور اسی طرح دیگر بڑے شعرا و ادبا سے مخصوص گوشے تھے۔ادبی تنقید کی کتابیں ایک پوری دیوار پر قابض تھیں۔
والد نے خالی دیوار پر اپنے پسندیدہ آرٹس، تصاویر اور خطاطی کے نمونے فنکارانہ انداز میں چسپاں کر رکھے تھے، ان کی میز پر مختلف اسفار سے لائے ہوئے انتہائی دلچسپ نوادرات رکھے ہوتے، ان کی میز پر ان کے بچپن کی ایک تصویر بھی ہوتی(اب بھی ہے)، جب وہ بمشکل پانچ سال کے ہوں گے، جس میں وہ اپنے والد کے قریب، دو دگر بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لائبریری کا ماحول علمی؛ لیکن دوستانہ ہوتا۔
یہ لائبریری گھومنے پھرنے کی پسندیدہ جگہ بن گئی، والد صاحب وہیں مہمانوں کا استقبال کرتے۔ دارجلنگ کی چائے ایک خوبصورت ٹی پاٹ میں تیار کی جاتی اور مساوی سائز کے کپوں میں دن بھر یہاں آنے والوں کو متعدد بار پیش کی جاتی۔ خاص خاص موضوعات پر گفتگو اور انٹرویوز یہیں ہوا کرتے ۔
چونکہ والد صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد الہ آباد میں دوبارہ مقیم ہوگئے تھے ؛اس لیے گھر اورخصوصاً لائبریری ادبی گفتگو کا مرکز بن گئی تھی۔ ایک بار پھریہاں کتابوں کا ذخیرہ بڑھنے لگا۔ فرش سے چھت تک کتابوں کے ریک تیار کروائے گئے ،اس طرح لائبریری نے بالکل نئی شکل اختیار کرلی۔ یہیں بیٹھ کر والد نے اپنا مشہور ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ لکھا۔
2007 میں میری والدہ کا انتقال اس لائبریری کی تاریخ کا ایک اہم سانحہ تھا۔میری والدہ ،والد کی تمام ترمساعی کی سب سے بڑی مداح اور معاون تھیں۔ حادثاتی طور پر گرنے اور اس کے نتیجے میں سرجری کے بعد کی پیچیدگیوں کی وجہ سے غیرمتوقع طورپر ان کا انتقال ہم سب کے لیے دل دوز سانحہ تھا۔ ایک بیٹی کے لیے اس نقصان کے اثرات کا تصور بھی مشکل ہے ، میرے والدین کالگ بھگ 50 سال کا ساتھ تھا ، دونوں مکمل ہم آہنگی کےساتھ بوڑھے ہو رہے تھے۔
ماں بلا کسی رکاوٹ کے گھر چلاتی تھیں، انھوں نے والد کو اپنی ادبی مصروفیات کے لیے لامحدود اسپیس دیا، ’شب خون‘ کے آغاز کے دوران جدوجہد کے سالوں میں ان کی معاونت کی ، انھوں نے ایک کامیاب کیریئر کے ساتھ الہ آباد میں اپنے گھر کے نظم و نسق کو سنبھالا، والد کے ساتھ مل کر وہاں لائبریری بنائی۔
والد کا کتب خانہ ان کے تخلیقی سفر کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ دور دراز کے شہر شارلوٹز وِل (ورجینیا)میں بیٹھ کر اس کے بارے میں سوچتے اور لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اس کمرے کی شروع سے آخر تک کی بہت سی تصویریں ابھر رہی ہیں ۔ سب سے قدیم ڈرائنگ روم(جو ڈائننگ روم بھی تھا)کی ہے، جس میں بریلی کا ’صوفہ سیٹ‘ اور تین سیٹوں والا بنچ تھا، جسے ماں نے اپنی مرضی کے مطابق تیار کروایا تھا۔ ایک معمولی سا کشمیری اخروٹ کی لکڑی کا سینٹر ٹیبل اور ایک سرے پر کشمیری نیسٹنگ ٹیبل، وہاں کوئی قالین نہیں تھا؛ کیونکہ والد نے فرش کو ایک کلاسک بلیک اینڈ وائٹ پیٹرن پر ڈیزائن کیا تھا۔
کمرہ ہمیشہ سردیوں میں ٹھنڈا اور گرمیوں میں بہت گرم محسوس ہوتا تھا۔ کھانے کی میز پرانے طرز کی پتری دار تھی، جس کے گرد چھ مضبوط کرسیاں رکھی ہوتیں۔ یہ اکثر میرے لیے ایک متبادل مطالعے کی میز کے طور پر کام کرتی۔ ہم ڈرائنگ روم صرف رسمی مہمانوں کے لیے استعمال کرتے، عموماً آرام دہ کرسیوں والے دو کشادہ برآمدوں پر ہی مہمانوں کا خیرمقدم کیا جاتا ۔
لائبریری ملحقہ برآمدے تک پھیل گئی تھی۔ والد کے سب سے حیرت انگیز کتابی ذخیرے’ داستانِ امیر حمزہ‘ کی 45 جلدوں کا مکمل سیٹ ایک سٹیل کی الماری میں رکھا گیا ۔ والد کی ذاتی ادبی تخلیقات و تصانیف اتنی زیادہ تھیں کہ انھیں خود اپنی کتابوں کے لیے ایک مکمل الماری کی ضرورت تھی۔’ شب خون‘ کے شماروں کا ذخیرہ بھی یہیں رکھا گیا، جریدے کے چالیس سالہ شمارے مجلد بندھے ہوئے ہیں اور ہارڈ کاپی میں محفوظ ہیں۔
مختلف شہروں لکھنؤ، دہلی، پٹنہ وغیرہ میں والد کی پوسٹنگ کے دوران یہ کمرہ کبھی کبھی کھانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔عموماً میری چھوٹی بہن اور میں والدہ کے ساتھ ان کے کمرے میں کھانا کھایا کرتے ۔ جب کھانے کی میز کو لائبریری کے لیے جگہ بنانے کے لیے برآمدے میں منتقل کیا گیا، تب سے اسے کھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
کمپیوٹر ڈیسک ان دنوں کوئی خریدی جانے والی چیز نہیں تھی، ایک پرانی میز اس کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی۔ مجھے کمپیوٹر اسکرین کے قریب رکھا کی بورڈ اب بھی یاد ہے،بھاری بھرکم سی پی یو فرش پر رکھا گیا تھا، پرنٹر کے لیے جگہ نہیں تھی؛ اس لیے اس کے لیے الگ سے انتظام کیا گیا اور اسے ایک چائے کی میز پر رکھا گیا۔ کچھ سالوں بعد ایک سکینر خریدا گیا اور قریبی میز پر رکھا گیا۔ان کی تاریں اکثر الجھ جاتی تھیں؛ کیونکہ انٹرنیٹ راؤٹر بھی ڈیسک پر ہی تھا۔
لائبریری کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک صوفہ تھا۔ پہلے تو زائرین صوفے پر بیٹھتے ہوں گے؛ لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی کتابوں سے بھر گیا تھا۔ یہ وہ کتابیں تھیں جو تقریباً روزانہ بڑی تعداد میں مختلف مصنفین ، شاعروں ،مضمون نگاروں اور فکشن نویسوں کی جانب سے پہنچتی تھیں،ان میں شعری مجموعوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔
جریدۂ ’شب خون‘ کے کے بند ہونے کے بعد اس کی جگہ ’خبرنامہ‘ نے لے لی۔ ’خبرنامہ‘ اپنے نام کے مطابق مشمولات کے ساتھ زندہ رہا، یہ نئی کتابوں کی رپورٹس، تبصروں اور خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ والد ایک عظیم مکتوب نگار بھی تھے، انھوں نے اپنے زمانے کے ادباکو اپنے ہاتھ سے ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے۔ کچھ خطوط شائع بھی ہو چکے ہیں؛ لیکن ان کے مکاتیب کا ایک بڑا ذخیرہ غیر مطبوعہ ہے ،جنھیں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
’خبرنامہ‘ بھی اکیلے نہیں نکالا جا سکتا تھا؛اس لیے ایک سیکرٹری کی ضرورت تھی۔ اب خالی جگہ میں ایک تیسرا ڈیسک رکھا گیا ۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ کتابوں کی شیلفیں فرش سے چھت تک دیواروں سے لگی ایستادہ تھیں، بھاری بھرکم ریک ہٹا دیے گئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس بڑے سے کمرے میں اور بھی چیزیں ایڈجسٹ ہوتی رہیں ۔ کمرے کا بوسیدہ سیاہ و سفید فرش لینولیم سے ڈھکا ہوا تھا اور جب وہ کھردری ہو گئی، تو مخصوص قسم کے قالینوں سے کمرہ روشن ہوگیا۔
اپنے آخری سالوں میں، والد کو اس بڑے مسئلے کا سامنا تھا کہ ان کی پیاری لائبریری کا کیا کرنا ہے؟ کتابیں کسی آرکائیو لائبریری کو عطیہ کردی جائیں یا انھیں اِسی جگہ اسکالرز کے مصدر و مرجع کے طور پر محفوظ رکھا جائے؟ ان کا خواب یہ تھا کہ کتابوں کا یہ ذخیرہ کسی ایک جگہ پر رکھا جائے اور ممکنہ طور پر اسے ایک دارالمطالعہ میں تبدیل کردیا جائے، جو محققین کے لیے کھلا رہے۔ ہم( ان کی بیٹیوں) نے انھیں یقین دلایا کہ ہم اس لائبریری کی دیکھ بھال کریں گےاور اسے ایک ریسورس لائبریری بنانے کے ان کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
میری بہن باراں نے کتابوں کی فہرست سازی کے لیے پچھلے دنوں ریٹائر ہونے والے ایک پروفیشنل لائبریرین کی خدمات حاصل کرکے اس پروجیکٹ کا سنجیدگی سے آغاز کیا ۔ کئی وجوہات(جنھیں یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں) کی بنا پر یہ کام آسان نہیں تھا؛ لیکن بہرحال یہ منصوبہ اب تکمیل کے قریب ہے۔ اگلا قدم اس لائبریری کو اس طرح زندہ و شاداب رکھنا ہو گا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کے ادبی وژن سے منور گفتگووں اور لیکچرز کی بھی جگہ ہو۔
(مضمون نگار یونیورسٹی آف ورجینیا،امریکہ میں ڈپارٹمنٹ آف مڈل ایسٹرن اینڈ ایشین لینگویجز اینڈ کلچرز کی پروفیسر ہیں۔ اصل انگریزی مضمون دو قسطوں میں روزنامہ’ڈان‘ کے 6 اکتوبر اور 8 دسمبر 2024کے شماروں میں شائع ہوا ہے)